• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لیجئے !صدر ٹرمپ کی نیشنل سیکورٹی اسٹرٹیجی کے اعلان کے بعد اب ٹرمپ ایڈمنسٹریشن کی نئی نیوکلیئر حکمت عملی بھی دنیا کے سامنے 2فروری کو آ چکی۔ انہی دنوں میں امریکی اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغان ری کنسٹرکشن کی نئی آڈٹ رپورٹ اپنے تمام حقائق و انکشافات کے ساتھ جاری ہو چکی۔ اسی تناظر میں اور انہی امور کے بارے میں صدر ٹرمپ ،وزیر دفاع جیمز میٹس اور دیگر امریکی عہدیداروں کے حالیہ بیانات سمیت اہل ایشیا بالخصوص جنوبی ایشیا کے لئے سنجیدہ ذہن کے ساتھ غورو فکر کی ضرورت ہے۔ نئی نیوکلیئر حکمت عملی کے مطابق امریکہ کے ایٹمی ہتھیاروں کو جدید اور بہتر بنانے کی ضرورت یوں ہے کہ روس اور چین نے اپنی ایٹمی فورسز کو بہت ترقی دی ہے اور ایسے ایٹمی ہتھیار بھی تیارکر لئے ہیں جو لانگ رینج کے ایٹمی ہتھیاروں کی طرح وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے کی بجائے Low yieldیعنی مقامی یا علاقائی سطح پر تباہی پھیلا سکتے ہیں۔ امریکیوں کا کہنا ہے کہ روس ایسے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری میں امریکہ سے آگے نکل گیا ہے لہٰذا اب امریکہ بھی اس میدان میں مقابلہ کرے گا اور نئے ایٹمی ہتھیار بنائے گا۔ نیشنل سیکورٹی اسٹرٹیجی اور نیو کلیئر حکمت عملی کے جواز میں دیئے گئے بیانات کے مطابق روس اور چین دونوں امریکا دشمن ملک قرار دیئے جا چکے ہیں ۔افغانستان دہشت گردی ،طالبان اور داعش کا مرکز قرار دیا گیا جبکہ پاکستان پر الزام ہے کہ دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں پاکستان میں موجودہیں۔ مذکورہ امریکی آڈٹ رپورٹ جسے (S.I.G.R)کا نام دیا جاتا ہے،دو ارب ڈالرز سے زیادہ کے فنڈزکی نشاندہی کرتی ہے جو قواعد کے خلاف اور غلط استعمال کئے گئے اور امریکی آڈیٹرز نے یہ رقم بچائی گویا افغانستان میں امریکی فنڈز میںخورد برد، کرپشن وغیرہ بھی جاری ہے۔ دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے الزام کے تحت پاکستان بھی امریکہ کیلئے ایک ’’ولن‘‘ قرار دیا جا رہا ہے جبکہ پاکستان اس الزام سے انکاری ہے یہ رپورٹ واضح کرتی ہے کہ افغانستان میں قدرتی وسائل کی ’’مائننگ‘‘ یعنی کان کنی کو بھی وہ فروغ حاصل نہیں ہو سکا کہ مالی وسائل بہتر ہوسکیں ،گویا افغانستان میں امریکی مفادات حاصل نہیں کئے جا سکے۔ یہ رپورٹ افغانستان میں اور بھی بہت سی فوجی، معاشی اور مالی ناکامیوں کے حقائق سے پردہ اٹھاتی ہے۔ اس سرکاری امریکی رپورٹ کا ڈیٹا بھی محکمہ دفاع اور دیگر سرکاری ذرائع سے ہی حاصل کردہ ہے۔ چین اور منگولیا کے زمینی رابطوں، سینٹرل ایشیا اور روس کے نواح میں واقع افغانستان میں تاحال امریکی ناکامیوں اور سٹرٹیجک محل و قوع نے اس خطے کو عالمی طاقتوں کی ’’گریٹ گیم‘‘ کا مرکزی علاقہ بنا دیا ہے اور امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس کا تازہ بیان ہے کہ ’’دہشت گردی نہیں بلکہ گریٹ پاورزکا مقابلہ اب امریکی نیشنل سیکورٹی کی توجہ کا بنیادی فوکس ہے‘‘
"Great Power Competition not terrorism is now Primary focus of U.S national security"
یہ بھی موقف ہے کہ روس نے ایٹمی میدان میں نئے علاقائی تباہی پھیلانے والے ایٹمی ہتھیار اور دیگر تبدیلیاں کر کے امریکہ کو مجبور کیا ہے کہ وہ نئی نیوکلیئر فورس تیار کرے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ روس اور امریکہ کے درمیان ایٹمی اسلحہ کی اس نئی دوڑ کیلئے امریکہ کوایک ٹریلین ڈالرز خرچ کرنا ہوں گے۔ حالانکہ امریکہ بھی نئی جنریشن کے ایسے نیوکلیئر کروز میزائل تیار کر چکا ہے جو ریڈارز کی نظر سے بچ کر نچلی پرواز کرتے ہوئے سمندر پار کر کے خاموشی سے ایسے زہریلے بادل مقصود علاقے میں پھیلا کر انسانوں اور جانداروں کو نیست و نابود کر سکتے ہیں۔ اور یہ بھی پتہ نہیں چل سکے گا کہ حملہ ایٹمی یا غیر ایٹمی تھا۔
