• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

راج کپور کی شہرہ آفاق فلم ’’بوبی ‘‘ کے لئے آنند بخشی نے ایک گیت لکھاتھاجس کی استھائی تھی ۔۔میں شاعر تو نہیں مگر اے حسیں ۔۔جب سے دیکھا ہے ،میں نے تجھ کو، مجھ کو، شاعری آگئی ۔۔میاں نوازشریف کو بھی نااہلی کے بعد شاعری آگئی ہے ۔ یہ چوٹ اتنی شدید تھی کہ میاں صاحب نے براہ راست غالب پر ہاتھ ڈالا ہے ۔ لندن میں انہوں نے ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی کی گرتی ہوئی ساکھ اور ملک کے دیگر دگرگوں معاملات کو عنوان دیتے ہوئے غالب کا یہ شعر پڑھا کہ ۔۔زندگی اپنی جب اس مشکل سے گزری غالب ۔۔ہم بھی کیایاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے۔۔عشق کا روگ ہویا عہدے کے چھن جانے کاجھٹکا دونوں ’’ضرب ِشدید ‘‘ کے زمرے میں آتے ہیں اور انسان کو شاعری سکھادیتے ہیں ۔میاں صاحبان کا معاملہ ذرا ہٹ کے ہے ۔بڑے میاں صاحب کو شاعری سے کس قدر دلچسپی ہے اس کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایاجاسکتا ہے کہ انہوں نے منیر نیازی کا مشہورزمانہ شعر سیدہ عابدہ حسین سے منسوب کردیاتھا ۔۔کج شہر دے لوک وی ظالم سن ۔۔کج ساہنوں مرن دا شوق وی سی ۔۔البتہ چھوٹے میاں المعروف خادم اعلیٰ یہ تاثر دینے میں کامیاب رہے ہیں کہ عوام کے محبوب شاعر حبیب جالب کے جملہ حقوق ان کے پاس محفوظ ہیں۔2013کے انتخابات میں چھوٹے میاں نے اپنے انتخابی جلسوں میں حبیب جالب کا جس کثرت سے استعمال کیاتھا اس سے اتنی رائلٹی تو بن سکتی تھی کہ مرحوم کے پسماندگان ایک آدھ شوگر مل کے مالک بن جاتے مگر پاکستان میں کاپی رائٹ ایکٹ کا رواج نہیں۔ حبیب جالب ایک بڑے شاعر تھے جن کی ساری زندگی اصولوں اور آدرشوں کی عظیم داستان بن کر ہماری سیاسی اور ادبی تاریخ کو ایک وقار مہیاکرتی رہے گی۔انہوں نے اپنی پوری زندگی خون ِجگر سے سچائی کی فصلوں کی آبیاری کی ۔جالب ایک روشن خیال اور ترقی پسند ادیب تو تھے مگر وہ کبھی بھی کسی سیاسی پارٹی یا حکومت کے ترجمان شاعر نہیں بنے۔ ایک طرف انہوں نے جنرل ضیاالحق جیسے ’’بائیس کیرٹ ڈکٹیٹر‘‘ کے لئے لکھاکہ …ظلمت کو ضیاصرصر کو صبا بندے کو خد ا کیا لکھنا…دوسری طرف بھٹو صاحب جن کے ساتھ ان کی نظریاتی ہم آہنگی بھی تھی ان کے لئے بھی کبھی فرینڈلی اپوزیشن کی طرح ہولاہتھ نہ رکھااور لکھا۔۔لاڑکانے چلوورنہ تھانے چلو۔۔ حبیب جالب نے رائٹرز گلڈکے لئے لکھاتھاکہ ۔۔ذہانت رورہی ہے منہ چھپائے۔۔جہالت قہقہے برسا رہی ہے۔۔ادب پر افسروں کا ہے تسلط۔۔حکومت شاعری فرمارہی ہے۔۔ الحمرا لاہور میں جالب میلہ کاانعقاد ہواجس کی نظامت کی ذمہ داری برادرم ناصر جالب نے مجھے سونپی تھی۔اس دوریش صفت شاعر کی یاد میں سجائے میلے میں کئی شہ دماغوں کو سننے کا موقع میسر آیا۔
