• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مارکوس ٹیلی اَس سی سیرو (Marcus Tullius Cicero) کو قدیم روم کی ایک اَہم سیاسی شخصیت ماناجاتا ہے۔ حکمرانی کے جنون میں مبتلا سی سیرو ماہر قانون ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مقبول اور طاقتور سیاست دَان بھی تھا ۔ کہتے ہیں کہ فنِ خطابت اِس کی شخصیت کی سب سے نمایاں اور اَثر انگیز صفت تھی۔
لیکن اِن خوبیوں کے باوجود اس نے اپنی زندگی کا اَہم ترین دور اپنے سیاسی مخالف مارک انٹونی کے خلاف متعدد ریلیوں اور نفرت انگیز تقاریر میں ضائع کردیا ۔ کوئی چودہ تقاریر پر مشتمل مارک انٹونی کے خلاف سی سیرو کی اِس طویل مہم کو تاریخ میں فلی پکس (Philippics) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر نظر رکھنے والے کسی بھی شخص کے لئے شاید یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ سی سیرو کی مہم اورتقاریرکا مطالعہ کرے اور اُسے پی ٹی آئی کے رہ نمائوں کا خیال نہ آئے ۔
سال 2013کے عام انتخابات میں نون لیگ کی کامیابی کے خلاف شروع کی گئی مہم اب تک نون لیگ، نواز شریف ، شریف خاندان اور ساتھیوں کے خلاف اَن گنت جلسوں ، ریلیوں ، دھرنوں ، نفرت سے بھرپور بیان بازی اور اشتعال انگیز تقاریر پر مشتمل رہی ہے ۔ مہم سے جڑے تسلسل اور مقاصد کے پہلو شدّت سے اِس قدیم رومی سیاست دان اور اس کی طرز سیاست کی یاد دلا تے ہیں ۔ فرق یہ ہے کہ سی سیرو نے انٹونی کے خلاف یہ مہم سیاسی طاقت چھن جانے کے خوف سے چلائی تھی اور پی ٹی آئی یہ سب کچھ اقتدار حاصل کرنے کی شدید خواہش کے تحت کرتی آرہی ہے ۔ گزشتہ بدھ لاہور میں اپوزیشنزکے جلسے میں عمران خان اور شیخ رشید کی تقاریر میں پارلیمنٹ پر بھیجی گئی ’’لعنت ‘‘ نہ صرف تاریخ کے بہت سے شکست خوردہ سیاست دانوں کی یاد دلاتی ہے بلکہ دور جدید کی بدترین طرزِسیاست کی بھی بھرپورغمازی کرتی ہے ۔
مخالفین کو سچے یا جھوٹے الزامات کے ذریعے کمزور کرنے کی قدیم روایت وقت کے ساتھ ساتھ اپنے انداز بدلتی رہی ہے ۔ لیکن گزشتہ ڈھائی ہزار سالوں پر مشتمل سیاسی رقابت کی یہ دلچسپ تاریخ ملتے جلتے واقعات سے بھری پڑی ہے ۔ خاص طور پر اقتدار حاصل کرنے کے جنون ، اشرافیہ کی حمایت ، مہمات میں تسلسل و طوالت اور تقاریر میں نفرت اور اشتعال کا پہلو حیرت انگزیر حد تک ایک جیسا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ خود سی سیرو کی تقاریر کا متن ، اندازِ بیاں ، مقاصد اور تسلسل بھی اس کی پیدائش سے کوئی تین صدیاں قبل ایتھنز (Athens) میں شہرت پانے والے ریاستی امور کے ماہرڈیمو زتنیز (Demosthenes) کی تقاریر سے ناقابل یقین حد تک مشابہت رکھتے ہیں۔
ڈیموز تنیز نے اِس مہم میں اپنے حریف ، مقدونیا کے شہنشاہ فلپ دوئم King Philip II) کے اقتدار کے خلاف کم و بیش یہی انداز اپنایا تھا۔ زیادہ حیرت انگیز مماثلت یہ کہ نواز شریف کے نا اہل ہونے کے بعد عمران خان جس انداز میں شہباز شریف کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں ، ڈیمو زتنیز نے بالکل اِسی طرح آج سے کوئی چوبیس سو سال پہلے اپنے حمایتیوں سے کہا تھاکہ، ’’اگر ( ہمارے دشمن) فلپ دوئم کے ساتھ کوئی المیہ بھی رونما ہوجائے ، تو (تم سب ) دیکھ لیناکہ یہ لوگ کوئی دوسرا فلپ لاکھڑا کریں گے۔‘‘ تاریخ میں درج سیاسی رقابت اور تعصبات کے یہ ناقابل یقین حد تک ملتے جلتے واقعات، سیاسیات کے طالب علموں کے لئے ملک میں گزشتہ چار برسوں سے جاری صورتحال کے پس منظر کو سمجھنے کے لئے انتہائی موثر ذریعہ ہیں۔
