• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ سچ ہے جدید دنیا کی گزشتہ صدیوں میں دہشت گردی کی ایسی خوفناک لہر کبھی نہیں آئی۔ اسی طرح یہ بھی سچ ہے کہ حالیہ دہشت گردی ایشیا کے مختلف ملکوں میں امریکہ کی جارحانہ مداخلت کا نتیجہ ہے اور یہ بھی کہ دہشت گردی کے ہولناک اثرات سے پاکستان سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے۔ اسے ایک محتاط اندازے کے مطابق کم از کم ایک لاکھ انسانی جانوں کی قربانی کے علاوہ تقریباً دو سو ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ اس کے علاوہ صنعت و تجارت کی بدحالی، امن و امان کی خرابی اور تیس لاکھ افغان مہاجرین کا بوجھ اٹھانا پڑ رہا ہے جو امریکی مداخلت سے افغانستان میں جنگ سے متاثر ہو کر پاکستان میں رہنے پر مجبور ہیں اور ان مہاجرین کی آڑ میں بھارت، امریکہ اور افغان خفیہ ایجنسیاں پاکستان میں لاینحل مسائل کی وجہ بن رہی ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ امریکہ جو آج دنیا بھر میں دہشت گردی کا اصل سبب اور ماخذ ہے وہ متاثرہ ملکوں پر دہشت گردی کی پناہ اور مالی وسائل کی فراہمی کا بہانہ تراش کر پابندیاں لگوانے کی کوشش کر رہا ہے۔ دنیا بھر میں امریکہ کے بغل بچوں کی کوئی کمی نہیں جو اس کے ہر جائز و ناجائز مطالبے پر ہاں میں ہاں ملانے کیلئے تیار رہتے ہیں۔ اب کی بار پاکستان پر دبائو ڈالنے کیلئے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان پر بعض پابندیاں عائد کروانا چاہتا ہے جس کیلئے فرانس، برطانیہ اور جرمنی کی تائید حاصل ہو گئی ہے۔ ایف اے ٹی ایف نے امریکہ اور اس کے حواریوں کے دبائو میں آکر پاکستان کی حیثیت کم کر دی تو دبائو کا شکار اقتصادیات مزید دبائو میں آجائیں گی۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس 98ء میں جی سیون کی تحریک پر قائم کی گئی تھی جس کا مقصد منی لانڈرنگ کے مسئلے پر قابو پانا تھا بعد میں دہشت گردوں کو ملنے والی مالی امداد کا پتہ لگانا بھی اس کی ذمہ داریوں میں شامل کر دیا گیا۔ امریکہ پاکستان پر دبائو ڈالنے کے اس ادارے کو ایک مرتبہ پھر استعمال کرنا چاہ رہا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ پاکستان امریکہ اور ان کی کٹھ پتلیوں کے فیصلے کا شکار بنے گا۔ اس سے پہلے 2012ء سے 2015ء تک پاکستان ان کے زیر نگرانی فہرست میں شامل رہ چکا ہے بعد میں اس فہرست سے نکال دیا گیا تھا۔
پاکستان بری فوج کے سپہ سالار قمر جاوید باجوہ نے 17فروری کو جرمنی کے شہر میونخ میں سیکورٹی کانفرنس میں بڑے فخر اور اعتماد سے بیان کیا کہ پاکستان نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے۔ داعش کو خطے میں پنپنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ پاکستان نے تحریک طالبان، الاحرار اور داعش وغیرہ کی دہشت گردی پر کامیابی سے قابو پایا۔ افغان سرحد کے ساتھ پاکستانی علاقے کو ہر طرح کے دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کو ختم کیا۔ کوئی دوسرا ملک ان کامیابیوں میں پاکستان کا ثانی نہیں ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان نے اسرائیل، انڈیا، امریکہ اور افغان خفیہ ایجنسیوں کے تعاون سے اپنے خلاف ہونیوالی دہشت گردی کی مہم کو ناکام بنا دیا۔ امریکہ کو اصل تکلیف یہی ہے کہ پاکستان اس کے پھیلائے جال سے ہر باربآسانی اور کامیابی سے نکل جاتا ہے۔ یقیناً پاکستان سے دنیا بھر میں کسی دہشت گرد تنظیم کو رقوم نہیں بھیجی جارہیں۔ گزشتہ تین برس کی واچ لسٹ میں شامل رہنے کے بعد جب پاکستان کو CLEARکیا گیا تو اب امریکہ اور اس کے بغل بچوں کے کہنے پر پھر سے شامل کرنے کا جواز کیا ہے۔ امریکہ کو اصل تکلیف کہیں اور ہے مگر اظہار دوسری جگہ سے کیا جا رہا ہے۔
