• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٓٓٓآج قائد جمہوریت امن کی پیامبر محترمہ بے نظیر بھٹو کا 10 واں یوم شہادت ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے سیاسی زندگی کا آغاز مشکل ترین حالات میں کیا جب پاکستان کی پہلی منتخب حکومت کا تختہ ایک سازش کے تحت رجعت پسند قوتوں کی مدد سے اُلٹا کر جمہور کے حقوق کو غضب کیا جا چکا تھا۔ اس تاریک دور میں جب فکر محبوس تھی اور گفتار پر تعزیریں تھیں بے نظیر بھٹو نے پاکستان کے عوام کے حقوق کے لئے جدوجہد کا آغاز کیا۔ بی بی کی جنگ مفاد پرستوں اور سرمایہ داروں کے خلاف تھی۔ آمر وقت نے اُسے بندوقوں سے ڈرانا چاہا، رجعت پسنداُس کے خلاف کردار کشی اور مذہبی استحصال کا ہتھیار لے کر آئے اور سرمایہ داروں نے اُس کی جماعت کو کمزور کرنے کیلئے سرمائے کا بے دریغ استعمال کیا۔ کبھی کہا گیا کہ عورت کی قیادت کی مذہب میں گنجائش نہیں، کبھی باپ کے ناکردہ گناہوں کا بوجھ بیٹی پر ڈالنے کی کوشش کی گئی کبھی بھائیوں سے منسوب بے سروپا الزامات بہن کے سر تھونپے گئے اور کبھی شوہر پر لغو الزمات لگا کر بیوی کو مجرم گردانا گیا۔ دشنام طرازی اور الزمات کے ان تیروں کا جواب بی بی نے صبر و تحمل، بردباری اور برداشت سے دیا۔ بے نظیر بھٹو نے جبر کا مقابلہ جرات سے الزمات کا جواب اعلیٰ کردار سے اور سرمایہ داروں اور غاصبوں کا مقابلہ عوام سے لازوال رشتہ استوار کر کے کیا۔ بے نظیر بھٹو نے مفاہمت کے ذریعے سیاسی مدبر کا مقام حاصل کیا اور عوام کو اُن کے حقوق کے حصول کیلئے متحد کیا۔ بندوقوں والوں کے خلاف نہتی لڑکی کی جدوجہد بے نظیر ہے ۔
ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر چڑھانے کے بعد اُن کی جماعت اور نظریہ کو ختم کرنے کے لئے سازشوں کا سلسلہ نقطہ عروج پر پہنچ گیا۔ بھٹو صاحب کے قریبی سیاسی رفقا اور بی بی کے انکلز کی بہت بڑی تعداد یا تو سازش کرنے والوں کے ساتھ شامل ہو گئی یا جان بخشی کے عوض خاموشی اختیار کر لی۔ بی بی نے پارٹی کے چند بزرگ رہنمائوں کے ہمراہ زیادہ تر نئی اور نوجوان قیادت کے ذریعے بھٹو ازم کے فروغ کا علم بلند کیا۔ جنرل ضیاء کا آمرانہ دور پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دور ہے اُسی طرح اُس کے خلاف بی بی کی قیادت میں کی جانے والی جدوجہد ہماری تاریخ کا روشن ترین باب ہے۔ بھٹو صاحب کے عدالتی قتل کے بعد وفاق پاکستان عدم استحکام کا شکار تھا۔ بی بی نے صوبائی عصبیت کی حوصلہ شکنی کی اور قومی سطح پر وفاق کی علامت ہونے کا کردار ادا کیا اور ملک کے گلی کوچے میں عوام یہ نعرہ بلند کرنے لگے۔ چاروں صوبوں کی زنجیر بے نظیر بے نظیر۔