جالب صاحب سے میری نظریاتی رشتہ داری ہمیشہ سے ہے جبکہ ان کی شاعری سے میری واقفیت بھٹو دورمیں ہوئی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب میں اسکول داخل نہیں ہواتھا اور اپنے بڑے بھائی طیب سرورمیر کے ساتھ گھر کے آنگن میں کھیلاکرتاتھا ۔مجھے آج بھی یاد ہے میرے والد غلام سرورمیر میری والدہ ثریااختر کو جب جالب کا یہ کلام سناتے تو ان کی آنکھیں بھیک جایاکرتی تھیں۔۔ محبت گولیوں سے بورہے ہو۔۔ وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو ۔۔ گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے۔۔ یقیں مجھ کو کہ منزل کھورہے ہو۔۔ یہ قطعہ انہوں نے مشرقی پاکستان میں ہونے والے سانحہ سے متعلق لکھاتھا۔ انہی دنوں کی بات ہے جب 7دسمبر 1970کو ملک میں کرائے گئے عام انتخابات میں بنگالیوں کے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کیاگیا۔مشرقی پاکستان میں سول نافرمانی کی تحریک شروع ہوئی تو وہاں فوجی ایکشن کردیا گیا۔ بنگالی پہلے ہی ہم سے متنفر ہوچکے تھے۔ اس سے قبل 1965میں ہونے والے صدارتی انتخابات جو محترمہ فاطمہ جناح اور جنرل ایوب خان کے مابین لڑا گیاتھا ۔اس میں بھی مادر ملت کے خلاف ریاستی مشینری استعمال کرتے ہوئے انتخابی بددیانتی کی گئی تھی اور بنگالیوں کو رنج تھا کہ ان کا مینڈیٹ تسیلم نہیں کیاگیا ۔70کے انتخابات تک مشرقی پاکستان میں حالات بہت بگڑ چکے تھے اس پر جنرل یحییٰ خان کی حکومت نے صبر،ایمانداری اور دانشمندی کی بجائے فوجی ایکشن کرڈالاجس کا نتیجہ یہ نکلاکہ جنرل ٹائیگر نیازی کو 16دسمبر 1970کو مشرقی پاکستان میں بھارتی جنرل اروڑا سنگھ کے سامنے ہتھیار ڈالنا پڑے۔
حبیب جالب کو قریب سے دیکھنے کا موقع 1988میں روزنامہ جنگ لاہور کے دفتر میں نصیب ہوا۔جہاں وہ جواں سال صحافی حامدمیر کے مہمان ہوا کرتے تھے ۔ جالب صاحب جب جنگ کے رپورٹنگ اور نیوزروم کے درمیان برآمدے سے گزرتے تو ان کا گریبان کھلااور سر کے بال اڑے ،اڑے ہوتے تھے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ برادرم حامد میر انہیں ان کے گھر یا دیگر ٹھکانوں سے اپنی 110سی سی موٹر سائیکل پر لایاکرتے تھے۔ایک دن جالب قدرے خوش دکھائی دئیے میں نے حامد میر سے پوچھا !آج جالب صاحب بڑے خوش ہیں تو حامدمیر نے بتایاکہ وہ انہیں ملکہ ترنم نورجہاں کے ہاں سے لائے ہیں اورتھوڑی دیر بعدوہیں ڈراپ کریں گے۔