• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارا ملک شاید دنیا کا سب سے زیادہ غیر محفوظ علاقہ ہے جس کو طرح طرح کے شکوک و شبہات گھیرے میں لیے ہوئے ہیں۔ ہمارے خیالات کی رو صرف ایک سمت ہی بہتی ہے اور وہ یہ ہے کہ پوری دنیا اس اسلامی جمہوریہ کی آہنی بنیادوں کو کمزور بنانے کے درپے ہے۔
حسین حقانی اور منصور اعجاز ایک ہی کورٹ میں کھیل رہے ہیں اور ان کے پاس ایک ہی بال ہے۔ بلیک بیری کے ذریعے پیغامات کی ترسیل اس بات کی گواہی پیش کرتی ہے کہ اس میمو ، جس کے منظر عام پر آنے نے ہماری اسٹبلشمنٹ کے ہوش اُڑا دیے ہیں، کی تیاری میں یہ دونوں صاحبان بیک وقت بیٹنگ کریز پر موجود تھے۔ لیکن فرض کریں کہ ایڈمرل مائیک مولن کو بھیجا جانے والا یہی واحد میمو نہیں تھا بلکہ درجنوں اور بھی تھے ، کیا ان پیغامات کے نتیجے میں امریکی پاکستانی فوج کے پر کاٹنے میں کامیاب ہو گئے ہیں ؟ کیا ہماری فوج پنٹاگان کے کنٹرول میں آ گئی ہے اور ہمارے ایٹمی اثاثوں کے مجاور اب امریکی بن گئے ہیں؟
چلیں مان لیں کہ مائیک مولن کو بھیجا گیا میمو بہت ہی دھماکہ خیز تھا مگر کیا اس پر کاروائی کرتے ہوئے امریکیوں نے چھٹے یا ساتویں بحری بیڑے کو پاکستانی پانیوں میں داخل کر دیا ہے؟ کیا امریکی ڈرونز اُن مقامات پر اڑنا شروع ہو گئے جہاں ہمارے ایٹمی اثاثے موجود ہیں ؟ مسٹر مولن کے دفتر نے ایک معقول رویہ اختیار کرتے ہوئے اس کو نظر انداز کر دیا۔ اس کے سوا تو کوئی شواہد نظر نہیں آتے کہ اس پر امریکی حکومت کی طرف سے پاکستانی افواج کے خلاف کوئی اقدام اٹھایا گیا ہو۔ لیکن ہم اس معمولی سے کاغذ سے لرز اٹھے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں ہمارے واشنگٹن میں سفیر۔۔ وہ پاکستان سے زیادہ زرداری صاحب کے سفیر لگتے ہیں۔۔۔ کا کوئی کام نہیں تھا کہ اس میمو کی تیاری میں ملوث پائے جائیں لیکن وہ سفارتی غلطیوں کا ارتکاب کرتے رہے ہیں۔ ذاتی طور پر میں اُن کو ایک ٹھنڈے مزاج کا انسان سمجھتا تھا اور وہ ہیں بھی مگر ایک ٹی وی پروگرام میں میں اُن کے ساتھ تھا اور وہ جذباتی ہوگئے۔ میں نے اُن کو سمجھا کر ٹھنڈا کیا۔ اب ہم کیا چاہتے ہیں ؟ کیا اب حقانی صاحب کا استعفا کافی نہیں ؟ بہت سے لوگ میمو کی مو شگافی کرتے ہوئے ٹرائل چاہتے ہیں کیونکہ وہ ایوان صدر کو اس کی زد میں لانا چاہتے ہیں۔ یہ ہے ساری بات ۔
ایک اور بات کو مد ِ نظر رکھیں کہ اسٹبلشمنٹ کی پسنداور ناپسند کا بیرومیٹر ہمیشہ بدعنوانی ہی نہیں ہوتا ۔ بھٹو صاحب بدعنوان نہیں تھے مگر وہ اسٹبلشمنٹ کے منظور ِ نظر نہیں تھے۔ اکبر بگتی ایک قوم پرست تھے مگر مشرف اُن کا دشمن تھا۔ فوج میں بھی بہت سے بدعنوان جنرل، ایڈمرل اور ائیر چیف رہے ہیں مگر کس کو سزا ملی ؟ اب زرداری صاحب کی حکومت کا صرف ایک سال رہ گیا ہے۔ ہم اب صرف ایک اور سال کے لیے صبر کیوں نہیں کر لیتے تاکہ یہ جمہوری عمل چلتا رہے۔ ہماری قوم کے مسیحا، جو قوم کو ”بچانے “کے لیے کمربستہ ہو رہے ہیں، تھوڑا سامزید انتظار کیوں نہیں کرلیتے ۔ کیا اُن کو پاکستان کی قوت ِ برداشت پر اتنا شک ہے؟ ایوب اور یحییٰ اس ملک کو ختم نہ کر سکے ، ہم نے ضیا کو بھگتا اور پھر مشرف کے ساڑھے آٹھ برس بھی ہم نے سہار لیے۔ اب زرداری صاحب کا ایک اور سال نہیں سہار سکتے ہماری عدالتیں کام کر رہی ہیں جناب چیف جسٹس آف پاکستان کو اپنا کام جاری رکھنا چاہیے جیسا کہ رینٹل پارور کیس اب عدالت میں چل رہا ہے۔ کیا یہ احتساب کا مناسب طریقہ نہیں ؟ یہ بھی درست ہے کہ حکومت عدلیہ کا راستہ روک رہی ہے لیکن جمہوری عمل کا تسلسل مستقبل میں ایسے ہتھکنڈوں کا خود ہی احتساب کر لے گا۔ اسی دوران یہ بھی لازمی ہے کہ احتساب کے عمل کو غیرجانبدار، شفاف اور مساوی ہونا چاہیے۔ ہماری قومی سلامتی کے ذمہ دار اور ہماری حب الوطنی کے جذبات کے نگران ایک عجیب کھیل کھیل رہے ہیں۔ چونکہ آج مہم جوئی کے لیے حالات ساز گار نہیں ہیں، اس لیے اب وہ پس ِ پردہ رہ کر ڈوری ہلانا چاہتے ہیں۔ میمو اسکینڈل 1999 کے شب خون سے زیادہ برا نہیں ہے، اس میں اتنی ہزیمت ہے جتنی کہ کارگل مہم جوئی سے اٹھانا پڑی تھی اورنہ ہی یہ 65 کی جنگ ،جو ہماری بربادی کی داستان کا پہلا باب ہے، یا 1971 جب پاکستان دو لخت ہوا ، کے مساوی تباہی کا سامان لیے ہوئے ہے۔
بات یہ ہے کہ ہم نے اپنے آپ کو ایک گھٹن زدہ قوم بنا لیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم کچھ درودیوار وا کریں۔ دنیا ہمارے خلاف کوئی سازش نہیں کر رہی ہے اور نہ ہی کوئی اتنا فارغ ہے ۔ دنیا کے پاس کرنے کو اور بھی بہت سے کام ہیں اور پھر کیا ہمارے اپنے پاس سازشیوں کی کمی ہے ؟ ایک پتھر اٹھائیں تو۔۔۔ اگر کوئی ہمارے پروردہ جہادی لشکر دیکھ لے تو وہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ ہمیں بیرونی دشمنوں کی ضرورت ہے۔ ایک اور بات کو بھی مد ّنظر رکھا جانا چاہیے کہ حقانی صاحب ہمیشہ سے ہی محو ِ پرواز رہے ہیں کہ ”پردار“ ہیں: ضیا دور میں آئی ایس آئی کے محبوب، اسلامی جمہوری دور میں شریف برادران کے بازوئے شمشیر زن (اُن سے زیادہ شاید ہی کسی نے پی پی پی پر کیچڑ اچھالا ہو ) ، غلام مصطفی جتوئی اور بلخ شیر مزاری کے پریس سیکرٹری، محترمہ بے نظیر بھٹو کے معتمد ِخاص اور اب مسٹر زرداری کے دست ِ راست(جی اوئے)۔ جب نیو کنزرویٹو واشنگٹن میں طاقت میں تھے تو اُن کے قریب تھے۔ کوئی بھی جہاندیدہ، سرد و گرم چشیدہ اُن سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔
تاہم شاید قسمت کے ستارے اب اُن سے روٹھ گئے ہیں کیونکہ اُنھوں نے اُس کندھے پر بندوق رکھ دی جس کی اپنی ذہانت مسلّم تھی۔ لیکن اس ملک کے نظریاتی مجاہدوں، سے گزارش ہے کہ اس معاملے کو نظر انداز کر دیں اور جمہوری عمل کو جاری رہنے دیں تاکہ یہ اپنی مدت تو پوری کرے۔ اس کو پٹری سے اتارنے کا کوئی اقدام نہ کریں۔ماہرین کی حکومت معاملات کو صرف مزید خراب کرے گی۔ یہ درست ہے کہ ہماری معیشت نہایت خراب حالت میں ہے لیکن اتنی نہیں جتنی ارجنٹائن کی تھی جو ڈیفالٹ ہو گیا لیکن پھر اُنھوں نے اس کا مقابلہ کیا اور معاملات درست کر لیے۔ پھر جہاں اتنا کچھ آپ نے بھی دیکھا اور برداشت کیا ہے، دوستوں میں ایک سال کوئی وقت نہیں ہوتا۔
تازہ ترین