• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میاں نوازشریف احتساب عدالت میں پیش ہوئے تو ان کے سامنے ایک صحافی کا پرس گر گیا۔اس پر میاں صاحب نے کہاکہ۔۔۔بھئی !اپنے پرس کو جیب میں ڈال لیں ۔پرس کوئی نکال لے گااورالزام مجھ پر آجائے گا۔مراد یہ تھی کہ موصوف کے ساتھ پیش آنے والی جیب تراشی کی واردات کا پرچہ بھی ان پر کاٹ دیاجائیگا۔ میاں صاحب اپنے طرز ِتکلم اور اندازِسیاست سے ببانگ دہل کہہ رہے ہیںکہ انہوں نے کوئی چوری نہیں کی اقامے کے طور پر ’’مال مسروقہ‘‘ خود سے برآمد کرکے انہیں نااہل قراردے دیا گیا۔ بلاشبہ میاں نوازشریف منتخب وزیراعظم تھے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انہیں عدالتی فیصلے کے نتیجے میں وزارت عظمیٰ سے ہٹائے جانے پر چار روزہ جی ٹی روڈ احتجاج کے بعد کوئی عوامی تحریک نہیں چل سکی۔ لیکن اس وقت میاں نوازشریف کا استدلال سچ لگتا ہے جب وہ یہ کہتے ہیں کہ اس ملک کی عدالتوں نے ہمیشہ منتخب نمائندوں کو ان کے عہدوں سے ہٹایاہے آمروں کو کٹہروں میں کھڑا نہیں کیا۔ ریکارڈ گواہ ہے کہ وطن عزیز میں 17وزرائے اعظم کو ان کے عہدوں سے ناخوشگوار انداز سے ہٹایا گیا۔ متذکرہ تمام منتخب نمائندوں کو کرپشن، نااہلیت اور آئین سے انحراف کرنے پر حکومتوں سے نکالاگیا۔ بعدازاں تاریخی سانحات کی اس سیریز کا ’’پرچہ‘‘ اس طرح کاٹا گیا کہ ہمارے ہاں منتخب نمائندے عوام سے دھوکا دہی کے مرتکب ہوتے رہے ہیں اور وہ عوام کا مینڈیٹ چراتے رہے ہیں جو ایک طرح سے جیب تراشی کے زمرے میں آتاہے۔
اپنے صحافتی کیرئیر کے آغاز میں، میں نے جیب تراشوں کے طریقہ واردات اور نیٹ ورک کے حوالے سے فیچر تحریر کئے تھے جو روزنامہ جنگ کے جمعہ میگزین میں شائع ہوئے تھے۔ ان فیچرز کے لئے حقیقی جیب تراش مجھے میرے سینئرز بابا جمیل چشتی اور آصف علی پوتا مرحوم نے مہیا کئے تھے۔ اس وقت جمیل چشتی روزنامہ جنگ کے سینئر کرائم رپورٹر ہوا کرتے تھے جنہیں اگر جرائم رپورٹر کہاجائے توزیادہ مناسب ہوگا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جمیل چشتی اپنے شعبہ یعنی کرائم رپورٹنگ کے ’’بگ بی‘‘ سمجھے جاتے تھے یہی وجہ ہے کہ جرائم کی دنیا اورمجرموں میں انہیں ایک برینڈ کی حیثیت حاصل تھی۔ یاد کیجئے 100بچوں کے قاتل جاوید اقبال نے جمیل چشتی کی EXCLUSIVE REPORTING اور بعد از گرفتاری رنگین ایڈیشن کو مدنظررکھتے ہوئے روزنامہ جنگ لاہور میں خود اپنے آپ کو سرنڈر کیا تھا۔ بات جیب تراشوں اور ان کے نیٹ ورک کی ہورہی تھی۔جونیئرجیب تراش جو لوگوں کی جیبیں کاٹتا ہے اسے انکی زبان میں ’’مشین‘‘ کہا جاتا ہے۔ جیب تراشوں کے ایک گروہ میں چار سے پانچ مشینیں (جیب تراش) جبکہ ان پر ایک ’’تھاموں‘‘ تعینات ہوتا ہے۔ تھاموں کی حیثیت FOREMANکی ہوتی ہے جو ایک طرح سے جیب تراشوں کا فیلڈ انچارج ہوتا ہے۔ ان کا طریقہ واردات یہ ہوتا ہے کہ جیب تراش جب میدان عمل میں اترتے ہوئے عوام الناس کی جیبوں سے برسر پیکار ہوتے ہیں تو تھاموں اس تمام سرگرمی کی نگرانی کرتا ہے۔ موقع واردات پر رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کی صورت میںجب لوگ جیب تراش کو مارنے پیٹنے میں مشغول ہوتے ہیں تو تھاموں اسے زیادہ خوفناک طریقے سے پھینٹی لگاتے ہوئے ان کے چنگل سے چھڑا لے جاتاہے۔ آپ حیران ہوں گے کہ ہمارے ہاں یہی ’’طریقہ واردات ہائے زندگی‘‘رائج ہے۔2013 کے عام انتخابات کو یاد کیجئے آصف علی زرداری نے ان کی شفافیت پر شک کرتے ہوئے کہاتھاکہ’’ ہمارا مینڈیٹ چرایا گیاہے ، یہ آر اوز کا الیکشن تھا‘‘۔بعدازاں انہوں نے واضح طور پر جسٹس ریٹائرڈ افتخار محمد چوہدری پرالزام عائد کرتے ہوئے کہاتھاانہوں نے ریٹرننگ آفیسرز کو ساتھ ملا کر نوازشریف اور نون لیگ کو جتوایاتھا۔ درج بالا کیس تھاموں اور مشینوں کے مابین آئیڈیل ورکنگ ریلیشن شپ کی عمدہ مثال ہے۔ مینڈیٹ چرانے کا الزام میاں صاحب اور ان کے مہربان ’’سائنسدانوں ‘‘ پر 1985کے غیر جماعتی انتخابات سے لے کر آر او از فیم انتخابات پربھی عائد کیاگیا۔ مینڈیٹ چرانے کا یہ طریقہ واردات 2فروری 1965کو ہونے والے انتخابات میں متعارف کرایاگیا ۔یہ صدارتی انتخاب جنرل ایوب خان اور محترمہ فاطمہ جناح کے مابین براہ راست لڑا گیاتھا ۔ان انتخابات میں مشرقی پاکستان کے لیڈر شیخ مجیب الرحمن ، فاطمہ جناح کی سپورٹ کررہے تھے۔یہ دلخراش حقیقت بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ ان انجیئرڈالیکشن کے لگ بھگ 5سال کے اندر 7دسمبر 1970کوہونے والے انتخابات کے نتیجہ میں مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہوکر بالآخر بنگلہ دیش کا روپ دھار گیاتھا۔ افسوس صد افسو س اس نوع کے سانحات کے بعد بھی قومی ’’جیب تراشی ‘‘ کی وارداتوں کی روک تھام نہیں کی جاسکی۔
ہمارے ہاں سیاست میں ایک دوسرے پر براہ راست جیب تراشی کے الزامات بھی عائد کئے جاتے رہے ہیں۔2007کے آخر میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کے وطن واپسی کی خبریں آئیں تو اس وقت کے وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الہٰی نے کہاتھاکہ ’’خبردار !اپنی اپنی جیبوں پر ہاتھ رکھ لیں، جیب تراش جوڑی واپس آرہی ہے‘‘۔حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ چوہدری پرویز الہٰی،جنرل مشرف کے دور میں روشن خیالی کی ’’مشین‘‘ جبکہ چوہدری شجاعت ایمرجنسی پلس کے ’’تھاموں ‘‘ کی حیثیت اپنی کارکردگی کا بھرپور مظاہرہ کرچکے تھے۔
