• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عسکریت پسندی کی افزائش اور مرکزی دھارے میں لانے کی کوششیں

اس سے پہلے کہ میں پاکستان میں عسکریت پسندی میں اضافے کا تجزیہ کروں، عسکریت پسندی کے تصور کو اس کی موجودہ شکل میں سمجھنا ضروری ہے۔ ملی ٹینٹ کا لفظ 15 ویں صدی میں لاطینی لفظ ’’ملی ٹار‘‘ سے آیا جس کے معنی ہیں سپاہی کے طور پر خدمات انجام دینا۔ ملیشیا کا جدید تصور بطور دفاعی تنظیم کا ہے جو اینگلو سیکسن ’’Fyrd‘‘ سے نکلا ہے۔ بالعموم ایک عسکریت پسند جبر کے خلاف جدوجہد کے دعوے کے طور پر تشدد میں ملوث ہوتا ہے۔ لیکن یہ لفظ کبھی کبھار کسی ایسے شخص کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے جس کے نظریات سخت ہوں۔ (جیسے ملی ٹینٹ کرسچن، ملی ٹینٹ اتھیسٹ) ملی ٹینٹ کا کبھی کبھار عام استعمال دہشت گرد کے ہم معنوں میں ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ملی ٹینٹ وہ شخص ہوتا ہے جو جسمانی تشدد یا کسی اور طریقے سے قطع نظر جھگڑالو شخص ہوتا ہے۔ ملی ٹینٹ کی اصطلاح سے مراد ایسے افراد ہوتی ہے جو تحریک کے نام پر اپنی خود ساختہ فلاسفی یا سیاست کو جارحانہ اور پرتشدد انداز میں فروغ دیتا ہے۔ مختلف تحریکیں جو عسکریت پسندی کو بطور حل اختیار کرتی ہیں یا جو جدید دنیا میں اپنے مسائل کے حل کے لئے عسکریت پسندی کا جواز پیش کرتی ہیں، ان کا طریقہ کار شاذو نادر ہی ایک جیسا ہوتا ہے۔ بہت سے عسکریت پسندوں کی خصلت ایک جیسی ہوتی ہے جیسے براہ راست تشدد یا قوت کا استعمال، خواہ جارحیت کے لئے ہو یا دفاع کے لئے یا پھر اپنے مخصوص گروپ کے نظریاتی یا مذہبی دعوؤں کو استعمال کرتے ہوئے طاقت کے استعمال کا جواز پیش کیا جائے۔اب آئیے پاکستان میں عسکریت پسندی کی جڑوں پر بات کرتے ہیں۔ جسے کئی سیاسی و سماجی عوامل میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔ سماجی محرومی، منشیات کی اسمگلنگ، افغان مہاجرین، کچھ مدرسوں اور تربیتی مراکز کے ذریعے مذہبی استحصال اور بیرونی عوامل میں عالمی سطح پر پاور پالیٹکس کا تعامل، ان سب کا پاکستان میں عسکریت پسندی کو پھیلانے میں حصہ رہا ہے۔ عسکریت پسند ملک کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے لئے مختلف حکمت عملیاں استعمال کر رہے ہیں۔ خودکش حملوں میں درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں، اگرچہ زیادہ تر حملوں کا نشانہ فوج اور پولیس رہے ہیں۔ ریلیاں، مساجد اور دیگر مقامات بھی اہداف میں شامل رہے ہیں۔ ایک بڑا سوال یہ ہے کہ یہ عسکریت پسند گروپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟
آئیے پاکستان میں دہشت گردی میں اضافے اور اس کی شروعات ڈھونڈ کر اس کا جواب تلاش کرتے ہیں۔ اس کا آغاز 1979میں اس وقت ہوا جب سوویت یونین نے جنوب میں گرم پانیوں تک پہنچنے کے ارادے سے افغانستان پر حملہ کیا تاکہ تیل کی دولت سے مالا مال خلیجی ممالک پر قبضہ کر سکے اور اس کیساتھ ہی اپنی کمیونسٹ آئیڈیالوجی کو توسیع دے سکے۔ دو سپر پاورز کے مابین نظریاتی تنازع، امریکا اور سوویت یونین پہلے ہی سرد جنگ میں مصروف تھے اور سوویت یونین کی جانب سے افغانستان پر حملے نے امریکا کو یہ موقع فراہم کر دیا کہ وہ مقامی اور غیر ملکی جنگجوؤں کے ذریعے سوویت فوج کے خلاف گوریلا جنگ میں خفیہ طور پر شامل ہو جائے۔ پاکستان کو کھیل کا حصہ ہونے کی وجہ سے سوویت افغان فوج کا حاصل نتیجہ پاکستان کو عسکریت پسندی کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ مسلمان جنگجوؤں کو سوویت یونین کیخلاف صف آرا کرنے کے خیال کی منصوبہ بندی فرانس نے کی تھی کیونکہ فرانسیسی جانتے تھے کہ مسلم اصلاح پسند کمیونزم کو پسند نہیں کرتے اور اسے اسلام کے نظریے کیخلاف سمجھتے ہیں، انہوں نے یہ خیال امریکا اور برطانیہ کے سامنے پیش کیا اور دعویٰ کیا کہ مسلم جنگجو سوویت یونین کیخلاف طاقتور قوت کا کام کرینگے۔ سوویت یونین کیخلاف امریکا کی کوششوں میں اس وقت تیزی آئی جب1980میں رونالڈ ریگن امریکا کے صدر بنے۔ امریکا نے سعودی عرب اور خلیجی ممالک کے ساتھ پاکستان کی حمایت پر انحصار کیا، پاکستان نے لاجسٹک فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ جنگجوؤں کو تربیت دینے میں مدد فراہم کی جبکہ سعودی عرب نے پاکستان کے ذریعے ان مجاہدین کو فنڈز کی فراہمی کا نظام وضع کیا۔ امریکا نے ضیاء الحق کو استعمال کیا اور سوویت یونین کے خلاف آپریشن لانچ کر دیا جبکہ آئی ایس آئی اور سی آئی اے کے مابین بھرپور تعاون دیکھا گیا۔ اس جنگ نے پاکستان میں مزید علما پیدا کیے اور پوری دنیا سے اسلام کے نام پر لوگوں کو متحرک کیا گیا، جنہیں تربیت دے کر افغانستان بھیجا گیا۔ چھاپہ مار جنگ کے منصوبہ سازوں نے مدارس سے جنگجوؤں کو بھرتی کیا ان میں جہاد کی تحریک پیدا کی اور سوویت فوج کیخلاف جنگ میں شمولیت کیلئے چھوٹے عسکری گروپوں یا جہادی تنظیموں کی حوصلہ افزائی کی۔ ان عسکری گروپوں کے مابین قابل ذکر اسامہ بن لادن کی قیادت میں القاعدہ تھی۔ افغانستان میں سوویت یونین کی شکست اور انخلا کے بعد امریکا اپنے ملک کو لوٹ گیا اور ان رضاکار جنگجوؤں کو پاکستان کیلئے چھوڑ دیا۔ جنگ کے بعد ان گروپوں نے دیگر عسکری گروپوں جیسے القاعدہ ، تحریک طالبان افغانستان اور تحریک طالبان پاکستان میں شمولیت اختیار کرلی،جو امریکا کے خلاف ہوچکی تھی۔ بدقسمتی سے یہ جنگجو مختلف گروپوں میں تقسیم ہوکر فرقہ وارانہ لڑائیوں، اغوا، لوٹ مار اور ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہوگئے۔ پنجابی طالبان نے بھی ٹی ٹی پی سے ہاتھ ملا لیا اور لشکر جھنگوی اور ٹی ٹی پی نے القاعدہ کے ساتھ مل کر کام کرنا شروع کردیا۔ یہ نام نہاد جہادی بڑھتے گئے۔ یہ ایک طاقت کے طور پر ابھرنا شروع ہوئے اور انہوں نے اپنے آپ کو طالبان کا نام دیا اور ان بے روزگار جنگجوؤں نے ریاست پاکستان سے لڑنا شروع کر دیا۔ پاکستان کو ان کے ہاتھوں نقصان پہنچنا شروع ہوگیا اور ہم نے القاعدہ کو الظواہری اور اخوان المسلمون کی حمایت حاصل کرتے بھی دیکھا۔ پوری دنیا سے انتہاپسندوں نے القاعدہ میں شمولیت اختیار کی، ان عسکریت پسندوں کی زیادہ تر تربیت مصر سے تعلق رکھنے والوں نے کی اور عبدالرحمن، زاہد الشیخ، خالد الشیخ اور رمزی یوسف جیسے عسکریت پسند ابھرے اور ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر یوسف زمزی کی جانب سے پہلے حملے کا ہم نے مشاہدہ کیا۔ اس کا یہاں پر اختتام نہیں ہوا کیونکہ نائن الیون کے واقعے سے امریکا کی خارجہ پالیسی میں بڑی تبدیلی آئی، جس نے اس کی خارجہ پالیسی اور سیکورٹی ڈھانچے کو ازسرنو تشکیل دیا۔ دوسری جانب پاکستان جو طالبان حکومت کی بطور جائز حکومت حمایت کر رہا تھا، نے بھی اپنی خارجہ پالیسی میں بڑی تبدیلی کی، جو بش انتظامیہ کی جانب سے ’’ہمارے ساتھ یا ہمار ے خلاف‘‘کے سخت موقف کےبعد کی گئی۔ پاکستان کے پاس القاعدہ اور طالبان کے خلاف امریکا کی دہشت گردی کی جنگ میں شمولیت کے علاوہ کوئی چارا نہیں رہ گیا تھا جس کے نتیجے میں طالبان اور اس کے اتحادی عسکری گروپوں بشمول القاعدہ کی دشمنی مول لینی پڑی۔ امریکا کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے جنرل پرویز مشرف نے امریکا کی جانب سے بچھائے گئے دوسرے جال میں گرنے کا راستہ منتخب کیا۔ جہادی تنظیموں کے خلاف جنرل پرویز مشرف کی جانب سے دہشت گردی کی جنگ میں شمولیت طالبان کیخلاف اعلان جنگ تھا جس کی وجہ سے دہشت گرد تنظیموں اور طالبان نے پاکستانی حکومت اور مغربی ایجنڈے کی حمایت کرنے والوں کیخلاف جنگ کا اعلان کردیا۔ پاکستان امریکا کیساتھ اس تعاون کی بہت بھاری قیمت ادا کر رہا ہے۔ امریکا نے پاکستان سے لاجسٹک کو استعمال کرتے ہوئے افغان صدر اشرف غنی اور حامد کرزئی کی کٹھ پتلی حکومتوں کے ذریعے اپنے قدم مضبوطی سے جما لیے ہیں۔ پاکستان میں شدید دہشت گردی کی لہر کا آغاز ہوا اور نتیجے کے طور پر پاکستان کی معیشت کو 2001 سے 2012کے درمیان 68ارب امریکی ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا لیکن اب یہ 90ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے کیونکہ پاکستان کو اس جنگ میں شامل ہونے کیلئے مجبور کیا گیا۔ یہ جنگ پورے ملک اور خاص طور پر فاٹا اور سوات میں پھیل گئی اور ملک میں بہت بڑے پیمانے پر عسکریت پسندی دیکھی گئی۔ بھارت اور افغانستان کی جانب سے نسلی اور فرقہ وارانہ تقسیم کو فروغ دیا جارہا ہے اور یہ بھی ملک میں انتہاپسندی کا ذریعہ بن چکا ہے۔ فرقہ وارانہ دہشت گردی سے ملک کے تمام حصے متاثر ہوئے ہیں لیکن وقفے وقفے سے اس کے حملے زیادہ تر شمالی اور پنجاب کے جنوبی علاقوں میں ہوئے ہیں جو ملک کی قومی سلامتی کیلئے حقیقی خطرہ ہے۔ اب آئیے دہشت گردی اور نوجوانوں کو گمراہ کرنے کے عوامل کا جائزہ لیتےہیں۔ سب سے پہلے، اسکولوں اور کالجوں میں پڑھائی جانے والی نصابی کتابیں ہیں۔ دوسری کچھ مدارس میں برین واشنگ جس میں انتہاپسندانہ سوچ بھی شامل ہے۔ تیسرا، مساجد میں لاؤڈ اسپیکر کے مسلسل غلط استعمال اور ویڈیو، آڈیوز کے ذریعے بلاروک ٹوک نفرت انگیز مواد کا موجود ہونا۔ انتہاپسندانہ سوچ کا دوسرا سرچشمہ مدارس ہیں۔ ٹی ٹی پی کی تقریباً پوری قیادت ان ہی کی پیدا کر دہ ہے۔ کچھ اعلیٰ افغان طالبان پاکستانی مدارس کے علما ہیں۔ خلیجی ممالک کئی مدرسوں کو فنڈز فراہم کرتے ہیں۔ یہ مدارس پاکستان میں شیعہ مخالف جذبات پیدا کرنے کیلئے استعمال کیے گئے تھے۔ درحقیقت ضیاء الحق کے دور میں غیر ملکی معاونت سے سیکڑوں نئے مدارس قائم کیے گئے تھے۔ آڈیو، ویڈیو عنصر، انتہاپسندی کا تیسرا ذریعہ آزادانہ طور پر دستیاب وہ آڈیو اور ویڈیو مواد ہےجو فرقہ وارانہ نفرت کو بھڑکا رہا ہے۔ کچھ مذہبی رہنما جو ان مدارس میں پڑھے ہوئے ہیں اور نفرت پھیلانے کیلئے معروف ہیں، اپنا مشن جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں ہم کس طرح دہشت گردی کو ختم کر سکتے ہیں۔ پاکستان اور وسیع خطہ جسے دہشت گردی کی لہر کا سامنا ہے اسے صرف فوجی آپریشنز کے ذریعے شکست نہیں دی جا سکتی۔ اپنی ملٹی نیشنل رسائی اور مقاصد کی حامل دہشت گردی کو حقیقی معنوں میں اسی وقت ختم کیا جا سکتا ہے جب خطے کے ممالک خاص طور پر پاکستان، افغانستان اور بھارت ایک ہوں اور تعاون کریں۔ گزشتہ 16برس کے دوران پاکستان میں 61 ہزار 700 افراد دہشت گرد حملوں میں مارے گئے ہیں۔ فوجی آپریشنز خاص طور پر ضرب عضب نے پرتشدد واقعات میں 65 فیصد کمی کر دی ہے لیکن خطرہ اب بھی منڈلا رہا ہے جیسا کہ فروری میں دیکھا گیا کہ ملک کے مختلف حصوں میں بم دھماکے ہوئے۔ نیا شروع ہونے والا آپریشن ردالفساد پاکستان میں دہشت گردی سے متعلق تشدد میں مزید کمی کا باعث بنے گا لیکن اسے مکمل طور پر ختم نہیں کر سکتا۔ ہو سکتا ہے کہ فوجی آپریشن سے سخت گیر دہشت گرد کچلے گئے ہوں لیکن یہ دہشت گردوں کے انتہاپسندانہ نظریات کو شکست نہیں دے سکتے، جو سخت گیر نظریات کے حامل نئے لوگ پیدا کرتے رہتے ہیں۔ لوگوں میں سخت گیر نظریات پیدا کرنے کے مظہر کو حکومتی سطح پر سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے ، اگر حکومت انتہا پسندانہ نظریات سے لڑنے میں سنجیدہ ہے تو حکومت کو یہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ (اے) پیپلز پارٹی کی حکومت کے شروع کیے گئے مدرسہ اصلاحات پر سرگرمی سے عمل کیا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ مدارس اپنے طلبا کو سخت گیر بنانے کے لئے بنیادی ذریعہ نہ بننے پائیں۔ حکومت اور آئی ٹی ایم پی کے مابین معاہدہ، منجملہ اور چیزوں کے آئی ٹی ایم پی کے پانچ بورڈز کا وزارت تعلیم سے تعلق ہوگا، کوئی مدرسہ ایسا لٹریچر شائع کرے گا نہ پڑھائے گا جو عسکریت پسندی کو فروغ دیتا ہو یا فرقہ واریت پھیلاتا ہو، غیر ملکی طلبا کی رجسٹریشن کی نگرانی وزارت داخلہ کے ذریعے کی جائے گی۔ (بی) اس کے علاوہ ڈی ریڈیکلائزیشن پروگرام ملک گیر طور پر شروع کیا جائے جسے نامورماہرین نفسیات کے ذریعے شروع کرایا جائے۔ (سی) اسی طرح کا پروگرام جیلوں کے اندر ان دہشت گردوں اور دیگر قیدیوں کیلئے ڈیزائن کیا جا سکتا ہے جو پہلے سے حراست میں ہیں۔ (ڈی) ملک میں سخت گیر نظریات رکھنےوالے افراد اور انتہا پسندانہ نظریات والے دہشت گردوں کا توڑ کرنے کیلئے مستند مذہبی ذرائع سے جوابی بیانیے کو تیار کرنے اور پھیلانے کی ضرورت ہے۔ (ای) فٹ سولجرز کے لئے ملازمتوں کے مواقعوں اور مالی معاونت کے وعدے کے ساتھ عام معافی کے آپشن پر غور کیا جا سکتا ہے۔اس کی یاددہانی کی ضرورت نہیں ہے کہ اگر یہ وعدے پورے نہ کیے گئے تو انتہاپسندانہ نظریات اور تشدد ترک کرنے کیلئے تیار افراد پلٹ بھی سکتے ہیں(ایف) سب سے اہم، ایک ٹرتھ اینڈ ری کنسیلیئشن کمیشن قائم کیا جا سکتا ہے جو ان مقامات کی نشاندہی کریں جہاں ریاست اور حکومتوں سے غلطیاں ہوئیں اور جن کی وجہ سے ملک میں عسکریت پسندی/ دہشت گردی کو پنپنے اور پیدا ہونے کیلئے متحرک طور پر یا خاموشی سے سازگار ماحول پیدا ہوا۔ افغانستان میں عسکریت پسندی اصل میں پاکستان میں عسکریت پسندی کو متاثر کرتی ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک میں اس وقت نازک سیاسی اور سیکورٹی کی صورتحال کسی طرح بھی پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ یہ پاکستان کا اعلانیہ موقف ہے کہ مستحکم اور پرامن افغانستان پاکستان کے مفاد میں ہے اور یہ کہ پاکستان اس مقصد کے حصول کیلئے افغانستان کیساتھ مل کر کام کرنے کیلئےتیار ہے۔ تاہم سرحد کے دونوں اطراف میں عسکریت پسندی اور دہشت گردی کے عفریت کو کچلنے کیلئے واحد راستہ بارڈر مینجمنٹ کے ضمن میں قریبی باہمی تعاون ہے، جس کے ذریعے دہشت گردوں، عسکریت پسندوں کو دونوں ممالک میں نقل و حرکت سے روک کر ان کی آپریشنل سرگرمیوں کو محدود کیا جا سکتا ہے۔ دونوں ممالک کو دہشت گردوں یا کسی تیسرے فریق کو ایک دوسرے کے خلاف اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہ دیں۔ افغانستان کے اندر داعش کی بڑھتی ہوئی موجودگی اور پاکستان اور افغانستان کے اندر اس کی دہشت گرد سرگرمیاں دونوں ممالک کیلئے ایک اور پریشان کن عنصر ہے اور اگر دونوں ممالک نے اس کو مل کر نہ روکا تو یہ خطے میں ایک اور عفریت بن کر ابھر سکتا ہے۔ اس طرح کی صورتحال میں انسداد دہشت گردی پر علاقائی ممالک کے مابین تعاون ہی واضح حکمت عملی دکھائی دیتی ہے اور یہ وقت کی ضرورت ہے کہ یہ ممالک دنیا بھر میں بالعموم اور خطے میں بالخصوص عسکریت پسندی کو پھیلنے اور بڑھنے سے روکنے کیلئے مل کر کام کریں۔مصنف تھنک ٹینک ’’گلوبل آئی‘‘ کے چیئرمین اور پاکستان کے سابق وزیر داخلہ ہیں۔

 

تازہ ترین