• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گھر ایک چھوٹی سی ریاست ہے گھر کے مکین یعنی اہلخانہ اس ریاست کی آبادی ہیں اور ماں باپ اس کی حکومت، اس حکومت کی سربراہی عموماً باپ کے حصے میں آتی ہے اس منی سی ریاست کا سربراہ یعنی باپ بیوی سے محبت، بچوں سے پیار کرتا ہے ان کی خواہشوں کا احترام اور ضروریات کا خیال رکھتا ہے ان کی خوشی ، خوشحالی اور اچھے مستقبل کے لئے اپنا حال اور اس کی ساری تاب و توانائی خرچ کر ڈالتا ہے اس کے نتیجے میں بیوی میاں سے محبت کرتی اور بچے احترام میں بچھے جاتے ہیں سارا خاندان اس کی رائے اور خواہش کو فوقیت دیتا ہے باپ اپنی ریاست (خاندان) کا سربراہ ہے مگر وہ اس کا مالک اور مختار نہیں بلکہ وہ ان سب کی کفالت اور حفاظت کی ذمہ داری قبول کرتا ہے اسے کبھی یہ جتانے کی ضرورت پیش نہیں آتی کہ وہ اس گھر میں ’’سپریم ‘‘ ہے بلکہ اس کی طرف سےمحبت کے ساتھ ادا کی گئی ذمہ داریاں اسے ’’سپریم‘‘ بنائے رکھتی ہیں وہی محبوب اور محترم باپ جو خاندان کا سربراہ اور عزت وقار کی علامت ہے اگر وہ اپنی راہ بھٹک جائے ،بیوی پر بگڑنا اور بچوں کو مارنا شروع کر دے جوابازی، نشہ آوری، بدقماشی ایسی عادات بد کا شکار ہو جائے ، گھر کی ذمہ داریوں سے ہاتھ اٹھا لے، خود تہی دست ہو کر گھر کو افلاس میں جھونک دے ،بری عادتوں کا اسیر بن کر گھر کا سامان بیچنا اور چوری چکاری کرنا شروع کر دے تو پھر مجبوراً ماں خود یا بچوں میں سے کوئی باہمت اٹھ کھڑا ہوتا ہے جو گھر کی ذمہ داریوں کو کندھے پر لیتا ہے، بوجھ بن جانے اور عزت کو بٹہ لگانے والے باپ کو ناکارہ لکڑی کی طرح کسی کونے کھدرے میں پھینک کر نظر انداز کر دیا جاتاہے، اب خاندان کی آنکھوں کا تارا اور گھر کا سربراہ وہی ہے جس نے ذمہ داری نبھانے کا عہد کیا۔اگرچہ باپ کے ساتھ خون کا رشتہ ہے اور روح کا تعلق بھی وہ اپنی ذمہ داریوں کو نبھا نہ سکا تو خاندان نے بھی اسے بھلا دیا۔ پارلیمنٹ سپریم ہے کی تکرار آئے روز سننے اور پڑھنے کو ملتی ہے چیئرمین سینیٹ ، سپیکر قومی اسمبلی، بعض ممبران اسمبلی جنہیں کچھ دانشوری کا خبط بھی ہے علاوہ چند آلٰہ کار نیم خواندہ قلم کار یہ جملہ مسلسل جگالتے رہتے ہیں جیسے کوئی کم ظرف ، بخیل نو دولتیا، ہر رات بوری میں بھرے نوٹ بار بار گنتا رہے کہ خود کو اپنی امارت کا یقین دلاسکے۔ایسا ہی کچھ معاملہ سیاست دان بھائیوں کا ہے ورنہ آج تک ان کے دعوے کو کسی نے جھٹلایا، انکار کیا نہ جوابی دعویٰ کیا گیا تو پھر انہیں اس تکرار پر اصرار کیوں ہے؟’’