• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جوں جوں عام انتخابات قریب آرہے ہیں معزول وزیراعظم نوازشریف تنگ آمد بجنگ آمد والی اسٹیج پر پہنچ رہے ہیں۔ وہ بار بار پیغام دے رہے ہیں کہ نون لیگ کے خلاف سازشیں بند کی جائیں ورنہ وہ چار سال کی ساری کہانی جو کہ ان کے خلاف سازشوں سے بھری پڑی ہے کو بیچ چوراہے سنانا شروع کر دیں گے اور پھر کوئی بھی منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گا۔ سعودی عرب سے واپسی کے بعد انہوں نے واشگاف الفاظ میں وارننگ دی ہے کہ ان کے خلاف کھیل بند کیا جائے ورنہ وہ پردے کے پیچھے ہونے والی تمام کارروائیوں کو آشکار کر دیں گے۔ نوازشریف کے پاس تمام قسم کے ثبوت اور شہادتیں جن میں آڈیوز بھی شامل ہیں موجود ہیں جو ظاہر کرتی ہیں کہ کون سا پلیئر کیا کیا کرتا رہا ہے اور کس طرح ان کے خلاف سارے ڈرامے پرڈیوس اور ڈائریکٹ کئے جاتے رہے ہیں۔ ہم سب کو بھی کافی حد تک معلوم ہے کہ یہ کیا سازشیں تھیں جن کا آغاز سابق وزیراعظم کی 2013ء میں حکومت بننے کے فوراً بعد ہوگیا تھا۔ جون 2014ء میں ماڈل ٹائون لاہور میں ہونے والے قتل عام کے پیچھے کون تھا؟ اسی سال ڈی چوک میں ہونے والے دھرنوں میں کس ایکٹر نے کیا کیا پارٹ پلے کیا اور درحقیقت یہ احتجاج ان جماعتوں کا نہیں تھا جو فرنٹ پر تھیں بلکہ یہ سارا ڈرامہ کسی اور نے رچایا تھا، ڈان لیکس کی حقیقت کیا تھی اور اس کو ہوا دینے کے اصل مقاصد کیا تھے؟ پانامہ پر ہنگامہ کھڑا کرنے کے پیچھے کس کس کا کیا کردار تھا ؟ جے آئی ٹی نے کیسے کام کیا اور اسے کہاں کہاں سے ڈائریکشنز ملتی رہیں؟ کس طرح ایک لمبے عرصے تک نواز شریف کوبدنام کرنے کیلئے مہم چلائی گئی؟ کس طرح کچھ ٹی وی چینلز کو اس مقصد کیلئے استعمال کیا گیا اور بالآخر انہیں گزشتہ سال کیوں اور کیسے نااہل قرار دے دیا گیا؟ کس نے اور کیوں انہیں احتساب کے چکر میں پھنسایا ہے جس کا مقصد انہیں سزا دلوانا ہے تاکہ انہیں سیاست سے نکال باہر پھینکا جائے؟ ابھی تک سابق وزیراعظم نے اس سارے کھیل کے بارے میں کچھ بھی ظاہر نہیں کیا کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ مختلف ادارے ایسے وقت میں مزید دبائو میں آجائیں جبکہ پاکستان سخت مسائل سے گھرا ہوا ہے مگر اب وہ صاف کہہ رہے ہیں کہ برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔
باقی تمام جماعتوں کی طرح نوازشریف کی بھی نظریں اب چند ماہ بعد ہونے والے انتخابات پر لگی ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ نون لیگ کو انتخابی معرکے میں کسی امتیازی سلوک کا سامنا نہ ہو۔ آثار نظر آرہے ہیں کہ سرتوڑ کوششیں کی جارہی ہیں کہ کسی نہ کسی طرح ان کی جماعت کو مختلف طریقوں سے جکڑا جائے تاکہ وہ الیکشن میں وہ پوزیشن حاصل نہ کرسکے جو کہ اس کا حق ہے۔ تمام سرویز اور تجزیوں کے مطابق اگلے انتخابات میں نون لیگ سب جماعتوں کو بہت پیچھے چھوڑ جائے گی اور اس کی کارکردگی 2013ء کے مقابلے میں بھی کافی بہتر ہوگی مگر شرط یہ ہے کہ اسے آزادانہ طریقے سے اس میں حصہ لینے دیا جائے۔ سابق وزیراعظم کے خدشات کہ ان کی جماعت کو نقصان پہنچانے کیلئے سازشیں ہو رہی ہیں بے جا نہیں ہیں کیونکہ مختلف ڈرامے رچائے جارہے ہیں جن کا مقصد ہی یہ ہے کہ کسی نہ کسی طرح نون لیگ نہ جیت سکے۔ اس بارے میں ان کا یہ کہنا کہ ’’لاڈلے‘‘ یعنی عمران خان کیلئے رستہ ہموار کیا جارہا ہے نامناسب نہیں ہے۔ ایک مصنوعی طریقے سے کوشش کی جارہی ہے کہ عمران خان کو کامیاب کرایا جاسکے۔ تاہم ہمارا خیال ہے کہ عمران خان نے جس طرح پچھلے چار سال میں اپنے آپ کو کنڈکٹ اور ایکسپوز کیا ہے کون چاہے گا کہ وہ وزیراعظم بنیں۔ ان کو تو بری طرح استعمال کیا گیا ہے اور مزید استعمال کیا جائے گا تاکہ اگلے الیکشن کے نتیجے میں’’ہنگ پارلیمنٹ‘‘ وجود میں آئے جس میں جو راجہ چاہے وہی ہو اور سیاسی جماعتیں یتیموں کی طرح ادھر ادھر بھاگتی رہیں لیکن ایسی پارلیمنٹ پاکستان میں صرف افراتفری اور عدم استحکام ہی پیدا کرے گی جس کی ہمارے حالات قطعاً اجازت نہیں دیتے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک مضبوط حکومت معرض وجود میں آئے تاکہ وہ اعتماد کے ساتھ ان مسائل، جن میں پاکستان گھرا ہوا ہے، سے احسن طریقے سے نمٹ سکے۔ نہ صرف عمران خان بلکہ نواز شریف کے تمام سیاسی مخالفین بار بار مختلف غیر جمہوری قوتوں کو ’’اشکل‘‘ دے رہے ہیں کہ اگر نون لیگ کو نہ توڑا گیا تو یہ انتخابات میں ان کی بری طرح درگت بنادے گی۔
جھوٹ کا زمانہ ہے خاص طور پر ان لوگوں کیلئے جو کہ ریٹنگ کے لئے مرے جارہے ہیں اور جو ایک مخصوص ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ جونہی وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف بادشاہ کے بھجوائے ہوئے سپیشل جہاز پر سعودی عرب روانہ ہوئے اور تین دن بعد نوازشریف بھی وہیں چلے گئے تو افواہوں کا ایک طوفان برپا کردیا گیا۔ کیا بھلا تفتیش کے لئے بلانے کیلئے کوئی اسپیشل جہاز بھجواتا ہے؟ کیا کوئی عوامی مقبولیت کے عروج پر ہوتے ہوئے کوئی این آر او یا ڈیل کرکے سیاسی خودکشی کرنا چاہے گا؟ کیا سعودی عرب جیسا ملک ملزمان کو شاہی پروٹوکول دیتا ہے؟ یقیناً کچھ حلقوں کی بڑی خواہش ہے جو وہ مختلف ذریعوں سے نوازشریف تک پہنچا بھی چکے ہیں کہ وہ اور ان کی بیٹی مریم ملک سے چلے جائیں تو ان کے خلاف تمام کیس اور کارروائیاں بند کر دی جائیں گی۔ 2000ء میں سابق وزیراعظم نے غلطی کی جب وہ سعودی عرب جلاوطنی میں چلے گئے اب وہ اس کو دہرانا نہیں چاہتے۔ اس وقت بھی پرویزمشرف کی خواہش تھی کہ نوازشریف پاکستان سے چلے جائیں تاکہ وہ پرسکون طریقے سے حکومت کر سکیں کیونکہ ان کی عدم موجودگی میں ان کیلئے کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ سعودی عرب سے واپسی کے ایک دن بعد نوازشریف نے جو اپنی پرانی جارحانہ حکمت عملی کو دہرایا اس نے ان تمام بے پرکیوں کو ان کے منہ پے دے مارا جنہوں نے یہ پھیلائی تھیں۔ نہ صرف انہوں نے اپنی پہلے والی پالیسی کا اعادہ کیا بلکہ اس پر ’’موراوور‘‘ بھی کر دیا جب انہوں نے کہا کہ اگر ان کی جماعت کے ہاتھ پائوں باندھ کر لاڈلے کیلئے رستہ ہموار کرنے کی سازشوں کو ختم نہ کیا گیا تو وہ ان کے خلاف چار سال تک ہونے والی تمام درپردہ کارروائیوں کو قوم کے سامنے لے آئیں گے اور مزید یہ کہ وہ بطور وزیراعظم بڑے دردمندانہ انداز میں لگاتار کہتے رہے کہ اپنا گھر ٹھیک کیا جائے مگر اس پر توجہ نہیں دی گئی اور ڈان لیکس جیسی کارروائیاں کی گئیں اور ان کی حب الوطنی پر سوال اٹھائے گئے۔ آنے والے دنوں اور ہفتوں میں نوازشریف اپنے سیاسی مخالفین خصوصاً عمران خان اور ان کے اسپانسرز پر بھاری ہاتھ رکھیں گے۔ ان کا مقصد صرف اور صرف ایک ہے کہ اگلے انتخابات صاف ،شفاف اور منصفانہ ہوں کیونکہ الیکشنز کو ’’مینج‘‘ کرنے اور انتخابی نتائج تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے ملک دو لخت ہوا اور اس کی مشکلات میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا رہا۔ سابق وزیراعظم نے اپنے سعودی دورے کے بارے میں کوئی خاص بات نہیں کی تاہم ہمارے خیال میں ریاض میں ہونے والی بات چیت کا مقصد کچھ اسلامی ممالک میں جاری کش مکش کو دور کرنا ہے۔ چونکہ نوازشریف کے ترکی اور قطر سے بہترین تعلقات ہیں لہذا وہ اس پوزیشن میں ہیں کہ وہ کوئی مثبت رول ادا کرسکیں۔ سعودی عرب کے ان دونوں ممالک کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں۔

تازہ ترین