• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حالیہ پاک امریکہ دوطرفہ تعلقات میں کشیدگی کے بعد ایک امریکی رپورٹ منظرعام پر آئی ہے جس میں امریکہ نے پاکستان کو مذہبی آزادی کی سنگین خلاف ورزی کا مرتکب ٹھہراتے ہوئے خصوصی واچ لسٹ میں شامل کرلیاہے ۔میں نے سرپرست اعلیٰ پاکستان ہندو کونسل ، غیر مسلم ممبر پارلیمنٹ اور سب سے بڑھ کر ایک محب وطن پاکستانی کے طور پر اپنا فرض سمجھا کہ میں اس حساس معاملے پر اپنی رائے کا اظہار کروں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایک جمہوری معاشرے میں ہر شہری کو مذہبی آزادی کی فراہمی بنیادی حقوق میں شامل ہے، پاکستان ایک مسلمان اکثریتی ملک ہے جسکو اسلامی ملک سمجھا جاتا ہے اور اسلام یہی تلقین کرتا ہے کہ دین میں جبر نہیں۔ بانی پاکستان قائداعظم غیر مسلم پاکستانی شہریوں کیلئے نہایت مثبت رائے رکھتے تھے اور اس بات کے خواہاں تھے کہ تمام پاکستانی شہری اکثریت اور اقلیت کی تفریق سے بالاتر ہوکر اپنی توانائیاں پاکستان کی ترقی و سربلندی کیلئے وقف کردیں، اس حوالے سے میں ہمیشہ جوگندرناتھ منڈل کی بطور پہلے وزیر قانون کی مثال دیتا ہوں جنہیں قائداعظم نے اپنی کابینہ میں شامل کرکے حکومتی امور چلانے کیلئے واضح روڈ میپ دیا۔قائداعظم کے وژن کے تحت پاکستان کی ترقی و خوشحالی میں غیرمسلم پاکستانی شہریوں کی خدمات کی ایک طویل داستان ہے، اسکی سب سے بڑی مثال آنجہانی رانا بھگوان داس ہیں، جنکے بطور چیف جسٹس میرٹ پر کیے جانے والے فیصلوں نے نہ صرف انصاف کا بول بالا کیا بلکہ عالمی سطح پر بھی ملک و قوم کا نام روشن کیا ۔قائداعظم نے ہمیشہ ایک پاکستانی قوم کی بات کی لیکن آج ہر سیاسی جماعت میں اقلیتی غیر مسلم آبادی کی نمائندگی کیلئے مینارٹیز ونگ موجود ہیں،میری نظر میں یہاں سے ہی پاکستانی قوم میں تفریق و نفرت کے بیج بونے کے عمل کا آغاز ہوجاتا ہے۔ آج ہر سیاسی جماعت غیرمسلم اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی بات کرتی ہے، ہر سیاسی راہنما چاہے نواز شریف ہو، عمران خان یا بلاول بھٹو زرداری غیرمسلموں کے مذہبی تہوار بشمول ہولی، دیوالی، کرسمس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے۔ ابھی حال ہی میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے گھوٹکی سندھ میں ہندو کمیونٹی کی تقریب میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی ۔ ان سب باتوں کے باوجودجب امریکہ نے پاکستان کو واچ لسٹ میں ڈالنے کا اعلان کیا تو ہمارا بھی یہ قومی فریضہ بنتا ہے کہ ہم ان وجوہات پر غور کریں جس کو بنیاد بناکر عالمی برادری پاکستان کو نشانہ بنانے کی کوشش کرتی ہے ۔سب سے پہلے میں سندھ اسمبلی میں جبری مذہب تبدیلی کے خلاف بل کی متفقہ طور پر منظور ی کے بارے میں بات کرنا چاہوں گا کہ وہ کونسی پانچ فیصد قوتیں تھیں جنہوں نے پارلیمان کو بے بس کرتے ہوئے بِل واپس لینے پر مجبور کردیا۔ اسی طرح آزادی کے بعد ستر سال تک ہندو کمیونٹی کو اپنی شادی درج کرانے کے حق سے محروم رکھا گیا، اس حوالے سے قانونی پیچیدگیاں اپنی جگہ لیکن سب سے سنگین صورتحال شادی شدہ ہندو خواتین کو مبینہ اغوا کرکے زبردستی شادیاں رچالینا تھا اور متاثرہ ہندو خاندان شادی رجسٹرڈ نہ ہونے کے باعث قانون کا دروازہ بھی نہ کھٹکا سکتا تھا، میری طویل کاوشوں سے جب ہندو میرج ایکٹ پارلیمنٹ میں منظوری کیلئے پیش ہوا تو مجھے بعض شقوں پر کمپرومائز کرنے پر مجبور کیا گیا، اسی طرح مندروں، گرجا گھروں اور دیگر مقدس مقامات پر حملوں نے قائداعظم کے نظریہ پاکستان کو شدید نقصان پہنچایاہے،اس سلسلے میں ہمارا نصاب تعلیم بھی تعصبانہ مواد سے بھرا ہوا ہے۔اگر ہماری سیاسی جماعتیں سنجیدہ ہوتیں تو سپریم کورٹ کے انیس جون کے تفصیلی فیصلے برائے تحفظ اقلیتوں پر عملدرآمد یقینی بناتیں اور کوئٹہ چرچ حملے جیسے واقعات دوبارہ رونما نہ ہوتے ۔ اگر پاکستان میں مذہبی ہم آہنگی پر مبنی پرامن معاشرے کا قیام یقینی بنانے کیلئے ریاست اپنا وہ کردارصحیح طرح ادا کرتی جسکا وعدہ بانی پاکستان قائداعظم نے کیا تھا، جسکی ضمانت آئین پاکستان نے دی اور جسکا عملی مظاہرہ دنیا کی پہلی اسلامی مثالی ریاست مدینہ منورہ میں کیا گیا تھا تو کسی کومذہبی آزادی کی آڑ میں پاکستان کے خلاف دشنام طرازی کا موقع کبھی نہ ملتا۔میں مذہبی آزادی کے حوالے سے غیرمسلم ممالک بالخصوص اسرائیل اور بھارت کی مثالیں پیش کرنے کی جسارت بھی چاہوں گا، یہ دونوں ممالک اپنی مسلمان اقلیت آبادی کے خلاف نفرت انگیز اقدامات کے حوالے سے جانے جاتے ہیں لیکن مسلمانوں کے مقدس مقامات کی دیکھ بھال کیلئے متروکہ وقف املاک بورڈ کا سربراہ اصولی طور پر مسلمان شہری کو لگاتے ہیں۔ تقسیمِ ہند کے بعد پاکستانی اور بھارتی قیادت کے درمیان اتفاق ہوا تھا کہ دونوں ممالک کی اقلیت آبادی سے وابستہ مذہبی مقدس مقامات اور جائیداد کی رکھوالی کیلئے اقلیت ہی کا کوئی نمائندہ فعال کردار ادا کرسکتا ہے، بھارت میں مسلمان وزیر کو اس اہم ترین مذہبی فریضے کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے جبکہ اسرائیل میں مسلمانوں کی املاک کی دیکھ بھال مسلمان اسرائیلی شہری حکومتی سطح پر کرتا ہے۔ پاکستان میں غیرمسلموں کی جائیداد میں سب سے بڑی تعداد ہندوؤں کی ہے جو تقسیمِ ہند کے موقع پر ہجرت کرگئے تھے ،آج ہندو املاک کی دیکھ بھال کی بجائے کوڑیوں کے مول لیز پر دیا جارہا ہے اور ہندو کمیونٹی متروکہ وقف املاک میں کردار نہ ملنے کی وجہ سے بے بسی سے یہ سوال کرنے پر مجبور ہے کہ کیاہندو کمیونٹی کی املاک اور مقدس مقامات کی دیکھ بھال کرنے کیلئے پورے پاکستان میں کوئی قابل ہندو شہری دستیاب نہیں، میں آج بھی اپنے اس موقف پر قائم ہوں کہ متروکہ وقف املاک بورڈ کا سربراہ کسی ریٹائرڈ ہندو جج یا پھر گریڈ بیس کے ہندو افسر کو لگایا جائے۔ آج ہم اپنے آپ کو جمہوریت پسند کہتے ہیں اور جنرل مشرف کے تمام کالے قوانین سے چھٹکارہ پاچکے ہیں لیکن غیر مسلم پاکستانیوں کو انکے حقیقی نمائندے پارلیمنٹ میں بھیجنے کی اجازت نہیں دیتے، سیاسی جماعتوں کی ذاتی پسند ناپسند پر مخصوص نشستوں پر بغیر کسی سیاسی جدوجہد کے نامزد ہونے والے نام نہاداقلیتی نمائندے نہ تو اپنی کمیونٹی میں جڑیں رکھتے ہیں اور نہ ہی عالمی برادری کے سامنے پاکستان کا مثبت امیج پیش کرنے کی اہلیت، اس سلسلے میں ہمیں غیرمسلم پاکستانیوں کو آزاد کشمیر اسمبلی کی طرز پر دہرے ووٹ کا حق دیکر کم از کم پندرہ حلقے غیرمسلموں کے مابین الیکشن کیلئے مختص کرنے چاہئیں۔یہ بھی افسوسناک امر ہے کہ غیرمسلم پاکستانیوں کواہم قومی ایشوز مثلاََ 18ویں ترمیم کی کمیٹی، الیکشن اصلاحات کمیٹی اور سب سے اہم قومی ایکشن پلان کی تیاری کیلئے طلب کردہ آل پارٹیز کانفرنس میں بھی مکمل طور پر نظرانداز کیاجاتا رہا ہے مگر آج امریکی رپورٹ کے جواب میں تمام محب وطن غیرمسلم پاکستانی شہریوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ دنیا کو آگاہ کریں کہ پاکستان نے انہیں ترقی و خوشحالی کے مواقع فراہم کیے ہیں اور دوسری طرف امورِ مملکت میں غیرمسلموں کی بھرپور شمولیت کے ذریعے پاکستان دشمن عناصر کے پروپیگنڈے کا زور توڑا جاسکتا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اسکے لئے آج ریاست کو اہم قومی اداروں مثلاََ اسٹیٹ بینک، الیکشن کمیشن، پلاننگ کمیشن، پیمرا، ٹیلی کام اتھارٹی وغیرہ وغیر ہ کی سربراہی میرٹ پر قابل غیرمسلم پاکستانیوں کے حوالے کرنی چاہیے،آج اگر بیرون ممالک متعین سفراء کرام میں غیرمسلم بھی شامل ہوتے تو کبھی کسی ملک کو پاکستان کو مذہبی آزادی کے حوالے سے واچ لسٹ میں شامل کرنے کی جرات نہ ہوتی ۔ امریکی رپورٹ کے منظرعام پر آنے کے بعد ہر پاکستانی شہری کو اس عزم کا اعادہ کرنا چاہئے کہ وہ اپنے ہم وطنوں کے خلاف بلاجواز تعصبانہ رویے سے گریز کرتے ہوئے معاشرے میں برداشت، رواداری اور بھائی چارے کی فضاکوبرقرار رکھے گا، عالمی سطح پر پاکستان کے خلاف جاری سازشوں کا مقابلہ باہمی اتحاد اور تعاون کی بدولت ہی کیا جاسکتا ہے۔

تازہ ترین