• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رورل بیک گرائونڈ ہونے کی وجہ سے ہم پنچائت کے بابوئوں اور ان کے فیصلوں کو کسی حد تک سمجھتے ہیں۔ ان کے اکثر فیصلے ’’زورہ ور‘‘ کے حق میں ہی آتے ہیں اور کمزور پستہ رہتا ہے جن میں اتنی جرات نہیں ہوتی کہ وہ ان کے خلاف اعلان بغاوت کر سکیں۔ آج بھی کمزور طبقہ پاکستان کے مختلف حصوں خصوصاً پسماندہ علاقوں میں پنچائت کے فیصلوں کی وجہ سے کافی مشکلات کا شکار ہے۔ بعض اوقات ایسے فیصلوں کی تشہیر کی وجہ سے عدالتیں ان کا نوٹس لے لیتی ہیں اور بابوں کیخلاف ایکشن لے کر انہیں پابند سلاسل کرتی ہیں۔ پنچائت کے کم ہی بابے ہیں جو حق اور انصاف کے مطابق فیصلے کرتے ہیں جس کی وجہ سے باوئوں کی عزت کم اور خوف زیادہ ہوتا ہے۔ وہ عزت بھی کیا عزت ہے جو خوف کی وجہ سے ہو نہ کہ احترام کی وجہ سے۔ جب بابے سرعام اس بات پر زور دیں کہ ان کی عزت کی جائے کیونکہ وہ بابے ہیں تو پھر اس بات پر غور کرنا پڑے گا کہ خرابی کہاں ہے باوئوں میں یا کہ ان لوگوں میں جن کے بارے میں وہ ’’انصاف‘‘ کر رہے ہیں۔بدقسمتی بابے اکثر فیصلے ماحول اور سیاست کو سامنے رکھ کر کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ متنازعہ ہوتے ہیں۔ گائوں کے ہاری میں تو اتنی جرات نہیں ہوتی کہ وہ سرعام اپنے خلاف ہونے والے ناجائز فیصلوں کے خلاف آواز بلند کرسکے کیونکہ اگر وہ ایسا کرے گا تو اس کے خلاف مزید فیصلے آ جائیں گے اور اس کا جینا دو بھر ہو جائے گا۔ بابا رحمتا بھی انہی باوئوں میں سے ایک ہے جس نے فیصلے حق اور انصاف کی بنیاد پر نہیں کئے بلکہ وہی کیا جو کچھ طاقت ور طبقہ چاہتا تھا۔ ضروری نہیں ہے کہ طاقتور نے اس کو ایسا کرنے کا کہا ہو مگر بابے نے ان کا موڈ بھانپ لیا اور فیصلہ صادر کر دیا جس سے وہ بہت خوش ہوگئے کیونکہ ان کا پلان کامیاب ہوگیا۔ جب اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف کے خلاف عدالت عظمیٰ میں پانامہ کیس پر سماعت شروع ہوئی تو نہ صرف ہم نے بلکہ بہت سے دوسرے حضرات نے بار بار وارننگ دی کہ یہ سیاسی نوعیت کا کیس ہے کورٹ کو چاہئے کہ وہ اس سے دور رہے اور جوشروع میں فیصلہ اس کے رجسٹرار نے کیا تھا کہ یہ پٹیشن فضول اور بیکار ہے اور ناقابل سماعت ہے کو برقرار رکھے مگر عدلیہ نے یہ بات نہ سنی اور ایسے علاقے میں بڑی خوشی سے داخل ہوگئی جس میں کانٹے ہی کانٹے ہیں اور ساکھ خراب ہونے کا بہت خطرہ ہے ۔ سماعت کے دوران ججز کے ریمارکس کے ذریعے نوازشریف کی وہ درگت بنائی گئی جو ان کے سخت ترین مخالف بھی نہیں بنا سکتے تھے۔ اس درخواست پر جو بھی فیصلہ آتا اس نے سیاست میں طلاطم ہی پیدا کرنا تھا۔ اگر نوازشریف کو کلین چٹ دے دی جاتی تو عمران خان نے عدالت کیساتھ نوازشریف سے زیادہ برا سلوک کرنا تھااور جب فیصلہ سابق وزیراعظم کیخلاف آیا تو نون لیگ اس کے خلاف سخت احتجاج کر رہی ہے۔ سیاسی نوعیت کے مقدمات اور ان پر فیصلوں پر سیاست ہی ہوتی ہے عدالت کو یہ بات سمجھ نہیں آئی۔ اب جبکہ چیف جسٹس ثاقب نثار یہ کہہ رہے ہیں کہ منصف بابے ہیں اور باوئوں کی عزت ہونی چاہئے تو انہیں احساس ہو رہا ہے کہ عدالت کتنی متنازعہ ہو رہی ہے اور کتنے دبائو میں ہے۔
