• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپنی بدتدبیری تسلیم کرنے کی بجائے ساری مشکلات کا بوجھ دوسروں پر ڈالا جا رہا ہے۔ بچہ گھر دیر سے آئے یا اسکول سے بھاگنے لگے تو اکثر والدین اس کی وجہ اپنے گھر میں یا بچے کی نفسیات میں تلاش کرنے کے بجائے اکثر ہمسایوں، رشتہ داروں یا بچے کے دوستوں کو خرابی کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں یہ رویہ صرف سادہ لوح والدین اور ان کے کم عمر بچوں تک محدود نہیں، دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور اور وسائل اور معلومات کے ذرائع سے مالامال امریکہ بھی یہی کیا کرتا ہے۔ ویت نام کی جنگ خود شروع کی ہوچی منہ کے ہاتھوں پٹائی ہوئی تو مدعا چین اور روس پر ڈال دیا۔ افغانستان میں افواج قاہرہ کے ساتھ اترے، مار پڑی تو پاکستان پر الزام تراشی ہونے لگی۔ پاکستان میں مسلم لیگ کی سیاست بھی کچھ اسی طرح چلائی جا رہی ہے۔ اپنی نالائقی کا اعتراف کرنے کے بجائے ’’چوری اور سینہ زوری‘‘ کا معاملہ ہے مگر اپنے سینے میں زور کتناہے؟ یہ تو سمجھ لیا ہوتا۔
گزشتہ روز مسلم لیگ نواز کے چند ممبران اسمبلی سے ملاقات رہی، اتفاق سے ان کا تعلق دیہی علاقوں سے تھا۔ جہاں پارٹی کی مقبولیت کے ساتھ ساتھ ذات برادری اور خاندانی اثر ورسوخ اہم کردار ادا کرتا ہے، ایک صاحب بولے، بعض اداروں کی طرف سے ہمارے ممبران کو ورغلایا جارہا ہے۔ پوچھا، آپ میں سے کسی کو نادیدہ نے فون کیا؟ بولے، نہیں لیکن بعض دوسرے لوگوں کو، عرض کیا اگر آپ کو کسی نے نہیں ورغلایا تو کسی دوسرے کو بھی آج تک کسی نے فون نہیں کیا ہو گا۔ بولے، آپ اتنے یقین سے کیوں کہہ رہے ہیں؟ عرض کیا، اس لئے کہ نادیدہ قوتیں جن لوگوں سے رابطہ کرتی ہیں وہی ہیں جن کے اپنے دھڑے ہوں، پارٹی کے علاوہ ذاتی ووٹ بینک ہو اور پارٹی یا حکومت میں انہیں اہمیت نہ دی گئی ہو، اپنی قیادت سے انہیں شکایات ہوں اور اپنے علاقوں میں موجود خفیہ سیل سے روابط بھی ہوں۔ آپ لوگ جو اس وقت سامنے موجود ہیں ان شرائط پر پورا اترتے ہیں۔ اگر آپ میں سے کسی کو اب تک نہیں پوچھا گیا تو باقی لوگ بھی ابھی تک اس توجہ سے محروم ہیں۔ یہ سب ان کا حسن طلب ہے اور کچھ بھی نہیں، کتنے ہیں جو اڑان بھرنے کو تیار ہیں مگر ان کی خواہش ہے کہ کہیں سے فون بھی آئے تاکہ انہیں فیصلہ کرنے میں آسانی رہے۔ پوچھا، تحریک لبیک یارسولؐ اللہ کا دھرنا اگر مزید کچھ دن جاری رہتا تو کتنے لوگ اسمبلیوں سے مستعفی ہو سکتے تھے۔ بولے، صرف دو دن اگر دھرنا اسی طرح جاری رہتا تو ہم لوگ عوام کے ردعمل کا سامنا نہیں کرسکتے تھے۔ یقیناً ساٹھ، ستر فیصد لوگ مستعفی ہو چکے ہوتے، شاید ہم بھی، کہا کیا یہ صورتحال فوج اور ان کے خفیہ اداروں کی نظر سے اوجھل تھی؟ اگر نہیں تو پھر انہوں نے حکومت اور مسلم لیگ کو ’’بیل آئوٹ‘‘ کرنے کیلئے خود آگے بڑھ کر تحریک لبیک یارسولؐ اللہ سے معاہدہ کیوں کروایا۔ وہ آسانی سے دو،چار دن انتظار کر سکتے تھے اس طرح مسلم لیگ اور اس کی سیاست خود ہی دم توڑ دیتی۔
پانامہ اسکینڈل میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد مسلم لیگ نواز کی سیاست معمول کی سیاست نہیں رہی اب اس میں بہت سی الجھنیں اور پیچیدگیاں پیدا ہوگئی ہیں۔ حالیہ سیاسی ماحول میں قیادت کی رسہ کشی اور پارلیمانی گروپ کی سربراہی کیلئے مقابلہ شروع ہے۔ قومی انتخابات کا بگل بج چکا ہے اس لئے واقعات کی رفتار تیز تر ہوتی جارہی ہے۔ جمہوری روایات کے مطابق جب کچھ غلط ہو جائے تو حکومت اور پارٹی کی قیادت جو بھی غلطی کا مرتکب ہو وہ اپنی خطا تسلیم کر کے قیادت سے الگ ہو جاتا ہے تاکہ پارٹی کسی مناسب شخص کو قیادت کیلئے منتخب کرے جو پچھلی غلطی کو درست کرے اور نئے عزم کے ساتھ اپنے حریفوں کا مقابلہ کرسکے لیکن وطن عزیز میں جمہوری روایات ناپختہ بلکہ ناپید ہیں۔ ایسے میں ہماری سیاسی جماعتیں ’’پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں‘‘ بن کر رہ گئی ہیں جن کے مالکان اس کی قسمت کا فیصلہ خود کرتے ہیں۔ میاں محمد شریف جب تک حیات تھے تو گھرانہ پارٹی کے فیصلے گھر میں بیٹھ کر طے کرتا اور اختلاف رائے کی صورت میں میاں محمد شریف کو ویٹو کا حق حاصل تھا چنانچہ اختلاف کو فوراً ہی سمیٹ لیا جاتا۔ میاں محمد شریف کے بعد گھرانہ خاندان میں بدل گیا جس میں مختلف گھرانوں کی اپنی اکائیاں ہیں اور ان کے اندر باہمی مسابقت بعض اوقات مخالفت کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ گھرانوں کے مابین غلط فہمیاں نہ ہوتیں تو میاں نواز شریف کی نااہلی کے بعد صورتحال کو آسانی سے نمٹایا جا سکتا تھا۔ میاں شہباز شریف، نواز شریف کا قدرتی نعم البدل تھے مگر بادشاہت اور مال و زر کی وراثت ہمیشہ اولاد کی سمت سفر کرتی ہے۔ وعدے وعید تقسیم وراثت کے وقت بھلا دیئے جاتے ہیں۔ یہی صورتحال نواز لیگ کے اندر بھی نمایاں ہوئی۔ گھرانے کی مخالفت کے سبب شہباز شریف وزیراعظم بنتے بنتے رہ گئے وہ پارلیمانی پارٹی کے سربراہ مقرر ہو جاتے تو مسلم لیگ کی صدارت بھی ان کے حصہ میں آتی اور مائنس نواز شریف مسلم لیگ معمول کی سیاست کرتی مگر دو، ایک افراد کی تنگ دلی نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ اس بدلے ماحول نے چھوٹے بڑے سیاستدانوں کی نفسیات پر عجیب طرح کے اثرات چھوڑے ہیں۔ شہباز شریف وزیر اعظم اور چوہدری نثار کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنا دیا جاتا تو شاید مسلم لیگ پہلے سے بہتر نتائج حاصل کر سکتی تھی۔ اگرچہ وزیر اعظم نواز شریف نااہل قرار دے کر حکومت سے الگ کر دیئے گئے مگر ’’پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی‘‘ کی ملکیت اب بھی انہی کے نام ہے۔ انہوں نے اپنی مرضی کا ’’چیف ایگزیکٹو‘‘ مقرر کر کے کمپنی کی صدارت اپنے پاس رکھ لی۔ کمپنی کے دیگر ممبران جانتے ہیں کہ صدارت بھی تادیر ان کے پاس نہیں رہے گی۔ چنانچہ نئے امیدواران میاں صاحب کی افتاد طبع کو دیکھ کر ان کے مزاج کو خوش کرنے والا رویہ اپنا رہے ہیں تاکہ صدارت سے ممکنہ نا اہلی کے بعد اس عہدے کیلئے میاں نواز شریف کی تائید حاصل کر سکیں۔
راجہ ظفر الحق اور شاہد خاقان عباسی تُرش مزاج نہیں ہیں مگر دونوں نواز شریف کیلئے جس گرمجوشی کا مظاہرہ کرتے دکھائی دیتے ہیں ایسا انہوں نے کبھی پارٹی میٹنگ یا پارلیمانی اجلاس میں بھی نہیں کیا۔ تیسرے ہیں شہباز شریف ان کیلئے دہری مصیبت ہے۔نواز شریف سے تنگ اسٹیبلشمنٹ کا خیال ہے کہ مصیبت جھیلنا ہی مقدر ہے تو چھوٹی مصیبت کیوں نہ ہو۔ چنانچہ گاہے شہباز شریف کو نواز کی جگہ لینے کا کہتے رہے۔ اب شہباز شریف وہ لائن اختیار نہیں کر رہے جو نواز شریف کی ہے تاکہ اسٹیبلشمنٹ کی نظر میں اچھےبنے رہیں لیکن جونہی تھوڑی سی آنچ آئی تو شہباز شریف کا رد عمل تقریباً وہی تھا جو نواز شریف دیا کرتے۔راجہ ظفر الحق مسلم لیگ کی صدارت کے سنجیدہ امیدوار ہیں اور مسلم لیگ کی صدارت کے امیدواروں میں راجہ صاحب کے حریف میاں شہباز شریف ہو سکتے ہیں اور وزارت عظمیٰ کیلئے پیچ شہباز شریف اور شاہد خاقان عباسی کے مابین پڑنے والا ہے۔ سب اپنے اپنے مناصب پکا کرنے کیلئے نواز شریف کے قریب ہونے میں بازی لیجانے کی کوشش میں ہیں۔
غصے، رنج اور لالچ میں کوئی بھی درست فیصلے نہیں کرسکتا۔ یہی مسئلہ (ن) لیگ کے ساتھ ہے۔ جب قیادت تبدیل ہو جائے گی تو سب کچھ معمول پر آجائے گا۔ آنے والی قیادت خوب جانتی ہے کہ کسی جمہوریت میں کوئی پارٹی اینٹی اسٹیبلشمنٹ نہیں ہوتی۔ وہ سب مل کر کام کرتے ہیں، لڑ کر نہیں۔

تازہ ترین