• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

منیر نیازی نے ایسا بہت کچھ کہہ رکھا ہے جسے پڑھ کر ان سے گفتگو کی خواہش پیداہوتی ہے ۔ شاید اسی لئے ان کی زندگی کے آخری عشرے میں دو بار ان سے ملنے کا شرف حاصل ہوہی گیا۔ملاقات کا بنیادی سبب بننے والی شاعری میں ان کے پنجابی کلام کا یہ حصہ بھی شامل ہے ۔’’کُج انج وی راہواں اوکھیاں سن ، کج گل وچ غم دا طوق وی سی / کج شہر دے لوک وی ظالم سَن ، کج سانوں مرن داشوق وی سی ۔‘‘ منیر نیازی کو آئندہ کسی بھی دور میں بھول جانا میری ذاتی زندگی کے چند نا ممکنات میں سے ایک ہے۔ البتہ ڈاکٹرحسن ظفر عارف کی موت کے بعد ان کا مذکورہ شعر پہلے سے کہیں زیادہ زور وشورسے ذہن میں گونج رہاہے۔
ماضی میں کتنی ہی بار یہ شعر مختلف و اقعات پر کسی نہ کسی حد تک پورا اُترتا محسوس ہوا ۔ ایک بار بیرون ملک کسی مضبوط ٹیم کے خلاف بہت سی غلطیوں کے سبب ٹیسٹ میچ ہارنے پر پاکستانی کپتان نے اِس شعر کا حوالہ دیاتھا، برسو ں پہلے ایک صحافی نے 1985کے انتخابات میں اداکار کمال کی جماعت اسلامی کے محمد عثمان رمز کے ہاتھوں عبرتنا ک شکست کا حوالہ دیتے ہوئے یہی شعر یاد دلایا! پھر ایک ’’ مہاجر‘‘ دوست نے بانی ایم کیو ایم کی 22اگست 2016 کی تقریر پر تبصرہ کرتے ہوئے اِسے دہرایا! ڈاکٹر ظفر عارف کے نظریات اور جدو جہد کے تناظر میں یہ المیہ مذکورہ کلام پریوں پورا اترتا ہے گویا شاعر نے برسوں پہلے ہی اِس فلسفی کا انجام بھانپ لیا تھا!
ڈاکٹر ظفر کے قابل رشک تعلیمی کیرئیر ، مغرب کی اعلیٰ ترین درس گاہوں سے ان کی علمی اور تدریسی وابستگی ، جامعہ کراچی میں اِن کے لیکچرز کی مقبولیت ، جمہوریت پسند سیاست دانوں کی اِن سے رغبت ، طلبہ و طالبات پر اِن کے نظریاتی اثرات اور خاندانی پس منظر سے متعلق اِن دنوں بہت کچھ بیان کیا جاتارہا ہے ۔لہذااِن معاملات سے متعلق معلومات میں خاطر خواہ کوئی اضافہ فی الحال ممکن نہیں! اِن کے چند رفقا بھی اَب کچھ نہ کچھ کہتے لکھتے نظر آ رہے ہیں ؛ ان میں چند لوگ زندگی کے آخری دنوں میں ایم کیو ایم لندن سے اِن کی وابستگی پر حیران ہیں۔ اِن کی زندگی اور موت سے متعلق بہت سے معاملات پر غوروخوض، تحقیق اور تجزیات اگرچہ جاری ہیں لیکن اِن کی جد وجہد کے خاص دور میں رونما ہونے والے ایک اہم واقعہ کا تذکرہ اب تک انتہائی واجبی انداز میں ہوتا رہاہے۔ شاید سب نہیں تو چند پڑھنے والوں کے لئے واقعہ کی جزوی تفصیل کسی حد تک اَہم ہو۔جنرل ضیاالحق کے دور میں ڈاکٹر ظفر عارف کی تدریسی سرگرمیاں جامعہ کراچی سے وابستہ تھیں۔ وہ ان دنوں فلسفے کے ماہر استاد سے زیادہ ایک مقبول انقلابی فلسفی کے طور پر جانے جاتے تھے ۔ کلاس روم کے اندر ہوں یا باہر، وہ دائیں بازو کی سیاست اور مارکسی فلسفے کا پرچارکھل عام کیا کرتے تھے۔
نظریاتی طور پر اَٹل رہنے کا پہلا بڑاخمیازہ انہوں نے اُس وقت بھگتا جب اُنہیں تدریسی عمل کے دوران اپنی فکر کے خاص اندازِ اظہار پر پابندیاں لگتی محسوس ہوئیں ۔ردّ عمل کے طور پر ڈاکٹرعارف نے اُس وقت کے گورنر سندھ جنرل جہانداد خان کو ایک خط لکھ بھیجا جس کے متن کو پڑھنے کے دوران ’آبیل مجھے مار ‘‘ والا محاورہ شاید منیر نیازی کے مذکورہ شعر سے بھی پہلے ذہن میں گونجنے لگے ۔ یقیناََ دیگرکامریڈز نے اِن کو سمجھا یا ہوگا کہ پاکستانی مارکسسٹ کوخوب ٹھوک بجا کر آگے بڑھنا پڑھتا ہے۔’’انڈر گرائونڈ ‘‘ رہ کر کام کرنے کے گُر سکھانے کی کوشش کی بھی گئی ہوگی لیکن کہا جاتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کسی طور باز نہیں آتے تھے ۔ رہی بات اُس وقت کے گورنر کے نام اِن کے خط کی، توایک ویب سائٹ پر دستیاب خط کے انگریزی متن کو صحیح مان کرپڑھا تو یہ اندازہ بھی ہوا کہ یہ اُس وقت بر سر اقتدار آمروں کی’’ اعلی ظرفی‘‘ تھی کہ خط کے جواب میںڈاکٹر ظفر عارف کو صرف نوکری سے نکال کر جیل بھیج دیا گیا ،اِن کی جان نہیں لی گئی ۔
