• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم نہ صرف کم قیمت برقی آلات اور قابل بھروسہ جنگی سامان خرید سکتے ہیں بلکہ کم یاب ادب، لامتناہی دانش اور پر جلال صبر، متین خاموشی اور بے آواز جدوجہد کے ساتھ بازی پلٹ دینے کا گر بھی بالکل مفت حاصل کرسکتے ہیں۔ میں اس باب میں جینے کی ایک مخصوص روش کے بارے میں چینی فلسفیوں کے خیالات پیش کروں گا۔ ان کاآپس میں جتنا اختلاف ہے اتنا ہی زیادہ اتفاق بھی ہے۔ سب کا اتفاق اس بات پر ہے کہ انسان کو زیادہ دانشمند ہونا چاہئے اور اسے مسرت بھری زندگی بسر کرنے سے ڈرنا نہیں چاہئے۔ ایک فلسفی کا بڑا مثبت نقطہ نظر دوسرے فلسفی کے نہایت امن پسندانہ فلسفے سے ٹکر کھاتا ہے اور اس ٹکرائو سے یہ نظریہ نکلتا ہے کہ زندگی میں کشمکش اور امن پسندی دونوں کا حصہ برابر برابر ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ عام چینی کا مذہب یہی ہے۔ عمل اور بے عملی میں یہ تصادم ایک سمجھوتے پر ختم ہوتا ہے اس سمجھوتے کو قناعت بھی کہا جاتا ہے کہ اس دنیا میں کسی صورت جنت بن سکے،بےشک وہ نامکمل اور ادھوری ہی ہو۔
ہمیں معلوم ہے کہ ہم نے صرف زندگی بسر کرنے کی تگ و دو میں ہی کچھ نہ کچھ ضرور کھو دیا ہے۔ کسی شخص کا خیال کیجئے کہ جو کسی میدان میں کوئی کھوئی ہوئی چیز ڈھونڈتا پھرتا ہے اسے دیکھ کر کوئی ہم سے یہ سوال کرے کہ ذرا بتایئے اس کی کیا چیز کھو گئی ہے۔ اس پر عجیب و غریب قیاس آرائیاں شروع ہو جائیں گی، ایک کہے گا اس شخص کی گھڑی کھو گئی ہے، دوسرا کہے گا ہیرے کی انگوٹھی ہوگی اور تیسرا کچھ اور کہے گا۔ یہ سب قیاس غلط ہونگے، چنانچہ سب سے آخر میں وہ شخص جو سب سے دانشمند ہوگا یہ کہے گا کہ میں یہ تو نہیں جانتا کہ اس شخص نے کیا کھویا ہے۔ اتنا ضرور ظاہر ہے کہ وہ اپنا وقت فضول کھو رہا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ ہم زندگی کی تگ و دو میں کھو کر اپنا نفس اصلی، اپنی حقیقی ذات کھو بیٹھتے ہیں۔ ویسے ہی جیسے کوئی پرندہ کسی کیڑے مکوڑے کو پکڑنے کی تگ و دو میں یہ بھول جاتا ہے کہ خود اسے کوئی خطرہ لاحق ہے اور یہ کیڑا اپنے شکار کی تلاش میں اپنے شکاری سے غافل ہو جاتا ہے۔ چونگ زے نے اس چیز کو بڑی خوبصورت کہانی سے واضح کیا ہے۔
جب چونگ زے ایک باغ میں گھوم پھر رہا تھا تو اس نے ایک عجیب پرندہ دیکھا جو جنوب کی طرف سے آیا تھا۔ اس کے پر سات فٹ لمبے تھے اور اس کی آنکھیں ایک ایک انچ بڑی تھیں۔ یہ پرندہ چونگ زے کے سر کے قریب سے اڑاتا ہوا ایک پیڑ پر جا بیٹھا۔ چونگ زے نے حیرت میں کہا، یہ کیا پرندہ ہے کہ اتنے مضبوط اور بڑے پروں کے ساتھ دور تک اڑ نہیں سکتا۔ نہ اتنی بڑی آنکھوں سے دور تک دیکھ سکتا ہے کہ ایک انسان قریب ہی کمان لئے کھڑا ہے اور کسی وقت بھی اسے نشانہ بنا سکتا ہے۔ چنانچہ چونگ زے نے کمر کس لی لبادے کے دامن سمیٹے اور تیر کمان لے کر اس کے قریب پہنچا کہ اسے نشانہ بنائے عین اسی وقت چونگ زے نے پیڑ کے سائے میں ایک ٹڈے کو دیکھا جو غفلت کی نیند سویا تھا عین اسی وقت ایک بڑے سے کیڑے نے اس ٹڈے کو لپک کر پکڑ لیا اور ہڑپ کر گیا۔ فوراً اس بڑے پرندے نے اس کیڑے کو دبوچا اور کھا گیا گویا اس کیڑے کے لوبھ نے پرندے کو سب کچھ بھول جانے پر مجبور کیا تھا۔