ان تمام معروضات کا مقصد مایوسی پھیلانا نہیں بلکہ وہ تمام زمینی حقائق آپ کے سامنے لانا ہے جو گریٹ پاورز مقابلہ کا حصہ ہیں اور ایشیا بالخصوص ہمارا خطہ ان بڑی طاقتوں کی باہمی چپقلش اور نئی ایٹمی دوڑ کے مضر اثرات کی لپیٹ میں آ رہا ہے امریکیوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے روس محدود تباہی پھیلانے والے نئے ایٹمی ہتھیاروں کے شعبے میں مسلسل آگے بڑھتا رہا جبکہ امریکی پیچھے رہ گئے۔اب اس نئی صورتحال میں صدر ٹرمپ کی نئی نیشنل سیکورٹی اسٹیرٹیجی اور نئی نیوکلیئر حکمت عملی کے مقاصد اور فوکس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس کا مقصد روس اورچین کا مقابلہ کرنا اور فوکس ایشیا ہے۔ ڈرونز طیاروں کی ٹیسٹنگ افغانستان اور پاکستان میں کی گئی ۔اب نئی جنریشن کے ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات اور نتائج کیلئے یہ متحارب عالمی طاقتیں کس علاقہ، کا رخ کرتی ہیں ؟اس بارے بدلتی ہوئی صورتحال اور بحرانی کیفیات فیصلوں پر اثر انداز ہوں گی۔ لیکن جغرافیائی محل و قوع تو افغانستان کو امریکی مفادات کا مرکزی علاقہ قرار دیتا ہے۔ جہاں سے چین اور روس کو قریب سے مانیٹر اور متاثر کیا جا سکتا ہے۔ امریکہ اپنی سرزمین سےدور بحران زدہ علاقوں میں اپنے مخالفین کو مصروف رکھنے اور مقابلہ کرنے کی مسلسل پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ روس اور چین کو امریکہ مخالف ممالک قرار دے کر دنیا کو دو بلاکوں میں تقسیم کیا جا رہا ہے۔ پاکستان بھی چین سے قربت کے باعث اسی امریکی دبائو کا شکار ہے۔ نئے ایٹمی اسلحہ کی دوڑ جہاں ایشیا میں محدود ایٹمی جنگ کے خطرات پیدا کر رہی ہے وہاں ایک نئی سرد جنگ کا آغاز بھی ہو رہا ہے۔
گو کہ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ امریکی ڈرونز ٹیکنالوجی اور متعدد امریکی ہتھیاروں کی ٹیسٹنگ افغانستان اور پاکستان میں ہوئی کیا اب محدود تباہی والے ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات بھی خدانخواستہ اسی علاقے میں ہوں گے یاکہیں اور ؟ لیکن اس امکان کو رد بھی نہیں کیا جا سکتا کہ جدید اسلحہ بارود کے ڈھیر ایشیا میں ہی لگائے جا رہے ہیں ۔کشیدگی کے پوائنٹس بھی ایشیا میں ہی پیدا کئے جا رہے ہیں۔ بہت عرصہ قبل ہی متعدد امریکی ماہرین بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ یورپ میں دو عالمی جنگوں کی تباہی کے بعد آئندہ کی ممکنہ جنگ کا تھیٹر ایشیا میں ہو گا،بھارت امریکہ اتحاد کے تیسرے فریق اسرائیل نے مشرق وسطی سے باہر نکل کر جنوبی ایشیا اور سینٹرل ایشیا کو اپنی سرگرمیوں کا توسیعی مرکز بنا لیا ہے۔ سہ فریقی تعاون کی شکل میں یہ موجود ہے۔ صدر ٹرمپ کی نئی نیوکلیئر حکمت عملی سے کافی پہلے ہی پاکستان ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیاروں کے شعبے میں اپنی مہارت کا نمونہ بھارت اور اس کے ساتھیوں کو دکھا چکا ہے۔ بھارت پاکستان کے ان ٹیکٹیکل ہتھیاروں کے ہاتھوں بہت پریشان ہے جبکہ بھارت جیسے وسیع اور زیادہ وسائل والے ملک کے مقابلے میں اپنی سیکورٹی کی تلاش میں یہ مراحل بھارت سے بہت پہلے اور آگے جا کر طے کر چکا ہے۔ مگر بڑی عالمی پاورز کے گریٹ گیم کی آماجگاہ بھی ایشیا ہی ہے۔ دیکھئے صدر ٹرمپ کی نئی نیوکلیئر حکمت عملی اور نئی نیشنل سیکورٹی اسٹیرٹیجی ایشیا بالخصوص چین اور روس کے درمیان جنوبی ایشیا اور سینٹرل ایشیا کے ملکوں پر کیا اثرات و نتائج مرتب کرتی ہے ؟

تازہ ترین