اس خط پر چھبیس ستمبر 1984کی تاریخ درج ہے۔ لفظ بہ لفظ ترجمے کے بجائے متن کو یہاں مفہوم کے تناظر میں پیش کررہا ہوں ۔ ڈاکٹر ظفر عار ف ، گورنر سندھ جنرل جہانداد خان کو لکھتے ہیں کہ، ’’ میںعام حالات میں تو تمہارے اقدامات کو تدریسی عمل میں ایک مداخلت ہی تعبیر کرتا۔ لیکن سندھ میں جاری خونریزی، تم لوگوں کی غلطیوں کے سبب سرحدوں پر بڑھنے والی کشیدگی ، بیروت جیسا ہولناک منظر پیش کرتے لانڈھی اور اورنگی کے نسلی فسادات ، تمہارے ایجنٹوں کے پھیلائے اشتعال کے سبب رو نما ہونے والے فرقے وارانہ بلوے، مذہب کے نام کا استعمال ، تمہاری نگرانی میں جار ی منشیات کا کاروبار اور تمہاری جانب سے معاشرے کے مختلف طبقات بشمول محنت کش، طلبا، وکلا ، اساتذہ ، ڈاکٹرز اور خواتین کا استحصال اور اپنے نظریاتی مخالفین کے خلاف بدنیتی پر مبنی تمہارے روّیوں کے سبب میں خود کو مکمل طور پر بے بس محسوس کر رہا ہوں ۔ یہ سچ یقیناََ تمہارے لئے تسکین کا باعث ہے کہ میں تمہارے تباہ کن اقدامات کے سبب زبان بندی پر مجبور ہوں ۔‘‘
ؑمزید لکھتے ہیں کہ ،’’اصلاح اور رہ نمائی کے ذریعے نوجوانوں سمیت معاشرے کے مختلف حلقو ں کو انارکی اور منظم جرائم کے خلاف یکجا کرنا میری زندگی کا بنیادی مقصد ہے ۔ حالاں کہ مجھے علم ہے کہ ہزاروں طلبا پر کالجوں کے دروازے بند ہیں ، میں ان ہزاروں تعلیم یافتہ افراد سے واقف ہوں جو بے روز گار ہیں ، اُن عام لوگوں سے بھی جو افراط زر اور مہنگائی کے سبب غربت جھیل رہے ہیں ، جھونپڑ پٹی کے اُن باسیوں سے بھی جو گندے پانی اور غیر معیاری خوراک استعمال کرنے پر مجبور ہیں ، جو بجلی ، گیس، ٹرانسپورٹ اور دیگربنیادی سہولتوں کے لئے ترس رہے ہیں ۔ میں ان سب کے لئے جد جہد جاری رکھوں گا اور مجھے اس سلسلے میں کسی کے مشورے کی ضرورت نہیں ۔‘‘
آخری سطروں میں ڈاکٹر نے گورنر کو یہ تنبیہ بھی کی کہ ،’’میں اپنے ارادوں میں ثابت قدم رہتے ہوئے ، تمہارے برعکس، بیرکوں سے اُٹھ کر ایوانوں میں منتقل ہونے کے بجائے ، علم و آگہی کے تازہ جھونکوں تک ہر فرد کی رسائی ممکن بنانے کے لئے اپنا کام جاری رکھوں گا اور قوم کی دولت لوٹنے والے ہر مجرم پر نظر رکھوں گا۔ تم یقیناََ ہاتھ دھو کر میرے پیچھے پڑ سکتے ہو لیکن میں تمہیں یقین دلادیتا ہو ں کہ اسکندر (مرزا)، ایوب (خان) اور یحییٰ (خان) کی طرح تم بھی ہمیشہ اقتدار میں نہیں رہوگے ۔ڈاکٹر ظفر عارف۔ــ‘‘
عجب یہ کہ آمروں کے دور میں آمروں کے نام یہ بے باک خط لکھنے کے باوجود ڈاکٹر ظفر عارف زندہ رہے۔ آج حیرت یہ نہیں کہ دور جمہوریت میں اور اِس ضعیف العمری میں ان کے ساتھ یہ سب کچھ کیسے ہوگیا۔تعجب صرف یہ ہے کہ یہ آدمی ’’ ڈاکٹر حسن ظفر عارف‘‘ ہونے کے سبب بہت پہلے کیوں نہیں مر گیا۔ یہ شخص تو آج سے چونتیس برس پہلے ہی خود اپنے ہاتھوں سے اپنی موت کا سامان کرچکا تھا۔ ظالموں کی بستی میں مرنے کا شوق رکھنے والا بھلااِتنا کیسے جی سکتاہے؟.

تازہ ترین