• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کرائم کی اماں جان کس کھوہ میں آدم خور درندوں اور سفاک قاتلوں کو جنم دے کر پروان چڑھاتی ہے۔ اگر چیف جسٹس یا آرمی چیف پچھلے تین سال میں قصور میں پیش آنے والے واقعات اور رائو انوار کے پولیس مقابلوں میں ساڑھے چارسو افراد کی ہلاکت کی وجہ جاننے کیلئے واجد ضیاء جیسی جے آئی ٹی بنا دیں تو اس راز سے پردہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ قصور میں آٹھ سالہ پیاری سی زینب کا قتل اور تشدد دنیا بھر میں اس طرح پیش آنیوالے واقعات کی طرح انفرادی جرم نہیں ہے۔ اس حادثے کے پس منظر میں جرم اور قانون شکنی کا ختم نہ ہونے والا طویل سلسلہ پایا جاتا ہے جس میں قانون شکن اور گھنائونے جرائم کا ارتقاب کرنے والے مجرم، قانون کی حفاظت کرنے والی پولیس اور شہری انتظامیہ، نام نہاد سیاسی اشرافیہ ایک دوسرے کے معاون اور مددگار نظر آتے ہیں۔
اگرچہ چیف جسٹس آف پاکستان نے اس واقعہ کا نوٹس لیا۔ فوج کے سپہ سالار نے مظلوم خاندان کی دہائی پر قدم اٹھایا۔ فوج اور عدلیہ کی توجہ اور نگرانی کے خوف سے سیاسی قیادت کے ہاتھ پائوں پھول گئے۔ پولیس اور مقامی انتظامیہ کو کچھ نہ کچھ کرتے ہی بنی۔ ممکن حد تک جرم کی پردہ پوشی کے باوجود قاتل کو بالآخر گرفتار کر لیا گیا۔ یوں زینب کی حد تک قانون اور انصاف کو ایک مجرم ہاتھ آگیا ہے یقیناً وہ اپنے انجام کو پہنچ کر رہے گا اس لئے کہ اب بہت سی آنکھیں اس پر نگران ہیں جس وجہ سے مٹی ڈالنا ممکن نہیں رہا۔ ’’دو چیف‘‘ اس ایک واقعہ کو بے نقاب کرنے میں شریک ہوئے تب ایک مجرم بے نقاب ہو کر قانون کے کٹہرے میں آیا ہے مگر تیسرے چیف نے جو براہ راست ان جرائم کی بیخ کنی نہ کر سکنے کا اصل ذمہ دار ہے اس نے اس واقعہ پر بھی سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کر ڈالی۔ اس طرح نہ صرف مظلوم خاندان کی دل شکنی کا باعث ہوئے بلکہ دنیا بھر میں جہاں تک ٹی وی نشریات کی رسائی ممکن ہے ہماری بدذوقی اور رسوائی کی وجہ بنے۔
ایک سال میں ایک چھوٹے سے شہر میں بارہ بچیوں کو ایک ہی طریقے سے اغوا کر کے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا اور قتل کر دیا گیا مگر پولیس، انتظامیہ، مقامی سیاستدان اس سے لاتعلق اور خاموش رہے۔ بارہویں بچی یعنی زینب کے قتل کے بعد جس کے والدین عمرہ کی غرض سے حجاز مقدس گئے ہوئے تھے ان پر قیامت گزرنے پر اللہ کے گھر میں ان کی آہ وزاری ہی تھی جس نے رنگ دکھایا۔ ان کی پکار پر پاکستان کے دو بڑے اداروں کے سربراہوں نے مدد کی، پاکستانی ذرائع ابلاغ میں ڈھنڈیا پٹی تب صوبائی حکمرانوں کے کان تک آواز پہنچی۔ پولیس کے بڑوں نے جائے واردات پر ڈیرے ڈال دیئے، قاتل پکڑا گیا تو ایک پریس کانفرنس کا اہتمام ہوا۔ صوبائی سربراہ نے بچی کے سوگوار والد کو بلاوا بھیجا۔ بچی کے والد امین انصاری کو پولیس جس طرح ان کے گھر سے اٹھا کر لاہور لائی وہ بھی ٹی وی کیمروں نے ساری قوم کو دکھایا۔ پریس کانفرنس سے پہلے وزیر قانون بچی کے والد امین انصاری کو آموختہ یاد کرواتے رہے۔ پریس کانفرنس میں وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے علاوہ وزیر قانون رانا ثناء اللہ، پنجاب پولیس کے سربراہ اور امین انصاری کے سامنے پریس سے خطاب کیلئے مائیک لگائے گئے تھے۔ اس پریس کانفرنس کا ابتدائی منظر ہی بڑا دردناک اور سفاکانہ تھا جب امین انصاری کو کچھ کہنے کی دعوت دی گئی تو انہوں نے کہا میں چیف جسٹس اور چیف آف آرمی اسٹاف اور چیف منسٹر ابھی ان کی آواز چیف منسٹر کی ’’س‘‘ تک پہنچی تھی کہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے بے صبری سے ہاتھ بڑھا کر ان کا مائیک بند کر دیا اور شاہی غلام لمحے کی تاخیر کے بغیر سامنے سے مائیک اٹھا کر لے گئے۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی بلکہ ساری قوم کیلئے رسوائی اور ڈھٹائی کا منظر دیکھنا ابھی باقی تھا جب وزیر اعلیٰ نے قاتل کے پکڑے جانے کی اطلاع دیکر (جو دو دن سے ساری دنیا کو پہلے سے معلوم تھی) بچوں کی طرح تالیاں پیٹنا شروع کر دیں اور ان کے ساتھ آئے ہوئے لوگوں نے بھی اپنی عزتِ نفس کی پروا کئے بغیر آقا کی نقل میں تالیاں بجائیں۔ گیارہ بچیوں کے قاتلوں کی گرفتاری کیلئے کوشش تیز کرنے کے حکم کے بجائے پولیس پر انعامات کی بارش کر دی اس داد و دہش پر ایک مرتبہ پھر پرجوش تالیوں کی گونج سنائی دینے لگی۔
اس سارے منظرنامے میں سب سے رسوا کن منظر وہ ہے جب ہمارے بعض دوستوں نے اس مذاق پر ان کا دفاع کرنے کی کوشش کی۔ ایک دوست نے کہا شہباز شریف کے مزاج میں جلد بازی اور ہیجان ہے۔ اس ہیجان میں انہوں نے سمجھا کہ امین انصاری کی بات پوری ہو گئی ہے اس لئے جلدی سے ہاتھ بڑھا کر ان کا مائیک بند کر دیا۔ دوسرے صاحب ٹیلی ویژن کی بجائے اپنے کالم میں گویا ہوئے ’’بچی کے والد نے چیف چیف کی گردان کر دی تھی مائیک بند نہ کرتے تو کیا کرتے؟‘‘ شاید عذر گناہ بدتر از گناہ اسی کو کہتے ہیں۔ اسی قصور میں دو سال پہلے اڑھائی سو سے زیادہ بچوں کو اسی تشدد کا نشانہ بنائے جانے کا واقعہ ہو چکا تھا۔ تب میڈیا کے شور مچانے پر حکمرانوں نے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر معاملہ رفع دفع کر دیا۔ تب خادم اعلیٰ نے ظلم کا شکار ہونے والوں سے وعدہ کیا تھا کہ مظلوموں کی مدد کیلئے وکیل مہیا کئے جائیں گے۔ استغاثہ کو سیکورٹی دی جائے گی۔ وزیر اعلیٰ خود اس کیس کی نگرانی کریں گے اور مجرموں کو جلد کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ ان وعدوں میں سے کتنے پورے ہوئے؟ جرم کے شکار ایک شہری نے بتایا کہ آج تک ایک سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود کوئی وکیل مہیا نہیں کیا گیا۔ ملزموں کی طرف سے دھمکیاں ملنے اور مقدمے میں تاخیر کی وجہ سے بہت سے لوگ ڈر کے مارے پیچھے ہٹ گئے اور کچھ فیصلے میں تاخیر کی وجہ سے تھک کر رہ گئے۔وزیر اعلیٰ اور انتظامیہ کی دانستہ یا نادانستہ غفلت اور لاپروائی کی وجہ سے مجرموں کے حوصلے بڑھ گئے اور انسانی خون کے پیاسے پھر سے اس شہر میں سرگرم ہوئے اور انہیں پوچھنے والا کوئی نہ تھا حتیٰ کہ زینب والا حادثہ رونما ہوا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سے پہلے گیارہ بچیوں کے قتل پر انتظامیہ اور پولیس کے ضلعی سربراہ نے غفلت کا ارتکاب کیا تو سینئر پولیس افسروں نے واقعہ کا نوٹس کیوں نہ لیا؟ ان واقعات کے منظر پر آنے کے بعد وزیر اعلیٰ نے باقی گیارہ بچیوں اور ان کے گھرانوں کو نظر انداز کیوں کیا؟ مجرم عمران علی کو پکڑنے میں قصور پولیس کا کوئی کردار نہیں بلکہ دوسرے ضلعوں کے افسر بروئے کار آئے تو قصور کے گزشتہ برسوں میں پولیس سربراہوں کی سرزنش کیوں نہ ہوئی؟ اور ان کے خلاف کارروائی سے اجتناب کیوں کیا گیا؟ عمران علی کے پکڑے جانے سے پہلے جن تیرہ لوگوں نے اعتراف جرم کیا وہ کون تھے؟ اور ان کے اعتراف جرم کی وجہ کیا تھی؟ اگر چیف جسٹس اور عسکری ایجنسیاں موجود نہ ہوتیں تو عمران علی کے پکڑے جانے سے پہلے ہی اعتراف کرنے والوں میں سے چند کو پولیس مقابلے میں ہلاک کر کے معاملہ رفع دفع کر دیا جاتا۔ پہلے بھی ایسا ہوچکا تھا۔ اگر آٹھ بچیوں کا قاتل اکیلا عمران علی ہے اور ان کے ڈی این اے یکساں پائے گئے ہیں تو اس سے پہلے قصور پولیس کے ہاتھوں مقابلے میں مارے جانے والے کون تھے؟ ان کو کس کے کہنے پر مارا گیا؟ زینب کے گھر والوں کی نشاندہی کے باوجود ملزم کو دو دفعہ گرفتار کرنے کے بعد اس کے ڈی این اے کے نمونہ لئے بغیر کیوں چھوڑا گیا؟

 

تازہ ترین