• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی ملک یا مسئلہ کے زمینی حقائق خواہ کچھ بھی ہوں اور کسی بھی اصولی موقف پر مبنی ہوں عالمی سیاست کی عملی دنیا میں دہرے معیار کے تحت وقتی طور پر طاقتور کا پلہ اور فیصلہ ہی بھاری رہتا ہے یہ الگ بات ہے کہ تاریخ اور اخلاقیات اسے ناانصافی اور ظلم کے طور پر ریکارڈ کرتے ہیں۔ جنگوں کے اسباب و نتائج، تہذیبوں کے عروج و زوال، فلسطین و کشمیر، مغربی صحارا، لاطینی امریکہ، افریقہ اور ایشیا میں جابجا اس دہرے معیار کے ثبوت آج بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔
جرمنی میں منعقدہ عالمی سیکورٹی کانفرنس میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنی تقریر میں پاکستان کے ان زمینی حقائق کو موجودہ صورت حال کے تناظر میں پیش کرتے ہوئے بتایا کہ دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن اسٹیٹ اور امریکی اتحادی کے طور پر جو تاریخی قربانیاں اور کردار پاکستان نے پیش کیا ہے اور اپنا جغرافیہ، معیشت، سیاست اور سلامتی کو دائو پر لگا کر دہشت گردی کے خلاف جنگ کی ہے اور القاعدہ، تحریک طالبان اور دیگرعسکریت و انتہا پسند گروپوں کو شکست دی ہے، وہ کسی اور ملک نے ادا نہیں کیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ دہشت گردی کے خلاف سالہا سال تک جنگ کرنے والے پاکستان میں اب دہشت گردوں کی پناہ گاہیں نہیں ہیں بلکہ افغانستان میں موجود اور سرگرم دہشت گرد پاکستان میں داخل ہوکر دہشت گردی کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب بھی دہشت گردی کے خلاف پاکستان مشترکہ کوششوں میں تعاون اور خطے میں امن کے لئے کردار انجام دینے کو تیار ہے۔ 40؍سال قبل افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جہاد کے عنوان سے شروع کی جانے والی مسلح جنگ کا حوالہ دیتے ہوئے پاک۔ امریکہ تعاون اور اس کے نتائج کا بھی ذکر کرتے ہوئے اس منطقی اور تاریخی حقیقت کا بالواسطہ ذکر بھی کیا کہ انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کا آغاز اور سرپرستی بھی عالمی طاقت امریکہ نے ہی کی تھی۔ جنرل باجوہ کے بیان کردہ یہ زمینی حقائق امریکہ اور بھارت سمیت ساری دنیا کے علم میں ہیں البتہ انہوں نے موجودہ تناظر میں اصولی اور مختلف پیرائے میں بیان کرتے ہوئے، عالمی ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوئے پاکستان کا رول اور ریکارڈ پیش کیا ہے لیکن عملی صورت حال یہ ہے کہ آج عالمی طاقت کے تبدیل شدہ مفادات کے باعث وہی اتحادی امریکہ پاکستان کو دہشت گردوں کی پناہ گاہ اور دیگر الزامات کا ذمہ دار قرار دے رہا ہے۔ ان تمام سالوں میں خاموش تماشائی بھارت اب امریکی اتحاد کا پارٹنر ہے اور پاکستان کسی صلے کی بجائے امریکی و بھارتی دبائو اور الزامات کا شکار ہے زمینی حقائق اور اصولی موقف کی اخلاقی اور تاریخی برتری اپنی جگہ، عالمی سیاست کی عملی دنیا میں رائج دہرے معیار کا یہ انداز بھی ایک تلخ حقیقت ہے۔ اس تناظر میں نہ کسی کو کشمیر و فلسطین کے غیر مسلح انسانوں پر مسلح فوجوں کے مظالم کی پروا ہے، نہ شام و عراق کے تباہ شدہ شہروں کی تہذیب اور انسانوں کی بربادی اور انسانی حقوق پر بات کرنے کی فرصت ہے۔ افریقہ کی غربت، ایشیا میں پسماندگی کو پس پشت ڈال کر طاقت کے ذریعے عالمی برتری کی دوڑ ایشیا میں بڑی جنگ کے تمام امکانات پیدا کرچکی ہے۔ افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں درست طورپر کہا ہے کہ امریکہ افغانستان میں محض چند ہزار طالبان کو شکست دینے کے لئے نہیں آرہا ہے بلکہ وہ اپنی مخالف طاقتوں (روس اور چین) کی روک تھام کے لئے آرہا ہے۔ امریکہ کے دو اہم ترین مخالف اس خطے میں ہیں اور ہم بھی یہاں ہیں۔ امریکی آئیں لیکن ہمیں بے وقوف نہ بنائیں۔ حامد کرزئی نے بھی عالمی سیاست کے اسی دہرے معیار، طاقتور کے مفادات اور افغانستان کے زمینی حقائق کو چند الفاظ میں واضح کردیا ہے۔
