• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب حکومت نے یہی مناسب جانا کہ لاہور ہائی کورٹ کے فل بنچ کے حکم کے بعد سانحہ ماڈل ٹائون پر یک رکنی عدالتی کمیشن کی رپورٹ پبلک کر دے۔ اس کے پاس آپشن تھا کہ وہ اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرتی مگر اس نے یہ راستہ نہیں اپنایا۔ اگر یہ اپیل میں چلی جاتی تو یہ مسئلہ خواہ مخواہ لٹکتا جاتا یہاں تک کہ اگلے انتخابات آجاتے۔ عوامی مطالبے پر پنجاب حکومت نے یہ عدالتی کمیشن جو جسٹس باقر نجفی پر مشتمل تھا بنایا تھا کہ وہ جون 2014ء میں ہونے والی خون ریزی پر رپورٹ تیارکرے۔ جب سے انہوں نے یہ رپورٹ دی ہے پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی)مطالبہ کر رہی تھی کہ اسے پبلک کیا جائے مگر پنجاب حکومت اس کیلئے تیار نہیں تھی۔ بالآخر معاملہ ہائی کورٹ میں چلا گیا جہاں پنجاب حکومت نے اس رپورٹ کو جاری کرنے کی سخت مخالفت کی۔ ایسے تمام عدالتی کمیشن وفاقی یا صوبائی حکومتیں بناتی ہیں جو اپنی رپورٹیں انہی کے حوالے کرتے ہیں اور پھر یہ حکومت کی صوابدید ہوتی ہے کہ وہ ان کو جاری کرے یا نہ کرے۔ پاکستان کی تاریخ میں بے شمار کمیشنوں نے رپورٹیں دی ہیں جن کو حکومتوں نے جاری نہیں کیا۔ ان میں سب سے زیادہ قابل ذکر جسٹس حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ ہے جو کہ سانحہ مشرقی پاکستان کے متعلق ہے۔ یہ رپورٹیں حکومت کیلئے بائنڈنگ نہیں ہوتیں اور ان کی حیثیت صرف فیکٹ فائنڈنگ کی ہوتی ہے۔ فل بنچ نے بھی اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹائون کی رپورٹ اس واقعہ کے بارے میں جو کیس ملزمان کے خلاف ٹرائل کورٹ میں چل رہا ہے اس پر بالکل اثر انداز نہیں ہوگی اور وہ مقدمہ آزادانہ طور پر حقائق اور واقعات کی روشنی میں چلے گا۔ اگر اس رپورٹ کی مقدمے میں کوئی حیثیت ہی نہیں ہے تو پھر اس کا کیا فائدہ ہے سوائے اس کے کہ علامہ طاہر القادری کی پی اے ٹی اس سے سیاسی فائدہ اٹھا سکے ۔پہلے ہی وہ اس سانحہ پر بہت سیاست کر چکی ہے اور آئندہ بھی کرتی رہے گی۔ طاہرالقادری کا یہ کہنا کہ پنجاب حکومت نے جو رپورٹ جاری کی ہے اس میں ردوبدل کیا گیا ہے بالکل لغو اور مضحکہ خیز ہے۔ انہیں کیسے معلوم ہوگیا کہ اس کو ٹمپر کیا گیا ہے۔ ان کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ وہ ہر ایسا کام کریں جس سے کسی حد تک ان کی سیاسی میدان میں جگہ بن سکے مگر وہ اس میں کبھی کامیاب نہیں ہوئے اور ان کا رول سوائے ایک شوروغوغا مچانے اور بحران پیدا کرنے والے کے کچھ نہیں ہے۔ سانحہ ماڈل ٹائون کے بعد بھی انہوں نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ساتھ مل کر لاہور سے اسلام آباد لانگ مارچ کیا تھا اور پھر اس کے بعد انہوں نے ڈی چوک میں کئی ماہ دھرنا دیئے رکھا اور شہریوں کی زندگی اجیرن کر دی۔ اس سارے تماشے کے بعد بھی انہیں قطعی طور پر عوامی پذیرائی حاصل نہیں ہوئی تھی۔
جسٹس نجفی کی رپورٹ کا جائزہ لینے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس نے الزام تو ہر ایک پر لگا دیا ہے مگر ذمہ داری کسی پر نہیں ڈالی۔ اس کے آخر میں یہ بھی لکھنا ہے کہ رپورٹ پڑھنے والے خود ہی اندازہ کر لیں کہ ذمہ دار کون ہے حالانکہ چاہئے تو یہ تھا کہ وہ یہ لکھتے کہ فلاں فلاں سیاسی رہنما یا اہلکار اس سانحہ کا ذمہ دار ہے۔ رپورٹ کے مطابق پنجاب کی تمام اتھارٹیز کی غفلت اور لاپروائی سے ان کے بے گناہ ہونے پر شک پیدا ہوتا ہے، آپریشن سے قیمتی جانیں ضائع ہوئیں حالانکہ اس سے بچا جاسکتا تھا، پولیس نے قتل عام میں پھرتی سے کام لیا، حکومت کی سچ پر پہنچنے کی نیت ٹھیک نہیں تھی، پولیس کو ہٹانے کا حکم جاری نہیں کیا گیا، نہتے کارکنوں کے خلاف پولیس کی اس طرح کی کارروائی کا تصور نہیں کیا جاسکتا، وزیر قانون رانا ثناء اللہ کی سربراہی میں آپریشن کا فیصلہ کیا گیا، پولیس نے وہی کیا جس کیلئے بھیجا گیا اورغیر مسلح مظاہرین پر فائرنگ کس کے حکم پر ہوئی کوئی بتانے کو تیار نہیں۔