محترمہ کے قتل کے بعد ’’قاتل لیگ ‘‘ یا مدعاعلیہان لیگ سے یہ نعرہ لگا کر صلح کرلی گئی کہ ’’جمہوریت بہترین انتقام ہے ‘‘۔بھٹو کی بیٹی کا خون بھی خونِ خاک نشیناں ثابت ہواکیونکہ بی بی کے قاتلوں کو سزانہ ملنے کے ساتھ ساتھ اس عظیم قربانی کے باوجود ملک کے غریب عوام کا بھی کوئی بھلانہ ہوسکا۔ یوسف رضا گیلانی کا وزیر اعظم منتخب ہونا اور آصف زرداری کے لئے صدارتی استثنیٰ بھٹو کی بیٹی کے قتل کا بہت کم قصاص ہے۔ پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ معافی اور افہام وتفہیم کی سیاست کا آغاز محترمہ بے نظیر بھٹو نے کیاتھالہذا اس روایت کو آگے بڑھانا ان کا آدرش تھا۔یہ محترمہ کی سیاست کا ہی اعزاز ہے کہ سازشوں کے طوفان میں بھی دوسری منتخب حکومت اپنی ٹر م پوری کررہی ہے۔اگرچہ نوازشریف نااہل ہوچکے ہیں لیکن انہیں پارٹی سربراہ منتخب کرنے کیلئے قانون سازی کرلی گئی۔مقتدر قوتوں نے کہاہے کہ پارلیمان سے فرد واحد کے لئے آئین سازی کرنا جمہوراور جمہوریت کی خدمت نہیں ہے۔سوال یہ بھی اٹھایاجارہاہے کہ زرداری کو کیاچیز نوازشریف سے ملنے نہیں دے رہی ؟اس بابت یہی کہاجارہاہے کہ نوازشریف اورنون لیگ کی ساری سیاست پیپلز پارٹی کی سیاسی تجہیزوتکفین کرتے ہوئے پھلی پھولی ہے، اس کے برعکس آصف زرداری نے لگ بھگ نون لیگ کی حکومت کا ایک تہائی وقت فرینڈلی اپوزیشن کا طعنہ سنا اور انہیں یہاں تک لے آئے۔ لیکن اب جبکہ نوازشریف نااہل ہوچکے اور انہیں عدالتوں کی طرف سے پے درپے مقدمات کا سامنا ہے تو زرداری کس لئے نوازشریف کے ساتھ مل کر ’’جے اور ویرو‘‘ کی جوڑی بنائیں؟؟؟ وفاشعاری کی اپنی ٹرم میں تو نوازشریف نجانے کس کی’’ فرمائش‘‘ پر کالاکوٹ پہن کر عدالت چلے گئے تھے اور اب انہیں مشکلات کا سامنا ہے تو زرداری صاحب سے ماضی کے جنگجو ہیرولالے سدھیر جیسی پرفارمنس کی توقع کررہے ہیں جو انہوں نے پنجابی فلم ’’یار نبھاندے یاریاں ‘‘( دوست دوستیاں نبھاتے ہیں)میں دی تھی۔یہ 80کی دہائی نہیں ہے ،نہ ہی کو ئی جیلانی اور ضیاجیسا محسن عظیم دستیاب ہے لہذا اپنی جنگ آپ لڑنا پڑے گی جیسے ماضی میں پیپلزپارٹی نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف لڑی تھی۔وطن عزیز اور عوام کی بھلائی اسی میں ہے کہ تھاموں اورمشینوں کا کھیل ختم کیاجائے۔عوام کو بھی چاہیے کہ وہ ہر قسم کے جیب تراشوں سے ہوشیار رہیں اورآئین،جمہوریت اوراپنے حقوق کی جیب کٹنے نہ دیں۔

تازہ ترین