• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نگاہ بلند، سخن دلنواز، جاں پرسوز، قائد اعظم کے قبیل اور طور طریقوں کا آخری کردار۔ پاکستانی قوم کی حقیقی زندگی میں محمد علی جناح کے بعد اگر کوئی دیومالائی کردار ہوسکتا ہے تو ائیر مارشل اصغر خاں سے بڑھ کے کوئی نہیں کہ جس کے مجسمے تراشے اور شاہراہوں پر نصب کئے جائیں۔ قوم اس کی زندگی کے واقعات کو دہراتے ہوئے فخر محسوس کرے، شاعر ترانے لکھیں اور نوجوان گاتے جائیں۔ طالبعلم ان کی زندگی سے زندگی اور رہنمائی حاصل کریں۔ بے شک اصغر خاں حسن صورت کے ساتھ حسن سیرت و کردار کا اعلیٰ نمونہ تھے۔ دل کش مسکراہٹ کے اصغر خاں بلاکسی کوشش اور خواہش کے ہر محفل میں نمایاں اور مرکز نگاہ ہوتے۔ ائیر مارشل اصغر خاں سے ہماری پہلی ملاقات پنجاب یونیورسٹی کے زمانہ طالبعلمی میں ہوئی ، اب یاد نہیں کہ کون لوگ ہمراہ تھے۔ یہ ملاقات ان کے ایبٹ آباد والے گھر میں ہوئی تھی اور آخری ملاقات حال ہی میں ان کے اسلام آباد گھر میں ہوئی۔یہ ملاقات 15مئی 2017یعنی آٹھ مہینے پہلے حاجی محمد اسلم صاحب کی معیت میں ہوئی، تب ائیر مارشل صاحب کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی پھر بھی وہ قدرے خمیدہ کمر کے ساتھ چھڑی کے سہارے چلتے ہوئے ملاقات کے کمرے میں آئے تو وہی دلکش اور ملکوتی مسکراہٹ ان کے ہونٹوں پر تھی جو صرف انہی کا خاصا تھی، ہم لوگ تقریباً ایک گھنٹہ ان کے ہمراہ رہے، یہ آخری ملاقات حاجی اسلم صاحب نے اپنے مووی کیمرے میں ریکارڈ کرلی تھی۔
ائیر مارشل اصغر خاں 17جنوری 1921جموں میں پیدا ہوئے، جہاں ان کے والد ریاستی فوج میں بریگیڈئر کے عہدے پر فائز تھے۔ اصغر خاں کےچار بھائی تھے، سب سے چھوٹے بھائی کے سوا باقی چاروں نے ملٹری سروس میں شمولیت اختیار کی۔ اسلم خاں پاک فوج میں بریگیڈئر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے، باقی دو بھائیوں نے بھی پاک فضائیہ میں شمولیت اختیار کی اور دوران ملازمت شہید ہوئے۔
اصغر خاںابتدائی عمر میں ایچی سن کالج لاہور میں تعلیم حاصل کرتے رہے۔ 1933میںبارہ سال کی عمر میں پرنس ویلز رائل انڈین ملٹری کالج چلے گئے اور 1939 میں اٹھارہ سال کی عمر میں انڈین ملٹری اکیڈمی میں شمولیت اختیار کی۔ شروع میں ان کا چنائو بری فوج میں سیکنڈ لیفٹیننٹ کے طور پر ہوا تھا۔ 1940میں انہوں نے نئی قائم ہونے والی ’’انڈین فضائیہ‘‘ کو اختیار کرلیا۔ 1944-45 میں دوسری جنگ عظیم کے دوران برما میں جاپان کے خلاف آپریشن میں حصہ لیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد انہیں برطانیہ بھیج دیا گیا جہاں انہوں نے رائل ائیر فورس اسٹاف کالج سے ا سٹاف کورس مکمل کیا۔ بعد میں جوائنٹ سروسز ا سٹاف کالج سے بی ایس سی کیا اور انہیں ملٹری ایڈمنسٹریشن میں ایم ایس ای کی ڈگری سے بھی نوازا گیا۔ واپسی پر اصغر خاں’’رائل انڈین ائیر فورس‘‘ کے سب سے سینئر افسر تھے۔ یہ رائل انڈین ائیر فورس کے پہلے آفیسر تھے جنہوں نے جیٹ فائٹر جہاز اڑانا شروع کیا۔
7جون 1947رائل ائیر فورس کے ا ئیر وائس مارشل ایلن پیری کین کی سربراہی میں قائم کی گئی’’سب کمیٹی‘‘ کے ممبر بنائے گئے۔ غیر منقسم برصغیر کی فضائیہ کے اثاثہ جات کو تقسیم ہوجانے والے برصغیر یعنی پاکستان اور بھارت کے درمیان تقسیم کرنا تھا۔14اگست 1947 پاکستان کے قیام اور اعلان آزادی کے ساتھ ہی اصغر خاں نے نئی نئی قائم ہونے والی پاکستان فضائیہ میں شمولیت اختیار کرلی۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خاں نے انہیں ’’ونگ کمانڈر‘‘ کے عہدے پر ترقی دے کر پاکستان ائیر فورس رسالپور اکیڈمی کا پہلا کمانڈر مقرر کیا۔ 1948میں بانی پاکستان گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح پشاور دورے پر تشریف لائے تو ہوائی اڈے پر اصغر خاں نے ائیر فورس کے چند دوستوں کے ہمراہ ان کا استقبال کیا۔ 