سپریم ‘‘ کے لغوی معنی کچھ یوں لکھے ہیں نہایت اعلیٰ، سب سے اعلیٰ، برتر، بالا دست، صاحب اقتدار، عظیم، اعلیٰ ترین درجے پر فائز، عوام کی کوکھ سے پارلیمنٹ پیدا ہوتی اور پارلیمنٹ کی پسلیوں سے حکومت نکلتی ہے جس طرح پارلیمنٹ پیدا کرنے و الے عوام کی طرف نہ مڑ کے دیکھتی نہ اس کے مفاد کے لئے کام کرتی ہے ، اسی طرح پارلیمنٹ کی پسلیوں سے نکلی حکومت بھی اپنے اجداد کو گھاس نہیں ڈالتی۔یہی حکومت ریاست کی نمائندگی کرتی اور انتظامیہ کی سربراہ ہوتی ہے حکومت آئین کی حدود کے اندر، قانون کے مطابق، عوام سے کئےوعدوں اور ریاست کی طرف سے سونپی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی پابند ہے جس طرح ایک اچھے خاندان کا مہربان سربراہ اپنی ذمہ داری نبھاتا ہے۔ پارلیمانی جمہوریت کو علم سیاست میں ذمہ دار حکومت کہا جاتا ہے تھوڑی سست مگر ذمہ دار، سست اس لئے کہ حکومت کوئی قدم اٹھانے اور فیصلہ کرنے سے پہلے پارلیمنٹ میں سنجیدہ اور طویل غوروفکر کرتی ہے جب فیصلہ ہو جائے تو کابینہ اجتماعی طور پر اس کی ذمہ داری قبول اور نتائج کا سامنا کرتی ہے قبول کی گئی ذمہ داریوں کو پورے خلوص اور دیانتداری سے پورا کرتی ہے ،یہ حکومت ریاست کا انتظام چلانے، عوام کے جان ومال کی حفاظت کرنے، انکی فلاح وبہبود کے علاوہ وطن کے دفاع اور سلامتی کی بھی ذمہ دار ہوتی ہے۔ حکومت، ریاست یا اس کے کسی حصے یا جز کی مالک و مختار نہیں ہوتی ، وہ اپنی مرضی کی مالک بھی نہیں ہے اسے آئین اور عوام کی طرف سے سونپی گئی ذمہ داریاں نبھانا ہوتی ہیں۔پارلیمنٹ خود اپنے بنائے ہوئے قانون سے باہر نہیں جاسکتی اپنے بنائے قانون کی خود تشریح نہیں کر سکتی۔پاکستان میں پارلیمنٹ کے پاس آئین اور قانون سازی کے اختیار اور بھی محدود ہیں ۔یہ قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی نہیں کرسکتی ۔آئینی اداروں کو ختم کرنے کے لئے آئین میں ترمیم نہیں کر سکتی، آئین کے بنیادی ڈھانچے کو تبدیل نہیں کرسکتی ، ان حدود اور قیود کے باوجود پارلیمنٹ کی بالادستی کو کسی غیر پارلیمانی ادارے نے چیلنج نہیں کیا۔تاہم ’’سپریم‘‘ کی یاد دہانی کروانے والوں کا خطاب زیادہ تر مسلح افواج اور کبھی کبھار عدالت عظمیٰ کی طرف ہوتا ہے، یہ آنکھوں دیکھی حقیقت ہے کہ فوج نے کبھی پارلیمنٹ کا حکم تو کیا اسکی معمولی خواہش سے بھی سرتابی نہیں کی ،پارلیمنٹ کی خواہش پر کھلی بات ہو یا ’’ان کیمرہ‘‘ بریفنگ وہ پوری تیاری کے ساتھ بروقت حاضر ہوتے ہیں، سینیٹ اور قومی اسمبلی کی دفاعی کمیٹیوں کو تینوں افواج کے سربراہ اور ان کے ذیلی ادارے ہر سال اپنے ہیڈکوارٹر میں مدعو کرتے ادارے کا سربراہ خود ان کمیٹیوں کو بریف کرتا ان کے ہرسوال اور اعتراض کا خوشدلی سے جواب دیتا ہے ،پارلیمنٹ کے کمیٹی روم میں آنے کیلئے ہمیشہ تیار رہتے ہیں عوامی دور حکومت ہو یا فوج کے زیر سایہ پارلیمنٹ فوج کے ان معمولات میں کبھی فرق نہیں آیا۔پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان سے براستہ ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم محمد خان جونیجو تک ہر سربراہ حکومت کی اولین ترجیح قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا کرتی تھی، وہ سینیٹ کے اجلاس میں بھی بروقت حاضر ہوتے، سوالوں کے جواب دیتے۔
ممبران سے تبادلہ خیالات کرتے، اجلاس کے شروع سے پہلے پارلیمانی پارٹی کی بیٹھک ہوتی اس دن کی کارروائی اور قانون سازی کے بارے میں فیصلے کئے جاتے، بل پاس کروانے کی منصوبہ بندی ہوتی، وقفہ سوالات کے بعد بھی وزیر اعظم اجلاس میں شریک رہتے یا دوسرے کام نمٹانے کے لئے اسمبلی بلڈنگ کے اندر اپنے چیمبر میں موجود ہوتے ، جہاں وزراء اور ممبران اسمبلی آزادانہ آ جا سکتے تھے لیکن 1988ءکے بعد جن لوگوں نے اپنا نام ’’بی بی ‘‘ اور ’’بابو‘‘ جمہوریت رکھ چھوڑا ہے یہ کبھی ایوان میں جھانکنے کےلئے بھی پارلیمنٹ ہائوس نہیں آئے ۔وزیر اعظم بے نظیر کبھی سینیٹ کے اجلاس میں نہیں آئی تھیں ، ایک دن دوران اجلاس پیپلز پارٹی کے وزراء اور ممبران سینیٹ گھبرائے پھرتے تھے جوں شاہی سواری نکلتے وقت غلام گردشوں میں خواجہ بھاگے پھرتے ہوں، معلوم ہوا کہ آج وزیر اعظم تشریف لایا چاہتی ہیں اجلاس ختم ہونے کو آیا مگر شاہی سواری
سنا تھاکہ وہ آئینگے انجمن میں ،سنا تھا کہ ان سے ملاقات ہو گی
ہمیں کیا پتہ تھا ہمیں کیا خبر تھی نہ یہ بات ہو گی نہ وہ بات ہو گی
وہ کبھی کبھار قومی اسمبلی میں بھی یوں آیا کرتیں جیسے کوئی شہزادی ہمجھولیوں کے جھرمٹ میں سیر گلشن کو چلی ہو یا کوئی شوخ پری جوئے کہسار اٹھکیلیاں کرتی پھرے۔
بابو کی تشریف آوری غضب کی تھی وہ کبھی یوں نہ آئے جیسے لندن کے شاپنگ سنٹر ’’ہیراڈ‘‘ میں شاپنگ کیا کرتے ان کا آنا یوں جانئے کہ آکسفورڈاسٹریٹ پر ’’ونڈو‘‘ شاپنگ ہو رہی ہے ایوان کے منت ترلے، شور ہنگامے کے باوجود انہوں نے سینیٹ کی طرف نظر بھر کے نہ دیکھا، ایوان نے اپنے قواعد میں ترمیم کرکے وزیر اعظم کو دوران اجلاس کم از کم ایک دن آنے کا پابند بنایا یہ ترمیم بھی بے سود رہی۔ ایوان اس پر ان کے خلاف تحریک استحقاق منظور کرکے کارروائی کر سکتا تھا مگر ہمت نہ پڑی، وزیر اعظم نے مقدس ایوان میں کھڑے ہو کر دھواں دار تقریر کی بعد میں عدالت کے اندر اس تقریر کی یہ کہہ کر تردید کر ڈالی کہ وہ سیاسی بیان تھا۔اس دروغ گوئی پر ایوان بت بن گیا اس کے باوجود ہم ہیں پاکستانی ہم تو جیتیں گے !

تازہ ترین