بی بی نے شاندار جدوجہد اور اعلیٰ سیاسی صلاحیتوں کے ذریعہ ثابت کیا کہ بیٹی بھی باپ کے عظیم مشن کو آگے بڑھا سکتی ہے اور اگر وراثت عظیم ہو تو قابل تقلید ہوا کرتی ہے۔ بی بی نے ذوالفقار علی بھٹو کے ایٹمی پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے میزائل ٹیکنالوجی کا معاہدہ کیا اور دفاع کو ناقابل تسخیر بنا دیا۔ انتہا پسندوں اور ظلمتوں کے بیوپاریوں کے خلاف بے نظیر بھٹو کی آواز ہی سب سے توانا اور واضح تھی اور جب بڑے بڑے طرم خان اُن کے خوف سے اُن کے ہمداروں کا کردار ادا کر رہے تھے، بی بی للکار رہی تھی کہ میں پاکستان کو ان دہشت گردوں سے بچائوں گی ۔ یہی للکار آج پاکستان کی ہر ملالہ کی آواز ہے جسے دہشت گرد بندوق کے زور پر بھی نہیں دبا سکے۔
جب افغان جہاد اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے دعویدار انان اسٹیٹ ایکٹرز اور انتہا پسند ریاست کو مکمل طور پر یرغمال بنا چکے اور پچاس ہزار سے زائد افراد اس عفریت کا شکار ہو گئے تو صرف بی بی ہی ان کے خلاف عالمی رائے عامہ کو جمہوریت کے حق میں استعمال کرتی رہی اور ملک کے اندر جمہوریت کی بحالی کیلئے عالمی طاقتوں کو رضامند کیا۔ جب ملک کی مسجدیں خون رنگ تھیں امام بارگاہیں لہو سے تر تھیں چرچ مندر بازار چوراہے اور تعلیمی ادارے خون کے دھبوں سے آلودہ تھے اُن حالات میں محترمہ نے وطن واپسی کا فیصلہ کیا۔ مذہبی انتہا پسندوں نے جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں آمر وقت نے جان کا تحفظ دینے سے صاف انکار کر دیا لیکن بی بی نے اپنے بچوں کو اُن کے والد کی رہائی کے بعد اُن کے سپرد کیا اور خود ملک کے بلاول بختاور اور آصفہ کے مستقبل کے لئے جان ہتھیلی پر رکھ کر جلاوطنی ختم کر کے ملک واپس آنے کا فیصلہ کیا۔
بی بی کی واپسی پر روشنی سے خوفزدہ لوگوں نے ظلمت کو قائم رکھنے کیلئے پاکستان کا سب سے بڑا خودکش حملہ کیا جس میں پیپلز پارٹی کے سینکڑوں کارکن شہید ہو گئے مگر پھر بھی بے نظیر کے حوصلوں کو متزلزل نہ کر سکے اور بی بی نے عوام کو ان دہشت گردوں کے خلاف متحد کرنے کے لیے شہر شہر کا دورہ شروع کیا اور شہادت کے اصول کے عین مطابق موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اور پوری شان کے ساتھ پھولوں کی مالا پہن کر شہادت کو خوش آمدید کہا اور عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کون سوات میں پاکستان کا پرچم لہرائے گا؟ کون پاکستان کو بچائے گا؟ میرا ملک خطرے میں ہے میں بچائوں گی آپ بچائیں گے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی پوری زندگی پاکستان میں عوام کے حقوق اظہار رائے کی آزادی اور معاشی انصاف کی جدوجہد کے لئے وقف تھی اُنہوں نے خود کو بھٹو کی سچی بیٹی ثابت کیا جو صرف بیٹے اور بیٹیاں ہوتے ہیں اُنھیں علم نہیں کہ سچی بیٹی کیسی ہوتی ہے اُن کے لئے اب یہ کہنا ہی کافی ہے جیسے بے نظیر بھٹو کی بیٹی ہے بھٹو وزیراعظم تو بے نظیر بھی وزیراعظم، بھٹو عظیم قائد تو بے نظیر بھٹو عالمی سطح کی مسلمہ قائد، بھٹو شہید تو بے نظیر بھی شہید۔ دنیا میں ایسی عورتیں بہت کم ہیں جن کے ساتھ شہید کا لفظ لگتا ہے۔

تازہ ترین