اب ذرا ان چند زمینی حقائق کا ذکر ہوجائے جوگزشتہ روز اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ کا حصہ ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق 2017ء میں گزشتہ سال کے مقابلے میں دہشت گردی کے واقعات میں افغان شہریوں کی اموات اور زخمی ہونے والوں کی تعداد میں 9فی صد کمی ہونے کے باوجود ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی تعداد10,453 رہی3,438 موت کا شکار ہوئے اور 7,015زخمی ہوئے۔ اگر دہشت گردی کے ان واقعات میں موت کا شکار ہونے والے دہشت گردوں کی گنتی نہ بھی کریں تب بھی ہلاک و زخمی ہونےوالے پرامن، بے گناہ او ر معصوم شہریوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے۔ افغانستان کی نیشنل سیکورٹی فورسز کی ہلاکتوں اور زخمیوں کی تعداد کا ریکارڈ اور اعداد و شمار نہیں دئیے جاتے۔ مرنے والے افغان شہریوں میں 359خواتین اور 861افغان بچوں کی اموات بھی شامل، اعداد و شمار ہیں۔ ظاہر ہے ان بے گناہ عورتوں اور بچوں کے انسانی حقوق، کا کہیں قطعاً کوئی ذکر و زور دیکھنے میں نہیں آیا البتہ عالمی طاقتوں کے مفادات کے تقاضوں نے خطے میں ایک نئی دوڑ کو جنم دے رکھا ہے کہ(1) افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد 8,500 سے بڑھ کر اب 14,000 ہوچکی ہے اور ابھی مزید 1000مسلح امریکی فوجی مزید بھیجے جائیں گے۔15000 جدید ترین ہتھیاروں سے مسلح امریکی فوجی عملی اعتبار سے ایک بڑی موثر فوجی طاقت کے حامل ہیں۔ بقول صدرٹرمپ یہ امریکی فوجی اب نئے جنگی رولز کے تحت افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہ بھی ایک عملی تلخ حقیقت ہے اور عالمی سیاست کے دہرے معیار کا کمال ہے کہ جس طرح ماضی میں افغانستان میں ایک لاکھ سے زائد مسلح امریکی فوج کی موجودگی اور ایک ارب ڈالرز ماہانہ اخراجات اور افغان حکومت و فوج کے مکمل تعاون کے باوجود امریکہ افغانستان میں دہشت گردی کا خاتمہ نہ کرسکا اور اب پاکستان کو مورد الزام ٹھہرا کر اس کو مطالبات اور دھمکیوں سے نوازا جارہا ہے۔ اسی طرح آئندہ بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اخلاقی موقف کو بیان کرتے ہوئے عملاً خطے میں چین اور روس جیسے عالمی حریفوں اور امریکیوں کی کشمکش کا اکھاڑہ جمانے کا عمل شروع ہے۔ اصولی موقف دہشت گردی کے خلاف جنگ، لیکن عملاً مقاصد کچھ اور ہیں۔
اس جنوبی ایشیا کے خطے کے زمینی حقائق تو یہ ہیں کہ پاکستان نے دہشت گردی کا موثر طور پر انسداد کیا ہے مگر عالمی سیاست کے مفادات اور دہرے معیارنے بھارت۔ امریکہ۔ اسرائیل اتحاد قائم کرکے اس خطےمیں مشرق وسطٰی اور سینٹرل ایشیا میں مقاصد حاصل کرنے کی ایک نئی دوڑ کو جنم دیدیا ہے اور خطے کے ممالک نہ چاہتے ہوئے بھی بہت سے ناپسند آپشنز اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان سعودی عرب میں اپنی فوج کی تعداد 1600 سے بڑھا کر 2600 کرنے پر آمادہ ہوگیا تو ایران نے بھارت کو اپنی بندرگاہ چا بہار کی لیز دے ڈالی۔ گوادر سے صرف 90کلومیٹر دور چابہارکی ایرانی بندرگاہ تک بھارتی دسترس سے قبل کلبھوشن یادو کی اس ایرانی علاقے میں موجودگی کے تناظر کوبھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کرنے اور بھارتی مفادات پورے کرنے کے لئے امریکہ اور اسرائیل کو ایرانی بندرگاہ کے بھارتی استعمال پر بھی کوئی اعتراض نہیں جبکہ پاکستان۔ ایران پائپ لائن پر پاکستانی حکومتوں پر ناراضی اور دبائو کے دروازے کھول دئیے گئے تھے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی ایرانی وفد کے آمنے سامنے ہونے پر ایران کو تازہ دھمکیاں سامنے ہیںاور صدرٹرمپ کے بیانات بھی ریکارڈ پر ہیں۔ مگر مشرق وسطٰی جنوبی ایشیا اور سینٹرل ایشیا میں عالمی طاقتوں کے مفادات کے لئے مستقبل کی تبدیلیوں کے لئے اصولی موقف اور ملکوں کے اپنے زمینی حقائق کوئی معنی نہیں رکھتے۔ عالمی طاقتوں کے مفادات سب پر فوقیت رکھتے ہیں البتہ اس کے لئے اگر کوئی اخلاقی یا اصولی ’’کور‘‘ مل جائے تو بہتر ہے… چھوٹے کمزور یا معاشرتی طور پر منتشر ممالک کی قربانی بھی کوئی نیا عمل نہیں۔ تاریخ میں بارہا ایسا ہوا ہے۔ یورپ میں جنگ عظیم کے وقت پولینڈ کی قربانی دے کر ہٹلر کو خوش کرنے اور روکنے کی ڈپلومیسی ریکارڈ پر ہے پاکستان کے اردگرد جو کچھ ہورہا ہے اسے دیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت اور ضرورت نہ ہماری حکومت کو ہے نہ ہی اپوزیشن کو۔ شادیوں کے شادیانے بجانے اور انتخابی جیت کے لئے منڈپ سجانے پر توجہ زیادہ ضروری ہے۔

تازہ ترین