• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لودھراں کے ضمنی انتخابات کے غیر متوقع نتائج سے یہ اندازہ لگانا آسان ہے کہ ووٹرز نے ایک جانب جہانگیر ترین کو مکمل طور پر ناا ہل تسلیم کرلیا ہے تودوسری جانب یہاں اکثریت آج بھی نوازشریف کو نااہل ماننے کے لئے تیار نہیں ۔نون لیگی امیدوار اقبال شاہ کے ہاتھوں کم و بیش ستائس ہزار ووٹوں سے جہانگیر ترین کے صاحبزادے علی ترین کی شکست وسطی پنجاب میں بدلتے ہوئے سیاسی رجحانات کا ایک واضح اشارہ ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے تحت منعقدہ ضمنی انتخابات کا یہ نتیجہ ، کسی آزاد عوامی سروے کے مقابلے میں آئندہ عام انتخابات پر تجزیات کے لئے زیادہ قابل بھروسہ پیمانہ ہے ۔عجب یہ کہ انتخابات سے ایک رات پہلے تک حلقے میں خود نون لیگ کے عہدیداران اور حمایتی صورتحال سے مطمئن نہیں تھے۔ بلکہ علاقے میں اقبال شاہ کے چند حمایتی معززین کا خیال تھا کہ انتخابی مہم کے دوران نون لیگ کے کسی معروف رہ نما کو حلقے کا کم از کم ایک دورہ ضرور کرناچاہئے تھا۔
دوسری جانب مد مقابل پی ٹی آئی کے امیدوار اور جہانگیر ترین کے صاحب زادے علی ترین کی پوری انتخابی مہم دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی ۔ امارت اوروسائل کا استعمال جا بجا دکھائی دے رہا تھا اور یوں لگتا تھا جیسے سارا جہاں علی ترین کو انتخابات میں فتح دلانے کے لئے اکٹھا ہوگیا ہے۔ پولنگ سے ایک روز قبل عمران خان کی حلقے میں آمد نے اِس مہم میں چا رچاند لگادئیے ۔پورے حلقے میں ہر طرف پی ٹی آئی کے جھنڈے اور عمران خان کی دلکش تصاویر دکھائی دے رہی تھیں۔اگرچہ عمران خان نے عدالت عظمی کے واضح انتباہ کے باوجود اس حلقے کا دورہ کیا تھا ، مبصرین کا خیال تھا کہ انتخابی جلسے میں اِن کے پر جوش خطاب کے بعدیہ سیٹ یقینی طور پر پچھلے ضمنی انتخابات کے نتائج دہراتے ہوئے ایک بار پھر پی ٹی آئی کے پاس چلی جائے گی ۔دوسری طرف ایک مقامی صحافی کا کہنا ہے کہ پولنگ کے اختتام تک نون لیگ کی فتح کا سوچنا بھی ممکن دکھائی نہیں سے رہا تھا۔ اِس صورتحال کے باوجوداِن انتہائی غیر متوقع نتائج کے کچھ خاص اسباب تو ضرور ہوں گے۔
سال 2015کے ضمنی انتخابات میں جہانگیر ترین نے اپنے مد مقابل امیدوار کو کم و بیش چالیس ہزار ووٹوں سے شکست دی تھی ۔ لہذا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اُس وقت پی ٹی آئی نے علاقے میں نہ صرف محنت اور گرم جوشی سے کام کیا تھا بلکہ وہ پورا سال ہی پی ٹی آئی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا دور تھا۔روز بروز بڑھتی ہوئی اِس مقبولیت کے سبب اِس بار بھی نہ صرف پوری انتخابی مہم کے دوران بلکہ پولنگ ختم ہونے تک تاثر یہی تھا کہ پی ٹی آئی کے علی ترین کی جیت یقینی ہے ۔
اس خاص حلقے میں پی ٹی آئی کی مقبولیت کا گراف اچانک نیچے آنا یقیناََ ایک غیر معمولی صورتحال ہے۔ بدلتے ہوئے عوامی رجحانات سے متعلق کوئی بات یقین سے نہیں کی جاسکتی لیکن بظاہر اس صورتحال کا صحیح اندازہ پہلی بار لاہور میں پاکستان عوامی تحریک کے تحت سترہ جنوری کو منعقدہ اپوزیشن رہ نمائوں کے جلسے کے حالات دیکھ کر ہوا۔خاص طور پر آصف علی زرداری اور عمران خان کے درمیان دوری اور اسٹیج پر ایک دوسرے کا سامنا نہ کرنے کا دو طرفہ فیصلہ، جلسے میں شریک معروف سیاست دانوں کی تقاریر میں حکومت اور پارلیمنٹ کے خلاف سخت لعنت ملامت اور پنڈال میں مٹھی بھر افراد کی شرکت شاید لودھراں کے ضمنی انتخابات کے نتائج کا اوّلین اشارہ تھے۔ اگرچہ اُس وقت یہ بات سمجھنا آسان نہیں تھا لیکن خاموشی سے رونما ہونے والی یہ تبدیلی لودھراں میں آخر کار اپنا اثر دکھا ہی گئی ۔
