ایسا کیا ہو گیا کہ وہ جو سب کا پسندیدہ تھا یکایک ناپسندیدہ بن گیا۔ آصف زرداری، عمران خان، طاہر القادری سب یک زبان ہیں کہ اب اسے نکالیں گے۔ صرف تین ماہ پہلے لگتا تھا کہ شہباز شریف کو بالآخر بڑے اقتدار کی باری ملنے والی ہے ۔ مگر اب ایسے محسوس ہورہا ہے کہ ان کے چھوٹے اقتدار ہی کی بازی لگنے والی ہے۔ تین ماہ میں شہباز شریف نے کچھ تو ایسا کیا ہو گا کہ سب کچھ بدل گیا ہے حالانکہ پہلے تو شہباز شریف کو ہر درد کا درماں سمجھا جاتا تھا نوازشریف کی جگہ شہباز شریف کو بٹھانے کا منصوبہ مکمل تھا اور توقع یہی تھی کہ یہ تبدیلی کوئی اتنی مشکل بھی نہیں ہو گی کیونکہ عمران خان کے دھرنے کے موقع پر خود نواز شریف، اپنے بھائی کو کہہ چکے تھے کہ اب میری جگہ تم آ جائو۔ سات آٹھ اور مواقع پر بھی وہ یہی پیشکش شہباز شریف کو کر چکے تھے لیکن شہباز شریف اگلے الیکشن کے بعد مرکز میں جانا چاہتے تھے اس لئے وہ مسلسل انکار کرتے رہے۔ ’’دوسری‘‘ طرف بھی شہباز شریف کی شہرت اور تاثر اچھا تھا مگر اچانک کیا ہوا کہ سب پتھروں کا نشانہ شہباز شریف بن گئے؟ اس پر بعد میں بات کرتے ہیں پہلے آپ کو ایک تازہ گفتگو سناتا ہوں۔
شاعر مشرق مفکر پاکستان علامہ اقبال کے نواسے میاں یوسف صلاح الدین عملی سیاست سے تائب ہیں۔ ان کی ساری توجہ ثقافت، موسیقی اور پاکستانیت کو اجاگر کرنے پر مرکوز رہتی ہے۔ خود اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں مگر اشرافیہ ہی کو پاکستان کے زوال کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ عمران خان کے ذاتی دوست اورمداح ہیں۔ ان کے خیال میں عمران خان ہی وہ واحد سیاست دان ہیں جو میرٹ ، انصاف اور دیانتداری سے ملک کو سیدھی پٹری پر چڑھا سکتے ہیں۔ کل اچانک سوشل میڈیا پر علامہ اقبال کی آواز میں ’’شکوہ‘‘ کو ’’اپ لوڈ‘‘ کیا گیا ۔ مجھے شک ہوا کہ علامہ اقبال کی آواز ایسی ہو نہیں سکتی۔ میں نے میاں یوسف صلاح الدین کو فون کیا اورپوچھا کہ کیا یہ آواز واقعی علامہ اقبال کی ہے تو یوسف صلی نے کہا کہ جب یہ وائس نوٹ کئی سال پہلے سامنے آیا تھاتو میرے ماموں ڈاکٹر جاوید اقبال اور میری والدہ منیرہ صلاح الدین کے ساتھ بیٹھ کر سارے خاندان نے اسے سنا تھا اور اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ یہ بالکل جعلی ہے، علامہ اقبال کی آواز بہت سریلی اور پرسوز تھی، یہ آواز کسی طرح بھی علامہ اقبال سے نہیں ملتی، بات شاعری سے ہوتی ہوئی سیاست پر آئی تو قہقہہ لگا کر بے لاگ لاہوری انداز میں کہنے لگے ’’میرے خیال میں آئیڈیل یہ ہوگا کہ مرکز میں عمران خان کی حکومت ہو جبکہ پنجاب میں شہباز شریف کی حکومت۔ دونوں میں ملکی ترقی کا مقابلہ ہو ۔‘‘ پھر کہا ’’شہباز شریف نہ سوتا ہے نہ تھکتا ہے خلوص سے ملک کی خدمت کر رہا ہے اتنی تیز رفتار ترقی کی کوئی اور مثال ہماری تاریخ میں نہیں ملتی۔ میں نے جواباً کہا کہ آگ اور پانی کہاں اکٹھے ہوسکتے ہیں عمران اور شہباز شریف کا ساتھ ممکن نہیں۔ یوسف صلی نے کمال بے نیازی سے کہا کہ میں نے تو عمران خان کو بھی کہہ دیا تھا کہ اوپر تم ہو اور نیچے شہباز شریف، تب پاکستان کا فائدہ ہوگا۔ میاں یوسف نے کہا ایسے لگتا ہے کہ اب سب شہباز شریف کے پیچھے لگ گئے ہیں حالانکہ وہ تو بڑا محنتی ہے۔ ٹیلی فون کال ختم ہوئی تو مجھے اندازہ ہوا کہ ایک اہم سیاسی موڑ بس آنے کو ہے...
