• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شازیہ خشک، فنکار سندھ کی ،شہرت دنیا بھر میں

پوری دنیا میں صوفیانہ کلام اور اس کی گائیگی سننے والوں کو اپنی جانب کچھ اس طرح سے کھینچنے کی صلاحیت رکھتی ہے جیسے ایک مقناطیس دوسرے مقناطیس کو ۔اس پر سنگر کے فن کا ’سونا ‘چڑھ جائے تو مزا دو آتشہ ہوجاتا ہے ۔

کلام کی خوب صورتی اور آواز کے اسی جادوکا نام ہے شازیہ خشک۔ جن کی آواز سندھ کی پہچان ہے اور سندھ ان کی پہچان ۔

ان کے سننے والے صرف پاکستان میں ہی نہیں سمندروں کی سرحدوں سے بھی آگے آباد ہیں۔

فوک گلوکارہ شازیہ خشک نے اپنے فنی سفرکا آغاز 1992ء میں کیا۔ انھوں نے ابتدائی دورمیں سندھ اوربلوچی زبانوںمیںعلاقائی گیت پیش کیے جنہیں زبردست رسپانس ملا۔

یہ بھ پڑھیے:فلم انڈسٹری کی ترقی کے لئے پنجابی موسیقی بھی عروج کی منتظر

شازیہ خشک کی مقبولیت میں جہاں ان کی گائیکی نے اہم کردار ادا کیا وہیں ان کے روایتی ملبوسات نے بھی انھیں دوسروں سے منفرد رکھا۔ سچ پوچھئے تو پوری دنیا میں ان کا لباس سندھی اور خاص طور سے پاکستانی ثقافت کی انمٹ پہچان بنا۔

وہ سندھی اوربلوچی زبانوں میں ہی نہیں سرائیکی، کشمیری، گجراتی، پنجابی اوراردوزبان میں بھی گاتی اور اپنا لوہا منواتی ہیں۔

ان کی بہت چھوٹی عمرمیں شادی ہوگئی تھی لیکن ان کے فن گائیکی کوپروان چڑھانے اورتعلیم کے زیورسے آراستہ کرنے میں ان کے شوہر نےاہم کردار اداکیاہے۔

شازیہ خشک کے مقبول گیتوں کی فہرست بہت طویل ہے ۔ اس میں ’داناپہ دانا‘، ’روبرو یار‘،’ لال میری پٹ‘،’تیرانام لیا‘اور ’دھمال‘سر فہرست ہیں۔

شازیہ خشک نے اپنے منفرد انداز گائیکی کی وجہ سے پاکستانی کلچرکودنیا کے کونے کونے تک پہنچایا۔ یورپ، امریکا، کینیڈا، مڈل ایسٹ سمیت دنیا کے 45سے زائد ممالک میں پرفارم کیااور متعدد ایوارڈز اوراعزازات حاصل کئے ۔

 

تازہ ترین