جالب صاحب کو موسیقی سے بڑی رغبت تھی یہی وجہ ہے کہ انہوں نے نورجہاں اور لتا منگیشکر کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے نظمیں بھی لکھیں۔نورجہاں کے لئے انہوں نے لکھاکہ ۔۔نغمہ بھی ہے اداس تو سُر بھی ہے بے امان۔۔لتا کے لئے انہوں نے لکھاتھا۔۔ تیرے مدھر گیتوں کے سہارے ۔۔ روزنامہ جنگ سے باہر میں نے انہیں رائل پارک میں واقع عزیز میمن کے دفتر بھی دیکھا ۔عزیز میمن نے اپنے فلم پروڈکشن ہائوس کا نام ’’احباب حبیب جالب ‘‘ تجویز کیاتھا جس کے انتظامات سلیم احمد سلیم کی ذمہ داری تھی۔جالب نے کئی ایک فلموں کے گیت بھی لکھے ریاض شاہد کی فلم ’’زرقا‘‘ کے لئے لکھا گیت جو مہدی حسن نے گایاتھا آج بھی خون کو گرمادیتاہے۔۔تو کہ ناواقف ِآداب غلامی ہے ابھی …
رقص زنجیر پہن کر بھی کیاجاتاہے۔بھارتی ریاستی جبر کا سامنا کرنے والے مظلوم کشمیریوں کیلئے انہوں نے لکھاکہ ۔۔ظلم رہے اور امن بھی ہو ۔۔کیاممکن ہے تم ہی کہو۔۔ریاض شاہد کی فلم ’’یہ امن ‘‘ کے لئے مہدی حسن اور نورجہاں دونوں نے ہی کمال کیاتھا۔مذکورہ فلم کی موسیقی اے حمید نے ترتیب دی تھی جو کسی شاہکار سے کم نہ تھی۔انہوں نے فلسطینی ،آرمینیااور لبنانی مظلوموں کا نوحہ بھی لکھا۔
جالب عوامی شاعر تھے وہ اپنی شاعری سے مظلوم اور محکوم طبقات کے کتھارسس کرتے رہے۔جنرل ضیاالحق کے فراڈ ریفرنڈم کا انہوں نے اپنی ایک ہی نظم سے تیاپانچا کردیا۔۔شہر میں ہوکا عالم تھا ۔۔جن تھایاریفرنڈم تھا۔اس نظم کے آخرمیں انہوں نے لکھاکہ ۔۔دن انیس دسمبر کا ۔۔بے معنی بے ہنگم تھا۔۔یا وعدہ تھا حاکم کا ۔۔یا اخباری کالم تھا۔۔انہوں نے صحافت کے آہنی پردے کے پیچھے پوشیدہ کالی بھیڑوں کو بھی بے نقاب کیا۔۔قوم کی بہتری کا چھوڑ خیال۔۔فکرِ تعمیرملک دل سے نکال ۔۔تیرا پرچم ہے تیرا دست ِ سوال ۔۔بے ضمیری کا اور کیاہومآل۔۔اب قلم سے اوزاربند ہی ڈال ۔۔جالب ساری زندگی استحصالی اور مقتدر قوتوں کے خلاف برسر پیکار رہے۔بھٹوکا نعرہ تھا کہ سوشلزم ہماری معیشت ہے ۔جالب کی بھٹو سے نظریاتی وابستگی تھی مگر انہوں نے انہیں بھی کبھی رعایتی نمبر نہیں دئیے تھے۔ ہم نے دیکھا کہ حکمرانوں نے جالب کے اس جہان فانی سے چلے جانے کے بعدان کی باغیانہ شاعری’’ میں نہیں مانتا‘‘ کوکھلم کھلاMISS USE کیا۔دیپ جس کا محلات ہی میں جلے ۔۔چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے ۔۔وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے۔۔ایسے دستور کو صبحِ بے نور کو ۔۔میں نہیں مانتا ،میں نہیں مانتا۔۔اطلاع ہے کہ’’چھوٹے حکمران‘‘اب بھی جالبانہ طرز عمل کی بجائے مصالحانہ رستہ تلاش کررہے ہیں!!

تازہ ترین