• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ طے ہے اور بار بار ثابت بھی ہو چکا ہے کہ معزول وزیراعظم نوازشریف اور ان کی بیٹی مریم ’’جلاوطن‘‘ نہیں ہونا چاہتے اور پاکستان میں ہی سیاست کرنا چاہتے ہیں اگرچہ ان کے بہت سے سیاسی اور دوسرے مخالفین کی دلی خواہش ہے کہ باپ بیٹی بیرون ملک چلے جائیں اور آئندہ کئی سال تک وہیں رہ کر سیاست سے دستبردار رہیں۔ یقیناً ان عناصر کے لئے نوازشریف اورمریم کا پاکستان میں رہنا زیادہ خطرناک ہے کیونکہ ان کے منصوبے وہ کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ اس تناظر میں نیب کی وزارت داخلہ سے یہ درخواست کہ سابق وزیراعظم، مریم، کیپٹن ریٹائرڈ صفدر، حسین اور حسن کے نام ای سی ایل پر ڈالے جائیں فضول اور بیکار کوشش ہے کیونکہ بیرون ملک جانے پر پابندی تو ان ملزمان کے لئے ہوتی ہے جن کے بارے میں یہ اندیشہ ہو کہ وہ کسی تفتیش یا عدالتی کارروائی سے بچنے کے لئے پاکستان سے فرار ہونا چاہتے ہیں۔ نیب بھی ان تمام قوتوں کا آلہ کار بنا ہوا ہے جو نوازشریف اور ان کے خاندان کے دوسرے افراد کو سیاست سے آئوٹ کرنا چاہتی ہیں۔ یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ یک طرفہ اور متعصبانہ کارروائیاں زور و شور سے جاری ہیں۔نیب کی موجودہ کوشش کو لودھراں میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں ن لیگ کے امیدوار کی بھر پور کامیابی کا جواب سمجھا گیا جو کہ بلا شبہ ایک بہت ہی بھونڈہ انداز ہے۔ ہم بات تو کرتے ہیں اداروں کی آزادی اور شفافیت کی مگر یہ کر کیا رہے ہیں کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ہر کوئی نوازشریف مخالف مہم میں اپنی ’’کارکردگی‘‘ دکھا رہا ہے۔ نیب کی کارروائیوں سے یہ لگ رہا ہے جیسے کہ پنجاب میں شہبازشریف کی حکومت بہت ’’کرپٹ‘‘ ہے حالانکہ اس جتنی شفاف اور دیانتدار انتظامیہ پاکستان کی حالیہ تاریخ میں شاید ہی کوئی آئی ہو۔ یہ سب کچھ ن لیگ مخالف الیکشن کمپین کا حصہ ہے مگر اس کا اثر عوام پر نہ ہونے کے برابر ہے بلکہ الٹا جوں جوں نوازشریف اور ان کی فیملی کے دوسرے ممبرز کو رگڑا دیا جارہاہے ان کی مقبولیت مزید بڑھ رہی ہے۔ جوں جوں سابق وزیراعظم کے بیانیے کی لوگوں میں مقبولیت بڑھ رہی ہے توں توں ان کے مخالفین کی نیندیں حرام ہو رہی ہیں اور وہ شکنجہ مزید کسنے کی اسکیمیں بنارہے ہیں۔
ستمبر 2017میں نوازشریف کی زوجہ بیگم کلثوم اچانک لندن علاج کیلئےچلی گئیں اس وقت سے لیکر اب تک کئی بار سابق وزیراعظم برطانیہ جا چکے ہیں تاکہ وہ کچھ وقت ان کے ساتھ گزار سکیں۔ ہر بار یہی پروپیگنڈہ کیا گیا کہ اب وہ عدالتی کیسوں کی وجہ سے واپس پاکستان نہیں آئیں گے اور ہمیشہ لندن میں ہی رہیں گے۔ مگر یہ پروپیگنڈا ہر بارغلط ثابت ہوا۔ اب چونکہ مارچ کے پہلے ایک دو ہفتے میں احتساب عدالت سے نوازشریف اور مریم کیخلاف فیصلے آنیوالے ہیں اور قوی امکان ہے کہ انہیں سزا ہو جائے گی لہٰذا ملزمان چاہتے ہیں کہ اس ڈویلپمنٹ سے پہلے بیگم کلثوم کو چند روز کیلئے مل آئیں۔ نیب نے دراصل ان کو اذیت پہنچانے کیلئے ان کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی درخواست کی ہے۔ نوازشریف کا پروگرام بڑے واضح ہے کہ جس دن احتساب عدالت اپنا فیصلہ دے گی وہ کورٹ کے اندر موجود ہوں گے اور اگر ان کے خلاف فیصلہ ہوا تو وہ اسی وقت گرفتاری دے دیں گے۔ ن لیگ کا خیال ہے اور بہت سے دوسرے لوگ بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ جس طرح 28جولائی کی نااہلی نے نوازشریف کی مقبولیت میں بہت اضافہ کیا اسی طرح احتساب عدالت کے فیصلے بھی انکی عوامی پذیرائی کو مزید بڑھا دیں گے۔ جب سابق وزیراعظم نے بار بار یہ کہا ہے کہ وہ اپنے مشن کی تکمیل کیلئے ہر قسم کے نتائج بھگتنے کو تیار ہیں تو یقیناً ان کے دماغ میں یہ بات موجود ہے کہ انہیں قید بھی کردیا جائے گا۔ لگ یوں رہا ہے کہ نوازشریف اور مریم کو سزا ہونے کی صورت میں بیگم کلثوم فوراً پاکستان واپس آجائیں گی اگر انکی صحت نے کسی حد تک اجازت دی اور یہاں آکر بالکل اسی طرح ہی بھرپور انداز میں سیاست شروع کر دیں گی جیسے انہوں نے اپنے خاوند کی قید جو کہ پرویز مشرف کی حکومت نے اکتوبر 1999میں مارشل لا لگانے کے بعد ان پر مسلط کی تھی،کے دوران کی اور ثابت کیا تھا کہ وہ نوازشریف سے بھی زیادہ طاقتور کمپینر ہیں۔ پہلے دن سے ہی حسین اور حسن تو احتساب عدالت میں چلنے والے ریفرنسوں کا حصہ نہیں بنے اور وہ لندن میں اپنی بیمار والدہ کے پاس ہیں لہٰذا نیب کی درخواست کہ ان کا نام بھی ای سی ایل میں ڈال دیا جائے سمجھ سے بالا تر ہے کیونکہ اس طرح کی پابندی تو پاکستان سے باہر جانے پر ہوتی ہے نہ کہ ملک واپسی پر۔ ویسے بھی حسین اور حسن کا پاکستان آنے کا کوئی پلان نظر نہیں آرہا۔ ہماری رائے میں تو وزارت داخلہ کو چاہئے کہ وہ فوراً نوازشریف اور مریم کا نام ای سی ایل پر ڈال دیں اس سے ان کو سیاسی فائدہ ہی ہوگا۔ اسی حکومت کے دوران چند سال قبل وزارت داخلہ نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ خود بخود یا کسی ادارے کے کہنے پر کوئی نام بھی ای سی ایل پر نہیں ڈالے گی جب تک کہ کوئی عدالتی حکم موجود نہ ہو۔ نیب کو چاہئے کہ وہ فوراً احتساب عدالت سے رجوع کرے اور وہاں سے سابق وزیراعظم اور دوسروں کے نام ای سی ایل پر ڈلوانے کے لئے آرڈر حاصل کر لے۔ اسی وقت ہی ای سی ایل سے ہزاروں نام بھی نکال دیئے گئے تھے جو کہ خواہ مخواہ اس میں ڈالے ہوئے تھے۔ نوازشریف کے سیاسی مخالفین اور دوسرے حضرات بڑی بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں کہ احتساب عدالت ملزمان کو 12مارچ (جس دن اس کے جج محمد بشیر ریٹائرڈ ہو رہے ہیں) سے قبل سزا سنا دے اور جوں ہی ایسا ہوگا ان ’’دانشمندوں‘‘ کے خیال میں سابق وزیراعظم کی سیاست ختم ہو جائے گی اور ن لیگ بھی تتر بتر ہو جائے گی۔ یہ عناصر صرف اور صرف گالی گلوچ ،دشنام طرازی اور سازشوں پر ہی اپنے سیاسی محل بنا رہے ہیں بجائے اس کے کہ وہ عوام کے سامنے اپنی کارکردگی یا پروگرام پیش کریں تاکہ انہیں کچھ عوامی پذیرائی مل سکے۔ 28جولائی کے بعد پنجاب میں 3ضمنی انتخابات ہوئے جن میں باوجود اس کے کہ ہر قسم کی پلاننگ کی گئی کہ ن لیگ کو نیچا دکھایا جائے اس نے بھرپور کامیابی حاصل کی۔ لودھراں کے ضمنی انتخاب نے بھی ان لوگوں کی آنکھیں نہیں کھولیں۔ ان میں سب سے بڑی تو پی ٹی آئی ہے جو پہلے دن سے ہی کسی دوسرے کے ایجنڈے اور اسکرپٹ پر عمل کر رہی ہے۔ اسے جو شرمندگی لودھراں میں اٹھانی پڑی ہے وہ ناقابل فراموش ہے۔ یہ نتیجہ ہر ایک بشمول نوازشریف کیلئے بھی حیران کن ہے۔ سب کا خیال تھا کہ جہانگیر ترین کے بیٹے علی ترین باآسانی جیت جائیں گے۔

تازہ ترین