چونگ زے نے ایک آہ بھر کر کہا، افسوس ایک مخلوق دوسری کو کس طرح ستاتی ہے اور نفع کی امید کیسے کیسے نقصانات کا پیش خیمہ بنتی ہے اس نے اپنی کمان رکھ دی اور گھر کی طرف چل دیا کیونکہ باغ کے رکھوالے نے اسے اپنے باغ میں بے مقصد پھرتے دیکھ کر ڈانٹا تھا اس واقعہ کے تین ماہ بعد تک چونگ زے گھر سے نہیں نکلا۔ آخرلن شو نے اس سے پوچھا ’’حضرت آپ کب تک باہر نہیں نکلیں گے؟‘‘ چونگ زے نے کہا بیٹا اس ظاہری جسم کی قید میں، میں اپنے آپ کو بھول چکا تھا، اپنی حقیقی ذات سے غافل ہوگیا تھا۔ گدلے پانیوں کے نظارے نے میری آنکھوں سے گہرائیوں کو اوجھل کر دیا تھا اس کے علاوہ میرے مرشد نے مجھے یہ بتایا تھا کہ جب دنیا میں رہو تو اس کے رسم و رواج کی پابندی بھی کرو مگر جب میں باغ میں پھر رہا تھا تو میں اپنے آپ کو بھول گیا۔ میرے سر سے اڑ کر جو عجیب سا پرندہ درخت پر بیٹھا تھا وہ بھی اپنی فطرت کو بھول گیا۔ باغ کے رکھوالے نے مجھے چور سمجھا اور مجھے باہر نکال دیا۔ اسی لئے میں گھر سے باہر نہیں نکلتا۔
چونگ زے، لن زے کا پکا ارادت مند تھا وہ مینسی اس کا ہم اثر تھا جو کنفیوشس کا پیرو تھا مگر دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ انسان نے کچھ نہ کچھ ضرور کھو دیا ہے اور یہ کام فلسفے کا ہے کہ اس کھوئی ہوئی چیز کا سراغ لگائے اور اسے انسان کو پھرعنایت فرمائے۔ اس کھوئی ہوئی دولت کو چونگ زے نے نفس اصلی یا حقیقی ذات قرار دیا تھا۔ مینسی اسے ’’دل معصوم‘‘ قرار دیتا ہے اور یہ کہتا ہے۔ ’’بڑا آدمی وہ ہے جس نے اپنے بچے کے سے معصوم دل کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا‘‘۔ وہ کہتا ہے کہ تہذیب کی مصنوعی زندگی کا اثر ایک نوجوان دل پر وہی ہوتا ہے جو پہاڑوں پر سے جنگلات کاٹ دینے سے ان پہاڑیوں پر ہوتا ہے۔ ’’کوئی وقت تھا کہ نیائو پہاڑ کے گھنے جنگل خوبصورت تھے۔ اب ان پہاڑوں کو کون خوبصورت کہہ سکتا ہے یہ پہاڑ اور اس کے جنگل ایک بڑے شہر کے قریب تھے اور لکڑہاڑوں نے جنگل کاٹ کاٹ کر نابود کردیئے۔ کبھی ان جنگلوں کی پرداخت، خود رات اور دن کیا کرتے تھے، بارش اور شبنم انہیں سینچا کرتی تھیں، اوراس سرزمین سے ہر آن زندگی کی نئی کونپلیں پھوٹتی رہتی تھیں۔ پھر مویشیوں اور بھیڑ بکریوں نے یہاں چرنا شروع کیا اب پہاڑ کی ساری ڈھلان ننگی ہو چکی ہے اور اب لوگ یہی سوچتے ہیں کہ پہاڑ کی یہ ڈھلان ہمیشہ ایسی ہی بنجراور ننگی تھی۔ یہاں درخت بھلا کہاں چلتا ہے جس طرح نیائو پہاڑ کے شاداب جنگلوں پر چلتا ہے۔ انسانی فطرت پر دن اور رات پھاہا رکھتے ہیں، نسیم سحری ان کے پھلنے پھولنے کا پیغام لاتی ہے مگر نسیم سحری کے لمحات مختصر ہوتے ہیں اور اس کا کیا دھرا، ان کاموں اور ان باتوں سے نیست و نابود ہو جاتا ہے جو انسان دن بھر کرتا ہے۔ رات بھر میں انسانی روح کو جتنی تازگی اور بحالی نصیب ہوتی ہے وہ دن بھر کی کوفت سے برابر کم ہوتی رہتی ہے۔ انسانی روح کی اس مسلسل کانٹ چھانٹ سے،رفتہ رفتہ وہ وقت آجاتا ہے کہ انسان اپنے مرتبے سے گر کر حیوان بن جاتا ہے۔ لوگ دیکھتے ہیں کہ و ہ حیوانوں کی طرح ہو چکا ہے اور یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ اس میں کوئی کردار تھا ہی نہیں جیسے پہاڑ کی چپٹی ڈھلانوں کو دیکھ کر سوچتے ہیں کہ یہاں کبھی سبزہ تھا ہی نہیں مگر کیا انسانی فطرت کے بارے میں یہ تصور صحیح ہوگا‘‘؟

تازہ ترین