دُشمن کی کمزوریاں ڈھونڈکر اسے راستے سے ہٹانے کی روایت روز اوّل سے سماج کا حصہ ہے ۔ جدید سیاسیات میں پروپیگنڈے کے مقاصد کے تحت کی جانے والی تحقیق اَوپ ریسرچ (Opp Research) کہلاتی ہے ۔ اٹھارویں صدی کے برطانیہ میںوِگ (Whig) اور ٹوری (Tory) کے درمیان مخالفت کے قصّے آج بھی سنائے جاتے ہیں۔ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف باقاعدہ تحقیق کے ذریعے پروپیگنڈہ کیاکرتی تھیں ۔ لیکن برطانیہ کے چند معروف مصنفین پروپیگنڈے میں شامل ہونے کے باوجود اپنا نام ظاہر کرنے سے کتراتے تھے۔
بیسویں صدی میں ری پبلکن پارٹی کے تحت مخالفین پر تحقیق کے ایک مربوط پروگرام کے انکشاف کے بعد اوپ ریسرچ کی اصطلاح پہلی بار امریکا میں استعمال کی گئی ۔اس کے باوجود ، اپنے مہذب اور حب الوطن ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے یہ ری پبلکنز، ہمارے سیاست دانوں کے بر عکس، اپنی پارلیمنٹ پر لعنت نہیں بھیجا کرتے ۔
پاکستان کا حالیہ سیاسی منظر نامہ بلاشبہ لاہور جلسے کے بعد نئی کروٹ لے رہا ہے۔ سال2014کے طویل دھرنے ، پانامہ اور دیگر مقدمات، مستقل جلسے جلوس اور نیب کے معاملات کی صورتوں میں حکومت پراِن چار برسوں میں بارہا انتہائی طاقتور حملے کئے جاتے رہیں۔ ابتدائی دور میں عوام کا بڑا حلقہ نہ صرف نواز مخالف سرگرمیوں کی حمایت کرتا رہا بلکہ تھرڈ ایمپائر نے بھی بظاہر، بقول خود عمران خان کے ، اِن ہی کے حق میں انگلی اٹھا دی تھی ۔ لیکن لاہور جلسے کی ناکامی عوام اور اشرافیہ دونوں جانب سے مستقل حمایت کے سنہری دور کے خاتمے کا اعلان ہوسکتی ہے! شایدتقاریر میں لفظ ’’لعنت ‘‘ کی ادائیگی میں تسلسل، شور اور غصّہ اِس بدلتی ہوئی صورتحال ہی کاردّعمل ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگرچہ نواز شریف، اِن کا خاندان اور اِن کے سیاسی رفقا ملک کو کسی مالی ، سیاسی یا اخلاقی بحران میں دھکیلنے کے در پے بھی ہیں تو بھی اِن کا کوئی مخالف کھل عام ایسے الفاظ کا استعمال نہیں کرسکتا ۔انتہا پسندی ، دہشت گردی ، عالمی بد امنی ، حقوق کی خلاف ورزیوں ، بچوں پر تشدد اور ان کے قتل کے واقعات پر دنیا بھر میں پاکستان سے متعلق تحفظات پائے جاتے ہیں ۔ لیکن اِس کا ہر گز یہ مطلب نہیںکہ کوئی بھی عالمی رہ نما پاکستان یا مسلم کمیونٹی کے خلاف کسی بھی طرح کی زبان استعمال کرجائے ۔ سچ بھی یہی ہے کہ تمام تر عالمی تحفظات کے باوجود پاکستان یا مسلم کمیونٹی کے خلاف آج تک ایسا کوئی اشتعال انگیز بیا ن نہیں دیا گیا ۔اِسی طرح، بشمول پی ٹی آئی، ملک کی تمام بڑی سیاسی تنظیموں میں ایسے افراد موجود ہیں جو ماضی میں کسی نہ کسی طرح بد عنوانی یا دیگر جرائم میں ملوث قرار دئے یا سمجھے جاتے ہیں۔ایسے عناصر کے خلاف ہر طرح کی تنقید ہوسکتی ہے ، قانون انہیں سزا دے سکتا ہے لیکن اُن پر کسی طور لعنت نہیں بھیجی جاسکتی ۔ خاص بات یہ کہ ہزار ہا اختلافات اور شدید ناراضیوںکے باوجود پاکستان کے خلاف غیر پارلیمانی لفظ کا استعمال ’’نہ‘‘ کرنے والوں میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی شامل ہیں ؛ حالاں کہ موصو ف کو مختلف قومو ں اور گروہوں کے خلاف غیر پارلیمانی اصطلاحات استعمال کرنے پر کمال حاصل ہے۔

تازہ ترین