اگرا ب پی ٹی آئی کی بتدریج کم ہوتی ہوئی مقبولیت کی بات واقعی درست ہے تو کہا جاسکتا ہے کہ عوام نے سترہ جنور ی کے جلسے کو ٹھکراکراور پھر لودھراں میں نون لیگی امیدوار کو بھاری تعداد میں ووٹ دیکر بظاہرملک کی ’ اشرافیہ ‘ کی خواہشات کے خلاف فیصلہ دے دیا ہے۔ ملک کی سیاسی تاریخ میں ’ریاست‘ اور ’اشرافیہ‘ کی خوشنودی حاصل کرنے والے سیاست دانوں کو عوام عموما ً مسترد کرتے آرہے ہیں ۔ البتہ ایسے سیاست دانوں کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیاہے جو اپنے سیاسی کیرئیر کے ابتدائی دور میں ’اسٹیبلشمنٹ ‘ کا سہارالینے کے باوجود بتدریج عوام سے قریب تر ہوتے چلے گئے ۔ ذوالفقا رعلی بھٹو کے بعد اب میاں نواز شریف اس مثال پر پورے اترتے نظر آتے ہیں ۔
پاکستان میں پسماندہ دیہی علاقوں میں بااثر افراد کو عموما ً مسیحا کے طور پر جانا جاتا ہے ۔ عام تاثر یہ ہے کہ دیہات اور قصبوں میں بسنے والے بے بس اور غیر تعلیم یافتہ لوگوں کے مسائل صرف علاقے کے دولت مند اور با اثر افراد ہی حل کرسکتے ہیں کیوں کہ تصور یہ ہے کہ ان لوگوں کی ایوان اقتدار تک کوئی نہ کوئی رسائی ضرورہوتی ہے ۔ شدید مایوسی اور بدحالی کی کیفیت میں بھی یہی سمجھا جاتاہے کہ غیب سے آنے والی امداد تک رسائی علاقے کے کسی دولت مند شخص کے ذریعے ہی ممکن ہوسکتی ہے۔ لہٰذا ’’انسان دوست اشرافیہ‘‘ کا یہ پُرفریب تصور شہری سے زیادہ ملک کے دیہی علاقوں میں پروان چڑھتا رہا ہے ۔ اور شاید یہ وہی روایت ہے جس کے باعث گزشتہ سات دہائیوں میں ملک بھر میں جاگیرداری اور سرمایہ دارانہ نظام کمزور ہونے کے بجائے نفسیاتی سطح پر مزید مستحکم ہوتا چلاگیا ۔ لہذا غریب تو دور کی بات، نسبتاً چھوٹے زمینداروں کا انتخابات میں حصہ لینا بھی کم و بیش ناممکن رہا ہے۔
یہ کہنا بھی ٹھیک نہیں کہ نون لیگ کا ہر امیدوارہمیشہ عوامی صفوں سے اُٹھ کرانتخابی سیاست میں حصہ لیتا ہے۔ البتہ لودھراں میں جہانگیر ترین کے طاقتور سیاسی سحراورصاحب زادے کی انتخابی مہم میں وسائل کے بھر پور استعمال کے باوجود چھوٹے زمینداروں اور کسانوں کے حمایت یافتہ لیگی امیدوار کا جیت جانا سیاست کے دقیانوسی تصورات کے مکمل نہیں تو جزوی خاتمے کا اعلان سمجھا جا سکتا ہے۔
اس نئی صورتحال میں ایک نیا غور طلب پہلو یہ ہے کہ جہانگیر خان ترین کے سنہرے سیاسی کیرئیر میں پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرنا بظاہر اب تک ان کے لئے کامیابیوں سے زیادہ مایوسی اور سیاسی مستقبل کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال کا سبب بنتا رہا ہے ۔اگرچہ جنرل مشرف کے دور میں بحیثیت وفاقی وزیربرائے صنعت و پیداوار انہوں نےایک انتہائی ’’ سنہری ‘‘ دور بھی دیکھا ہے لیکن سال 2011میں پی ٹی آئی میں شمولیت کے بعد سے وہ اب تک کوئی مستقل اور بڑی کامیابی حاصل کرنے سے قاصر رہے ہیں جب کہ کپتا ن کے لئے اُن کی یک طرفہ خدمات آج بھی جار ی و ساری ہیں۔ نااہل قرار دئیے جانے سے لیکر لودھراں میں بیٹے کی غیر متوقع شکست تک ، جہانگیر ترین کم از کم انتخابی سیاست کے میدان میں بہت کچھ یا شاید سب کچھ کھو چکے ہیں۔ ستم یہ کہ عمران خان اِن کی نا اہلی کو مستقل بنیادوں پر تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کیوں کہ ان کا اصل مسئلہ کسی طور جہانگیر ترین نہیں بلکہ نواز شریف ہیں ۔

تازہ ترین