اس رپورٹ کے مقابلے میں پنجاب حکومت نے نجفی ٹربیونل فائنڈنگ اور سانحہ کے حالات واقعات کے متعلق سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس خلیل الرحمن پر مشتمل ایک رکنی کمیٹی بنائی تھی جس کی رپورٹ بھی جاری کر دی گئی ہے۔ اس نے جسٹس نجفی کمیشن کی حیثیت اور اس کی سفارشات کے حوالے سے متعدد قانونی نکات اٹھائے اور اپنے حتمی تجزیے میں حکومت کو تجویز کیا کہ وہ جسٹس نجفی کی رپورٹ کو قبول نہ کرے کیونکہ یہ مفاد عامہ کے منافی ہے۔ اس سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور امن عامہ کو شدید نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔ جسٹس خلیل الرحمن نے یہ بھی سفارش کی کہ حکومت معاملے میں انکوائری کرے اور اس حوالے سے اسمبلی سے قانون منظور کرائے ۔ 52 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں کہا گیا کہ نجفی ٹربیونل نے وزیر اعلیٰ کے حوالے سے جائے وقوعہ کو پولیس سے خالی کرانے سے متعلق جو فائنڈنگ دی ہیں حقائق پر مبنی نہیں ہیں یہ ٹربیونل کی اپنی سوچ کی عکاس ہیں اور اس حوالے سے ٹربیونل کی رپورٹ میں تضادات ہیں، ٹربیونل بہت سے حقائق سامنے نہیں لایا، آئی بی کی رپورٹ کو نظر انداز کر دیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ طاہر القادری کے گھر سے فائرنگ ہوئی جس سے تین پولیس اہلکار زخمی ہوئے، اس پہلو کو بھی نظر انداز کیا گیا کہ پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنایا گیا، ٹربیونل نے اپنا فیصلہ لکھتے ہوئے خود کو جج تصور کر لیا، یہ بھی تصور کیا گیا کہ وزیر قانون نے طاہرالقادری کو اپنے مقاصد کے حصول کو پورا نہ ہونے دینے کا فیصلہ کیا حالانکہ شہادت موجود ہے کہ وزیر قانون نے رکاوٹیں ختم کرنے کا فیصلہ قانون کے مطابق کیا۔ رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ رپورٹ نقائص سے بھرپور اور نامکمل ہے اس میں کسی کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا اور رپورٹ میں مختلف ایجنسیوں کی رپورٹوں کو منسلک نہیں کیا گیا جن میں دونوں اطراف سے فائرنگ کا ذکر ہے۔طاہر القادری نے رپورٹ جاری ہونے کے بارے میں فیصلے پر اپنی پرانی خواہش کا اظہار کیا اب دونوں بھائی (نوازشریف اور شہبازشریف) جیل جائیں گے ، یہ مظلوموں کو انصاف کی فراہمی کی طرف اہم قدم ہے اور رپورٹ میں سے کچھ ڈیلیٹ کرنے والے خود ڈیلیٹ ہو جائیں گے۔
رپورٹ جاری ہونے سے یقیناً پنجاب حکومت دبائو میں آئی ہے اور اسے اپنے مخالفین کی سخت تنقید کا سامنا ہے۔ ہر کسی کی کوشش ہے کہ وہ اس سے زیادہ سے زیادہ سیاسی فائدہ اٹھائے اور کسی نہ کسی طرح نون لیگ کو زچ کرے۔چونکہ نئے عام انتخابات سے چند ماہ قبل یہ رپورٹ جاری کی گئی ہے حکومت مخالف عناصر کی کوشش ہے کہ وہ اس سے اتنا فائدہ اٹھائیں کے حکمران جماعت کو اگلے الیکشن میں کافی نقصان پہنچا سکیں۔ نجفی رپورٹ کی سیاسی حیثیت تو ضروری ہے مگر قانونی حیثیت کچھ نہیں۔ کچھ عرصہ خصوصاً عدالت عظمیٰ کے 28جولائی کے فیصلے جس میں نوازشریف کو بطور وزیراعظم ڈس کوالیفائی کیا گیا تھا سے شریف برادرز کے مخالفین بڑے زور شور سے کہہ رہے ہیں کہ سانحہ ماڈل ٹائون کی رپورٹ آنے کے بعد نئے مقدمات بنیں گے ،شریف فیملی کی مشکلات بہت بڑھ جائیں گی اور نون لیگ کی سیاست ختم ہو جائے گی ۔یہ پروپیگنڈا اسی سازش کا حصہ ہے جو کہ 2013ء جب سے نون لیگ حکومت میں آئی ہے سے چل رہی ہے۔ 2014ء کا دھرنا، 2016ء کا اسلام آباد کا ناکام لاک ڈائون اور پچھلے ماہ فیض آباد انٹرچینج پر ہونے والا تماشا اسی سازش کی کڑیاں ہیں۔ اس طرح کی اسکیموں اور احتجاجوں سے صرف جمہوریت اور سول حکومت ہی کمزور ہوئی مگر ایسا کرنے والوں کو سیاسی طور پر کچھ زیادہ حاصل نہیں ہوا بلکہ وہ عوام کی نظر میں مزید گر گئے۔

تازہ ترین