پہلے دن سے ہی نوازشریف نے اس فیصلے کو تسلیم نہیں کیا۔ ان کا غصہ مزید بڑھ گیا جب عدالت عظمیٰ کے ایک بینچ جس کی سربراہی چیف جسٹس نے کی نے عمران خان کو تمام الزامات سے بری کر دیا حالانکہ ان کے خلاف ٹھوس ثبوت موجود تھے اور نوازشریف کے مقابلے میں زیادہ ٹھوس تھے۔ ایک طرف چیئرمین پی ٹی آئی تھے جنہوں نے مانا کہ آف شور کمپنی ان کی ہے مگر عدالت نے فیصلہ کیا کہ یہ ان کی نہیں ہے۔ عمران خان نے 1997ء میں جب الیکشن لڑا تو اپنا لندن فلیٹ کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہیں کیا تو عدالت نے اس حقیقت کو بالکل نظرانداز کر دیا حالانکہ یہ نان ڈیکلریشن کا کیس تھا جو کہ نوازشریف کی اپنے بیٹے کی کمپنی سے تنخواہ کو ظاہر نہ کرنے سے زیادہ سخت تھا مگر عدالت نے کہا کہ 2001ء میں چیئرمین پی ٹی آئی نے اپنا لندن فلیٹ ایمنسٹی ا سکیم میں ظاہر کردیا تھا اور ٹیکس بھی دے دیا تھا۔ اس طرح کے اور بہت سے حقائق ہیں جو عمران خان کے خلاف ثابت شدہ تھے مگر وہ عدالت نہیں مانی۔
سیاسی مقدمات پر سیاستدان ہمیشہ سیاست کرتے ہیں۔ آج تک پیپلزپارٹی ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل قرار دیتی ہے یعنی ججوں نے یہ قتل کیا ہے۔ مگر ستم ظریفی دیکھیں آج یہی جماعت نوازشریف کے اس جملے کہ وہ سکھا شاہی نہیں چلنے دیں گے اور انصاف کی بحالی کیلئے تحریک چلائیں گے پر بہت معترض ہے اور کہتی ہے کہ ججوں کو اس بات کا نوٹس لینا چاہئے اور سابق وزیراعظم کیساتھ وہ کیوں نرمی برت رہی ہے۔ نوازشریف کو عدالت نے ایک انتہائی متنازعہ فیصلے کے ذریعے اقتدار سے باہر نکالااور اعتزاز احسن آج بھی کہہ رہے ہیں کہ عدالت نے ان کیساتھ نرمی کی ہے حالانکہ یہ فیصلہ اتنا ناقص اور کمزور ہے کہ عمران خان بھی کہہ رہے ہیں کہ عدالت کو اقامے پر نہیں بلکہ دوسرے الزامات کی بنیاد پر سزا دینی چاہئے تھی۔ سابق وزیراعظم اس بیانیے پر زور دے رہے ہیں کہ ان کو کرپشن کے کسی الزام میں نہیں بلکہ اقامے کی وجہ سے نکالا گیا ہے جس کی کافی عوامی پذیرائی ہو رہی ہے عمران خان اسی وجہ سے پریشان بھی ہیں۔ بابے رحمتے کی عزت اور احترام ہر ایک پر لازم ہے مگر بابے کو بھی اپنے قول وفعل سے ثابت کرنا ہوگا کہ وہ غیر جانبدار ہے، کسی کے دبائو میں نہیں آتا اور قانون اور آئین کے تحت فیصلے کرتا ہے نہ کہ سیاسی ماحول اور مختلف حلقوں کے مزاج کو دیکھ کر۔ پچھلے ایک سال میں عدلیہ جتنی متنازعہ ہوئی ہے اتنی شاید پہلے کبھی نہیں تھی اور آئندہ آنے والے وقت میں بھی اس بات کا قومی امکان ہے کہ یہ تنازعہ مزید بڑھے گا۔ اب الیکشن کمپین جاری ہے اور نوازشریف نے کہہ دیا ہے کہ انتخابی مہم اور انصاف کی بحالی کیلئے تحریک ساتھ چلے گی اور سویلین بالادستی انتخابی نعرے ہونگے۔ اس سارے جھگڑے سے نکلنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ بابا جی ایک بہت بڑا قدم اٹھائیں۔ انہیں چاہئے کہ وہ پوری سپریم کورٹ کے سامنے نوازشریف کے خلاف اور عمران خان کے حق میں ہونیوالے فیصلوں کو رکھیں تاکہ وہ کوئی حتمی فیصلہ کرسکیں ورنہ عدلیہ مزید متنازعہ ہوگی اور اس پر مزید دبائو آئے گا۔ چیف جسٹس کا اپنے فیصلے کا ایک پبلک فورم پر دفاع کرنا ،اس بات پر زور دینا کہ بابے کی عزت کی جائے اور بغیر نام لئے نوازشریف کی سخت تنقید کا جواب دینا اسی دبائو کو ہی ظاہر کرتا ہے۔ تاہم سیاست دان تو ہر روز اپنے ٹارگٹ کے بارے میں سخت زبانی کرسکتے ہیں جج نہیں اور نہ ہی انہیں ایسا کرنا چاہئے اور انہیں صرف اپنے فیصلوں کے ذریعے بولنا چاہئے بدقسمتی سے یہی بات پاناما کیس کی سماعت کے دوران مسنگ تھی۔

تازہ ترین