• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اب نوازشریف کو عدالت عظمیٰ کے حکم پر نون لیگ کی صدارت سے بھی ہٹنا پڑا ہے اس کے بعد وہ چاہے اس کے قائد بن جائیں یا رہبر یا کوئی بھی ٹائٹل نہ رکھیں اور چاہے جیل میں ہوں یا جیل کے باہر پارٹی ان کے گرد ہی گھومتی رہے گی۔ اصل بات تو جماعت پر کنٹرول کی ہے نہ کہ اس کی صدارت یا اس کے کسی اور عہدے پر براجمان رہنے کی۔گزشتہ برس 28 جولائی کو جب انہیں سپریم کورٹ نے وزیراعظم کے عہدے سے ہٹا دیا تھا تو اس وقت وہ نون لیگ کے صدر بھی نہیں رہے تھے مگر پھر بھی وزیراعظم، شاہد خاقان عباسی، وہی بنا جس کا انہوں نے انتخاب کیا تھا۔ لہذا جماعت پر گرفت ہونے کا تعلق ان کے کسی پارٹی عہدے سے نہیں ہے بلکہ ایسے لیڈر کی اسٹینڈنگ ہے کیونکہ جماعت کا ہر رہنما اور کارکن ان کی بات کو ہی حتمی سمجھتا ہے۔ گزشتہ دو سال سے ساری توانائیاں اس بات پر صرف کی جارہی ہیں کہ کسی نہ کسی طرح نوازشریف کو سیاست سے مائنس کیا جائے مگر اس میں کامیابی نہیں ہو رہی تاہم پھر بھی ایسے عناصر ہار ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ جوں جوں وہ سابق وزیراعظم کو سیاسی طور پر دیوار کے ساتھ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں اتنا ہی نوازشریف کا سیاسی پروفائل بلند ہو رہا ہے۔ نااہلی کے فیصلے کی وجہ سے بھی ان کا کوئی سیاسی نقصان نہیں ہوا تھا بلکہ انہیں فائدہ ہی ہوا اور ان کا سیاسی قد کاٹھ بہت بڑھ گیا۔ وہ بطور ایک طاقتور لیڈر کے سامنے آئے ۔اس کے بعد لگاتار ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا رہا جس کی وجہ سے ان کے مخالفین کافی پریشان ہیں یہاں تک کہ اب تو عمران خان نے بھی کہہ دیا ہے کہ کمزور عدالتی فیصلے کی وجہ سے نوازشریف کو بہت فائدہ ہوا۔اس طرح کی بات کر کے چیئرمین پی ٹی آئی نے اپنی فرسٹریشن کا اظہار کیا ہے اور فیصلے پر بھی تنقید کی ہے۔ انہوں نے بھی بالآخر وہی بات کر دی جو کہ نون لیگ پہلے دن سے کہہ رہی ہے کہ اقامہ کو بہانہ بنا کر وزیراعظم کو ہٹادیا گیا جب ان کے خلاف کرپشن کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔
حالیہ فیصلہ نوازشریف کی بڑھتی ہوئی مشکلات کا سلسلہ ہی ہے جو کہ پچھلے سال پاناما پیپرز پر ہونے والےعدالتی عمل سے شروع ہوا تھا۔ آئندہ چند روز میں اب دو مزید عدالتی فیصلے بھی آنے والے ہیں جن میں سابق وزیراعظم کیلئے کوئی اچھی خبر نہ ہونے کی توقع ہے۔ عدالت عظمیٰ نے آرٹیکل 62 (1)(ایف) کے تحت نااہلی کی مدت کا تعین کرنے پر فیصلہ محفوظ کیا ہوا ہے جس میں یہ بات طے ہوگی کہ کیانااہلی صرف ایک وقت کیلئے ہے یا کہ ایک یا دو یا پانچ سال کیلئے ہے یا کہ پوری زندگی کیلئے ۔ دوسرا فیصلہ یا فیصلے اسلام آباد کی احتساب عدالت نے متوقع طور پر اگلے ماہ دینے ہیں جن میں یہ طے ہوگا کہ نوازشریف، ان کی بیٹی مریم اور ان کے داماد کیپٹن (ر) صفدر جیل جائیں گے یا کہ بری ہوں گے۔ عام خیال یہی ہے کہ انہیں قطعاً کوئی ریلیف نہیں ملے گا حالانکہ نیب کے کسی بھی گواہ نے کسی بھی ملزم پر کرپشن کا نہ تو کوئی الزا م لگایا ہے اور نہ ہی کوئی ثبوت پیش کیا ہے۔ اب تک 51 میں سے 31 گواہ اپنا بیان قلمبند کروا چکے ہیں۔ نیب نے جو سپلیمنٹری ریفرنس دائر کئے ہیں ان میں بھی کوئی نئی شہادت سامنے نہیں آئی بلکہ وہی پرانے الزامات جو پاناما جے آئی ٹی کی رپورٹ میں تھے کو ان میں ثبوت کے طور پر پیش کر دیا گیا ہے۔ تاہم نوازشریف کے مخالفین اب ساری توقعات احتساب عدالت کے فیصلے پر لگائے ہوئے ہیں کہ جونہی سابق وزیراعظم جیل جائیں گے تو نون لیگ تتر بتر ہو جائے گی، سیاسی میدان ان کیلئے خالی ہو جائے گا اور پھر موجیں ہی موجیں ہوں گی۔ ایسے تمام حضرات احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ پہلے بھی ان کا تجزیہ بالکل ایسا ہی تھا کہ جونہی نوازشریف کو سپریم کورٹ وزیراعظم کے عہدے سے ہٹائے گی ان کی سیاست کا اختتام ہو جائے گا۔ سابق وزیراعظم کے عوامی جلسوں میں عوام کی بڑھتی ہوئی شمولیت نے ان حضرات کے خواب چکنا چور کر دیئے ہیں اور اب تو نوازشریف کے سخت مخالف پرویز مشرف نے بھی کہہ دیا ہے کہ اگر حالات یہی رہے تو نون لیگ اس سال ہونے والے انتخابات جیت جائے گی۔ شاید ہی کوئی مبصر ہو جس کی یہ رائے نہ ہو کہ عدالتی فیصلوں نے نوازشریف کو صرف اور صرف فائدہ ہی پہنچایا ہے اور جتنی بھی سختیاں اور مشکلات ان کیلئے پیدا کی جائیں گی اتنے ہی زیادہ عوام نوازشریف کے حق میں ہوتے جائیں گے۔ حالیہ فیصلے پر عمران خان بغلیں بجا رہے ہیں کہ عدالت عظمیٰ نے نوازشریف کو نون لیگ کی صدارت سے ہٹا دیا ہے اور وہ جشن منانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے ہمیشہ ان کا رد عمل بغیر سوچے سمجھے ہوتا ہے اسی طرح کا ری ایکشن انہوں نے 28 جولائی کے فیصلے پر بھی دیا تھا اور اب اس پر پچھتا رہے ہیں۔
عدالت عظمیٰ کے موجودہ فیصلے نے نوازشریف کے بیانیے کو بہت تقویت دی ہے۔ یہ بیانیہ انہوں نے اپنی نااہلی کے بعد دینا شروع کیا تھا جس میں ان کا کہنا ہے کہ ووٹ کا تقدس ہونا چاہئے ،کیوں کسی بھی وزیراعظم کو کبھی بھی اپنی مدت پوری کرنے نہیں دی گئی، عدالتیں کیوں آمروں کے مارشل لائوں کی توثیق کرتی ہیں اور جج صاحبان ان کے پی سی او کے تحت حلف اٹھاتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ان کے اس بیانیے کی عوام میں بڑی پذیرائی ہوئی ہے اور اسی کو لے کروہ اگلے انتخابات میں بھی جارہے ہیں اور ساتھ ساتھ اپنے ساڑھے چار سال کی حکومتی کارکردگی کو بھی اجاگر کر رہے ہیں۔ دوسری طرف ان کے مخالفین کے پاس سوائے گالی گلوچ اور الزامات کے کچھ نہیں ہے۔ کچھ روز قبل ہی سابق وزیراعظم نے کہہ دیا تھا کہ اب عدالت انہیں جماعت کی صدارت سے بھی ہٹا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پارلیمان کو قانون سازی کا حق ہے اور اس کا یہ حق عدلیہ کے ماتحت نہیں ہونا چاہئے ورنہ آئین کی پاسداری نہیں ہوگی۔ انہوں نے عدلیہ کے کسی بھی قانون کو ختم کرنے کے اختیار کو بھی چیلنج کیا تھا۔ عدالت عظمیٰ کے موجودہ فیصلے میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ الیکشن ایکٹ 2017ء کے سیکشن 203 جس کے تحت نوازشریف نااہلی کے باوجود پارٹی کے صدر بنے تھے کو ختم نہیں کیا گیا بلکہ اس کی تشریح کچھ اس طرح کی گئی ہے کہ اس کلاز کو آئین کے آرٹیکلز 62 اور 63 کی روشنی میں پرکھا جائے گا۔ تاہم عدالت کو چاہئے تھا کہ وہ اپنے مختصر فیصلے میں غیر مبہم انداز میں لکھ دیتی کہ اب نون لیگ کے سینیٹ کے امیدوار جن کو نوازشریف نے بطور صدر ٹکٹ جاری کئے تھے کا کیا اسٹیٹس ہوگا ،کیا ان کے کاغذات نامزدگی جو کہ قانون کے تمام مراحل طے کر کے جائز قرار دیئے گئے ہیں قانونی ہیں یا غیر قانونی ہیں،کیا وہ اب آزاد امیدوار تصور کئے جائیں گے یا کیا ان کے کاغذات تو صحیح ہیں مگر انہیں نون لیگ کے نئے صدر سے ٹکٹ جاری کروانا پڑے گا۔ اسی طرح فیصلے میں یہ بات بھی واضح ہونی چاہئے تھی کہ لاہور، چکوال اور لودھراں جہاں نون لیگ کے امیدوار جنہیں نوازشریف نے ٹکٹ جاری کئے تھے اور جو ضمنی انتخاب جیت گئے تھے کی قانونی حیثیت کیا ہے۔ کیا اب ان حلقوں میں دوبارہ ضمنی انتخاب ہوگا۔

تازہ ترین