1949میں پشاور ائیر بیس پر تعینات نمبر1اسٹرائیک گروپ کا کمانڈنگ آفیسر بنادیا گیا۔ 1950میں ڈائریکٹر جنرل ائیر آپریشن (DGAO)مقرر ہوئے۔ 1955ایئر ہیڈ کوارٹر میں اسسٹنٹ چیف ا ٓف ائیرا سٹاف مقرر ہوئے۔ اسسٹنٹ چیف آف ائیر اسٹاف کے طور پر اپنی اعلیٰ صلاحیتوں کو کام میں لاتے ہوئے انہوں نے بڑے اور بنیادی یونٹ، انفراسٹرکچر، فائٹر لیڈر سکول، ائیر ا سٹاف کالج اور’’کالج آف ائیرو ناٹیکل انجینئرنگ‘‘ قائم کئے جس کی محنت اور کارکردگی کے سبب آج پاکستانF7جیسے جنگی طیارے بنانے کے قابل ہوا۔
23جولائی 1957ائیر وائس مارشل آرتھر میکنڈونلڈ کی ریٹائرمنٹ کے بعد اس وقت وزیر اعظم حسین شہید سہروردی کی منظوری سے گورنر جنرل ا سکندر مرزا نے انہیں پاک فضائیہ کا پہلا مقامی سربراہ مقرر کیا۔ اصغر خاں پاک فضائیہ کے کمانڈر انچیف مقرر ہوئے تو ان کی عمر صرف 36برس تھی۔ شاید یہ دنیا کے سب سے کم عمر کمانڈر انچیف رہے ہوں گے لیکن ان کے کارنامے اور کامیابیاں دنیا بھر کی فضائی افواج کے لئے حیران کر دینے والی ہیں۔
1957سے 1965تک پاکستان فضائیہ کے نوجوان سربراہ نے نئی بننے والی ائیر فورس کو مقدار اور تعداد میں کم ہونے کے باوجود دنیا کی بہترین، قابل اعتماد اور تیز رفتار جنگی مشین بنادیا کہ پہلے ہی مقابلے میں پاکستان ائیر فورس نے اپنے سے پانچ گنا تعداد، مقدار اور کوالٹی کی بھارتی ائیر فورس کو میدان جنگ میں چاروں شانے چت کردیا۔ آج پچاس برس سے زیادہ عرصہ گزرنے پر دشمنوں پر ان کے نام سے لرزہ طاری ہے۔ اصغر خاں 1965کی پاک بھارت جنگ سے دو ہفتے پہلے پاک فضائیہ سے ریٹائر ہوگئے تھے۔ انہوں نے جنگ کے دوران اپنی خدمات حکومت پاکستان کو پیش کردیں، وہ آٹھ سال پاک فضائیہ کے سربراہ رہے اور 44برس کی عمر میں ریٹائر ہوئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد 1965سے 1968تک پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائنز (PIA)کے چیئرمین بنادئیے گئے۔ ان کی سربراہی میں پاک فضائیہ کی طرح قومی ائیر لائن بھی دنیا بھر میں نامور ہوئی لیکن جلدہی سیاسی حکومتوں، سیاسی ضرورتوں کی نذر ہوگئی۔ ائیر مارشل اصغر خاں کی اصل میراث پاک فضائیہ، سیاسی شعبدہ بازوں اور فوجی طالع آزمائوں کی دست برد سے بچ رہی سو آج بھی سرخرو ہے۔
ایوب خاں کی آمریت، یحییٰ خاں کی نااہلی اور سیاستدانوں کی خود غرضی سے قائد اعظم کے پاکستان پر برا وقت آیا تو ائیر مارشل پھر ایک مرتبہ بروئے کار آئے اور انہوں نے نہ چاہتے ہوئے بھی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔ ’’تحریک استقلال‘‘ کے نام سے سیاسی جماعت تشکیل دی اور سیاست میں بھی شرافت، دیانت اور اصول کا چلن عام کرنے کی کوشش میں لگے رہے۔ائیر مارشل اصغر خاں 17جنوری 1921جموں میں پیدا ہوئے اور 5جنوری2018بروز جمعۃ المبارک سی ایم ایچ راولپنڈی میں 96برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔ تقریباً ایک صدی کی زندگی میں ان کی سوانح حیات پر نظر ڈالیں تو فرصت اور تفریح کے لمحات کم ہی نظر آئیں گے مگر انہوں نے بھرپور ، شاندار ، کامیاب زندگی بسر کی۔ اپنی ذات اور خاندان کی تنگنائیوںسے اوپر بہت اوپر بسر کرتے رہے، قوم اور وطن کے لئے محنت لگن اور خلوص کے ساتھ۔ انہوں نے کبھی اپنی اعلیٰ خدمات کا ڈھول پیٹا نہ قوم پر احسان دھرا۔
یونانی دیوتائوں کے سے خد و خال کے وجیہہ اور باوقار اصغر خاں اقبال کے شاہیں اور گوئٹے کے مرد کامل ہی تو تھے۔
ان شاء اللہ پاکستان قیامت تک قائم رہے گا، اس پاکستان میں عظیم الشان اصغر خاں کی تین بیٹیاں، دو بیٹے اور ان کی اولادیں ہی نہیں پاکستان کے بیٹے اور فضائیہ کے جانباز اپنے بانی کو ہمیشہ یاد رکھیں گے اور ان کی زندگی کو مشعل راہ بنائیں گے؎
کوئی پھول بن گیا ہے، کوئی چاند کوئی تارا
جو چراغ بجھ گئے ہیں، تیری انجمن میں جل کے.

تازہ ترین