• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(نوٹ:۔ امریکہ کے ری پبلکن صدر ریگن کا مشہور محاورہ۔ پاک۔ امریکہ معاملات میں پاکستان کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے)
نئے سال کے آغاز پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان کے بارے میں دھمکی اور توہین آمیز ٹویٹ کے بعد اب تک نہ صرف پاکستان کا ردعمل بلکہ جواب میں امریکی ردعمل بھی سامنے آچکا ہے۔ صدر ٹرمپ اور نائب صدر مائیک پنس کے ان بیانات کی مخالفت اور تنقید خود بعض اہل شعور اور تجربہ کار امریکیوں کی جانب سے بھی آنے کے بعد اب ٹرمپ حکومت کے لب و لہجہ میں نرمی، شائستگی اور ڈپلومیٹک انداز شامل ہوگئے ہیں مگرصدر ٹرمپ اور نائب صدر پنس خاموش ہیں۔ البتہ امریکی سینٹرل کمان کے سربراہ جنرل جوزف وٹل نے پاکستان کے آرمی چیف سے جو گفتگو کی ہے اس میں پاک۔ امریکہ تعلقات کی موجودہ صورت حال کو ’’عارضی‘‘ قرار دیتے ہوئے یہ یقین بھی دلایا ہے کہ امریکہ پاکستان کے خلاف کوئی ’’یکطرفہ‘‘ ایکشن کا ارادہ نہیں رکھتا۔ اسی سینٹرل کمان کے ترجمان کرنل تھامس کا بیان بھی کم و بیش یہی پیغام لئے ہوئے ہے۔ گہری نظر اور بین السطور پڑھنے سے زبان و بیان نرم نظر آتے ہیں لیکن صدرٹرمپ اور نائب صدر پنس کے دھمکی آمیز پیغام سے مختلف نظرنہیں آتے۔ ان بیانات میں امریکہ کے اتحادی بھارت، افغانستان میں موجود نیٹو فورسز اور افغانستان کی جانب سے پاکستان کے خلاف کسی شر انگیزی یا کارروائی کا نہ تو کوئی ذکر کیا گیا ہے اور نہ ہی کوئی امریکی یقین دہانی کرائی گئی ہے جبکہ یہ تمام فریق اس وقت امریکی قیادت کی مرضی و مفادات کے خلاف خطے میں ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتے۔ پاکستان سے مطالبات بھی بدستور وہی ہیں جو صدر ٹرمپ کی نئی سیکورٹی اسٹرٹیجی میں کئے گئے۔ بھارتی آرمی چیف جنرل بپن کا پاکستان کے بارے میں لب و لہجہ اور دھمکیاں واضح کر رہی ہیں کہ بھارت۔ امریکہ اتحاد کی شہہ پاکر بھارتی رویہ میں جارحانہ تبدیلی میں اضافہ ہوگیا ہے۔ پاک امریکہ تعلقات کی موجودہ کیفیت کا حل تلاش کرنے والے پاکستانی فیصلہ سازوں کے لئے یہ لازمی ہے کہ وہ امریکہ کے 40؍ویں صدر رونالڈ ریگن کے اس رویے اور مشہور محاورہ کو پیش نظر رکھیں جو اپنے آٹھ سالہ دور صدارت کے دوران اس کنزرویٹو ری پبلکن اورعالمی شہرت یافتہ ایکٹر صدرریگن نے امریکہ اور سوویت یونین کی سرد جنگ کے دوران اپنایا تھا گو کہ یہ محاورہ دراصل روسی زبان کا ہے اور صدرریگن کو ان کی مصنفہ سوزن ماسی نے سکھایا تھا لیکن ریگن نے روس۔امریکہ سرد جنگ کے خاتمے کے سلسلے میں اتنی بار استعمال کیا کہ روسی صدر گوربا چوف نے بھی جب بار بار اس محاورہ کے استعمال کا ذکر کیا تو صدرریگن نے کہا کہ وہ اس محاورے کو پسند کرتے ہیں۔ عالمی تعلقات میں اس محاورہ کی عملی افادیت مسلم ہے اور ری پبلکن صدر ٹرمپ کے لئے کنزر ویٹو ری پبلکن صدر کا یہ محاورہ ہی بڑا معقول جواب ہے۔ "TRUST, BUT VERIFY" یعنی ’’اعتماد مگر تصدیق کرنا ضروری‘‘۔ صدر ٹرمپ اور ان کے معاونین کے بدلتے ہوئے لہجے اور بیانات کو سننا، سمجھنا پس پردہ خاموش ڈپلومیسی کے ذریعے مذاکرات بالکل ضروری ہیں مگر ایک ماہ قبل پنٹاگان کی اس رپورٹ کے بارے میں بھی تو سوچنے کی ضرورت ہے جس میں یہ کہا گیا کہ جن معاملات میں اختلاف رائے ہے وہاں امریکہ یکطرفہ اقدامات کئے جائیں۔ (UNILATERAL STEPS IN AREAS OF DIVERGENCE) اسلام آباد سے تو تعاون مانگا گیا مگر اسلام آباد کو بھارتی شر انگیزی سے سیکورٹی کی فراہمی پر خاموشی ہے کیوں؟ افغانستان میں بھارتی مفادات کو فروغ اور تحفظ دینے کی امریکی پالیسی پر پاکستان کی تشویش کا جواب ندارد۔ ہماری سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے بھی پاک۔ امریکہ تعلقات کی صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ خاصا وزنی سوال اٹھایا ہے کہ جب 17؍سال تک فوجی ایکشن کے باوجود امریکہ افغانستان میں ناکام رہا ہے تو پھر اب افغانستان میں دوبارہ فوج کشی کا فیصلہ کیوں کیا گیا؟ انہوں نے بجا طور پر کہا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں بھی بہت سی کمزوریاں ہیں کہ ہم اپنے موثر اور مدلل موقف کو دنیا کے سامنے پیش نہیں کرتے یہ درست کہ ہمیں امریکہ سے بہتر تعلقات کی کوشش کرنا چاہئے کیونکہ ہم امریکہ سے لاتعلقی اختیار نہیں کرسکتے یہ تبصرہ بھی درست کہ چین کے 110؍ارب ڈالرز کے مقابلے میں امریکہ کے چند سو ملین ڈالرز کی امریکی امداد کم اہمیت رکھتی ہے مگر عالمی سپرپاور امریکہ سے 70؍سال کے اتحادی تعلقات کے ہجوم سے نکلنا نہ تو آسان ہے نہ ہی ممکن نہ ہی وقت اور عقل کے تقاضوں کے مطابق ہے۔ ڈائیلاگ اور مشترکہ معاملات میں تعاون مگر قومی مفاد اور سلامتی سب پر مقدم رہے۔ اور مختلف آپشنز پر نظر رہے۔
صدر ٹرمپ کی پاکستان ٹویٹ اور دیگر فارن پالیسی امور پر خود امریکیوں کی جانب سے شدید تنقید سامنے آرہی ہے۔ خود ری پبلکن قائدین کھل کر مخالفت کررہے ہیں۔ سابق وزیر دفاع چک ہیگل ری پبلکن پارٹی سے وابستہ ممتاز سینیٹر بھی رہے ہیں۔ ان کا تازہ بیان ہے کہ ’’امریکہ اور دنیا ایک ایسے سال میں داخل ہوئے ہیں جو غیر یقینی کیفیت، خطرات اور (VOLATILITY) کا سال ہے۔ ٹرمپ جان بوجھ کر امریکہ اور دنیا کو تقسیم کررہے ہیں اتحادوں سے امریکہ کو نکالنے اور تجارتی ڈیلز کا کام کررہے ہیں ڈائیلاگ سے قبل ہی شرائط عائد کرنے کا طریقہ غلط ہے‘‘۔ چک ہیگل ری پبلکن ہیں مگر ڈیموکریٹ صدر اوباما نے انہیں اپنا وزیر دفاع بنایا تھا۔ پاکستان میں سابق امریکی سفیر رچرڈ اولسن پاک۔ امریکہ تعلقات پر اپنے مضمون میں وہ حقائق بیان کرچکے جو امریکہ اور پاکستان کے مشترکہ مفادات کی ترجمانی کرتے ہیں اور ٹرمپ کے اپنے متعدد مشیر ان سے علیحدگی اسی لئے اختیارکررہے ہیں کہ ان کی نظر میں صدر ٹرمپ عالمی سطح پر اور امریکی سطح پر امریکی مفادات کا نقصان کررہے ہیں۔ مگر صدر ٹرمپ اپنی حکمت عملی اور حکومت چلانے کے طریقہ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ انہیں اس وقت امریکہ۔ اسرائیل اور بھارت کا دفاعی، انٹیلی جنس اور توسیعی تثلیث ٹاپ کی ترجیح میں شامل ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم کا 6روز کا سرکاری دورہ خود اسرائیلی۔ بھارت تاریخ کا پہلا اہم دورہ ہے جس کا براہ راست تعلق پاکستان کی سیکورٹی سے بھی ہے ان کے ہمراہ 130؍افراد کے وفد میں سائبر، ڈیفنس اور انٹیلی جنس کے ماہرین بھی شامل ہیں تو سیکورٹی انتظامات میں اسرائیلی انٹیلی جنس کے کتنے افراد بھی ساتھ آئے ہیں اس کا اندازہ نیتن یاہو کے دورہ میں سائبر، ڈیفنس اور ایگری کلچر کے شعبوں میں ہونے والے معاہدات اور مشترکہ اعلامیہ کے تجزیاتی مطالعہ سے بآسانی ہوسکے گا۔ جنوبی ایشیا اب اسرائیلی مفادات کے جغرافیائی دائرے میں ہے۔ لیکن ہمارے سیاستدان اس تمام صورت حال سے بے نیاز اقتدار کی کرسی، الیکشن، دھرنے اور نفرت کی سیاست میں ایک دوسرے کا گریبان پکڑے ملک میں انتشار کے فروغ میں مصروف ہیں۔
اس وقت امریکہ میں ایسے قائدین اور بااثر شخصیات کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو صدر ٹرمپ کی جنوبی ایشیا پالیسی اور ٹویٹ کے مخالف ہیں بلکہ پاکستان کے تعاون اور قربانیوں کے معترف ہیں۔ ماضی کے مقابلے میں آج پاکستان کو امریکہ کی داخلی سیاست اور قیادت میں اس وقت بہت سے ایسے حلقوں میں بھی ہمدردانہ کان میسر ہیں جو ٹرمپ پالیسیوں کے مخالف اور کانگریس میں اثر و رسوخ کے باعث موثر دبائو بھی رکھتے ہیں اور پاک۔ امریکہ اتحاد کے حامی ہیں پاکستان اپنا موقف ان تک پہنچائے اور مشکل وقت گزارنے کی تدبیر اور انتظار کرے۔ جنوبی ایشیا کے بارے میں ٹرمپ کی ٹویٹ سمیت پاک۔ امریکہ تعلقات کے بارے میں تازہ کتاب ایک ایسے امریکی اسکالر نے لکھی ہے جو سالہا سال تک پاکستان کے بارے میں تنقیدی بلکہ مخالفانہ موقف کے حامل رہے ہیں اس ممتاز امریکی دانشور سے میرا صحافتی کنکشن گزشتہ 30؍سال سے جنوبی ایشیا کے امور کے بارے میں رہا۔ ان کی تازہ کتاب میں پاکستان کے حوالے سے جو موقف اختیار کیا گیا ہے اور صدر ٹرمپ کی حکمت عملی پر تبصرہ کیا ہے وہ بھی ایک متوازن رائے ہے۔ اس کی تفصیل پھر سہی۔ پاکستان اور اس کے دوستوں کو امریکی نظام میں لابنگ کے لئے اس صورت حال کا فائدہ اٹھانے کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے تاکہ پاک۔ امریکہ تعلقات میں کشیدگی کا کوئی موثر حل نکل سکے۔ خاموش ڈپلومیسی اور حکومتی مذاکرات کے ساتھ ساتھ امریکی قانون لابنگ کی اجازت بھی دیتا ہے۔

 

تازہ ترین