اچانک یاد آیا کہ شہباز شریف سے پہلی دو ملاقاتیں انتہائی ناخوشگوار تھیں ۔ پہلی ملاقات 1997 میں بطوروزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کا انٹرویو کرنے کے دوران ہوئی۔ میں نے صحافیانہ سوال کئے تو وہ ناراض ہونے لگےاس وقت وہ جارحانہ زیادہ ہوا کرتے تھے۔ انٹرویو پینل کے باقی لوگوں سے پوچھنے لگے یہ کون اپوزیشن کا آدمی لے آئے ہیں۔میرے ساتھی ہنس کر خاموش ہو رہے۔ دوسرے دن انٹرویو شائع ہوا تو اس میں سے سرخیاں وہی نکلیں جو میرے سوالات کے جوابات پر مشتمل تھیں۔ شہباز شریف بہت سیخ پا ہوئے۔ میرے سینئرز سے شکایت کی، انہوں نے فہمائشی انداز میں مجھے سمجھا بجھا کر معاملہ ٹھنڈا کر دیا۔ دوسری ملاقات شریف خاندان کی جدہ جلاوطنی کے دوران ہوئی۔ سرور محل میں میری ملاقات نواز شریف سے ہونے والی تھی۔ میں ساتھ والے کمرے میںمنتظر تھا کہ اچانک شہباز شریف تیزی سے آئے اور میاں نواز شریف کے کمرے میں چلے گئے۔ میرے دوست سہیل ضیا بٹ اور کیپٹن صفدر نے مسکراتے ہوئے مجھے کہا ’’لگتا ہے کہ شہباز شریف صاحب آ پ کی کوئی شکایت کرنے آئے ہیں۔‘‘ گھر کے بھیدی سچے نکلے۔ میں جونہی نواز شریف سے ملنے ان کے کمرے میں پہنچا تو ان کا چہرہ غصے سے لال بھبھوکا ہو رہا تھا۔ بڑی مشکل سے انہیں مائل بہ گفتگو کیا تو انہو ں نے بے ساختہ کہا کہ’’ آپ تو ہمارے خلاف لکھتے رہے ہیں۔‘‘ میں اس حملے کے لئے ذہنی طور پر تیار تھا۔ اس لئے جواباً کہا’’ آپ کے خلاف نہیں آپ کی پالیسیوں کے خلاف لکھتا رہا ہوں۔‘‘ اور پھریہ کہہ کر ان کاغصہ ٹھنڈا کیا۔ ’’آج آپ کے خوشامدی تو آپ سے ملنے کے روادار نہیں لیکن میں انٹرویو کرنے آیا ہوں۔‘‘ خیر وہ انٹرویو ہو گیا۔ دوسرے روز شہباز شریف صاحب نے میرے اعزاز میں کھانے کا اہتمام کیا جس کی تفصیلی کہانی پھر کبھی۔
غرضیکہ شہباز شریف سے آغاز ناخوشگوار تھا جو آہستہ آہستہ باہمی احترام میںبدل گیا۔ اب وہ اختلاف سنتے بھی ہیں اور ان کا انتہائی تحمل سے جواب بھی دیتے ہیں۔ ابھی تھوڑے دن پہلے ملاقات ہوئی تو میں نے سوال داغا ’’آپ بھائی کے ساتھ کھڑے ہیں یاکچھ اور ارادے ہیں؟‘‘ ہنس کر کہنے لگے ’’بھائی کو چھوڑنے کا آپشن تو کبھی تھا ہی نہیں۔ بعض اوقات خیالات میںفرق ضرور ہوتاہے مگرپالیسی نوازشریف ہی کی چلتی ہے۔‘‘ میں نےمزیدٹٹولا تو معلوم ہوا کہ قومی اسمبلی میںنااہل عہدیدار کے حوالے سے قانون سازی روکنے میں انہوںنے اہم کردار ادا کیا۔ پھر یہ بھی کہا کہ ’’مجھے تو نواز شریف خود کئی بار وزارت ِ عظمیٰ سنبھالنے کا کہہ چکے ہیں لیکن میں ہر بار انکار کرتا رہا ہوں۔ کیامیں ایسے مشکل وقت میں اپنے ہی بھائی کے خلاف کھڑا ہوں گا؟‘‘ کل پرسوں سے شہباز شریف کے خلاف اپوزیشن متحرک ہوئی تو فوراً خیال آیا کہ اس کی فوری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ فارورڈ بلاک بننے سے روکا، جلدی انتخابات کی حمایت نہ کی اور ارکان اسمبلی سے مسلسل رابطہ رکھا، وگرنہ یہ تو سب ہی کو علم ہے کہ ان کی رائے مفاہمانہ ہے اور شاید ن لیگ کی نئی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی پربھی ان کے تحفظات ہوں کیونکہ اس میں زیادہ تر لوگ مزاحمتی ہیں۔ پارلیمانی اور انتخابی رنگ بہت کم ہیں۔ مگر شہبازشریف خاموش ہیں۔ انہیں باربار کے تجربے سے شاید یہ معلوم ہو چکاہے کہ سیاست میں نواز شریف ان سے صائب رائے رکھتے ہیںالبتہ مینجمنٹ میں خود شہباز شریف نے بہتر کارکردگی دکھائی ہے۔
دیکھنا یہ ہوگا کہ شہباز شریف کو بڑی باری ملے گی یا ان کے چھوٹےاقتدار کی بھی بازی لگ جائے گی۔ دھرنے پھر سے شروع ہوں گے یا یہ معاملہ اتفاق رائے سے طے پائے گا۔ میری رائے میں فوج، حکومت اور اپوزیشن بیٹھ کر آنے والے دنوں کےانتخابی شیڈول اور نگران حکومت پر اتفاق رائے کرلیں۔ کھینچا تانی سے نقصان ہو گا۔ملک کے لئے یہی بہترین راستہ ہوگا.....