پٹھان بھائی تازہ، خوش رنگ اور پکے ہوئے شفتالو پلیٹ میں سجائے مزے سے کھا رہا تھا نزدیک بیٹھا ملازم للچائی نظروں سے دیکھتا رہا۔ دو ایک مرتبہ مانگنے کا حوصلہ کیا لیکن شف شف کہہ کر رہ گیا۔ پٹھان بھائی نے اس کی شف شف سن لی تھی اس کی طرف پلیٹ بڑھا کر بولے شف شف کیا کرتے ہوئے سیدھا شفتالو بولو۔ امریکی عرصہ دراز سے پاکستان کو شف شف کہتے ہیں مگر شفتالو بولنے کا حوصلہ نہیں کر پا رہے۔ ماضی میں دو بار حوصلہ کیا تو دونوں مرتبہ حوصلہ شکن جواب نے ان کے ارادے پست کردیئے۔ اب پاکستان میں میدان جنگ کے جوہری ہتھیاروں کی تیاری نے ان کے خبث باطن کو تیز تر بنادیا ہے۔ یہ نہیں کہ امریکہ کا پاکستان کے شفتالو کے بغیر گزارا نہیں نہ ہی نئی پیش رفت سے خطرہ ہے۔ مسئلہ ان کے لے پالک بچوں کا ہے۔ پاکستان جن کے مذموم ارادوں کی راہ میں حائل اور ان کے عزائم کی تکمیل میں بڑی رکاوٹ ہے۔ انڈیا علاقے کی بڑی طاقت، چین کا حریف، اقتصادی قوت، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل ممبر بننے کے خواب دیکھتا ہے۔ آنکھ کھلے تو پاکستان کو سامنے کھڑے دیکھ کر اس کی سانسیں حلق میں پھنسنے لگتی ہیں۔ پاکستان بغل میں کھڑا قابو میں نہیں ہے تو چین اور روس کا حریف کیسے بنے، یہی مسئلہ اسرائیل کا بھی ہے۔ پاکستان، ایران اور اب ترکی مشرق وسطیٰ میں اس کے توسیعی منصوبوں کی راہ روک سکتے ہیں چنانچہ جوہری پاکستان کا کانٹا نکل جائے تو نہ صرف ان امریکی بغل بچوں کو سکون کا سانس نصیب ہوتا ہے بلکہ طاقتور حریف چین کی راہ روکنے کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔ آج سرد جنگ کا زمانہ ہے نہ اس کے فوری بعد کی دنیا، یورپ کی تگ و تاز، روس کی توسیع اور امریکہ کے واحد سپر طاقت ہونے کے زمانے ماضی کا حصہ بن گئے۔ روس کا جارحانہ کمیونزم تمام ہوا۔ آج روس کے ساتھ مسلمان ملکوں کی نظریاتی کشمکش ختم ہوچکی ہے۔ چین اونچی دیواروں کے حصار سے باہر نکل کر دنیا کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت بن چکا ہے۔ روس اورچین کا تعاون امریکہ کی جنگی مشین اور عالمی عزائم کو چیلنج کر رہا ہے۔ چودھویں، پندرھویں صدی کی عالمی طاقتیں پھر سے اپنے مراکز میں طاقت حاصل کر رہی ہیں۔ مشرق وسطیٰ کا اضطراب نئی صورت میں متشکل ہو رہا ہے۔ عنقریب عرب ریاستیں امریکی بلیک میلنگ سے نکلنے والی ہیں۔ پاکستان، ایران، ترکی، یورپ اور امریکہ کی طرف سے اٹھنے والی لہروں کا مقابلہ کرتے کرتے اتنے جری ہوچکے ہیں کہ عنقریب جواب دینے کے قابل ہو جائیں گے۔ پاکستان ان میں سب سے بہتر پوزیشن میں ہے لیکن اس کی کمزوری اپنے سیاسی نظام اور قیادت کا بحران ہماری منزل کھوٹی کر رہا ہے ورنہ پاکستان کے اندر ہی اپنے اقتصادی مسائل کا حل اور کمزوریوں کا علاج بھی موجود ہے۔ دنیا بدل گئی، دنیا بدل رہی ہے بس تھوڑا انتظار کیجئے۔ صبر اور حوصلے کے ساتھ مشکل اور مصیبت کے دن کٹ چکے ہیں، کاٹ لئے گئے ہیں۔ قریب ہی طلوع صبح کے روشن آثار نمایاں ہیں۔ زوال و ادبار کے دن تھوڑے ہیں۔ زیادہ گزر گئے باقی بھی گزر ہی جائیں گے۔ سرد جنگ کا زمانہ ہے نہ جارحانہ کمیونزم کا خطرہ، نہ انڈیا کی مقابلتاً بڑی جنگی مشین کا خوف، تو پھر امریکہ کی BULLYکیوں برداشت کریں؟

تازہ ترین