• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سال تھا 2007او رتار یخ تھی 27دسمبر۔کراچی کے ایک مشہور اسٹو ڈیومیں نصب ایک سیاسی کوئز شوکے سیٹ پر ریکارڈنگ کے وقفے کے دوران سیاست ، میڈیا، انسانی حقوق، قانون، صحافت اور تعلیم کے شعبوں سے تعلق رکھنے والی ملک کی چند نامی گرامی شخصیات کو کافی پیش کی جارہی تھی۔ سیٹ کے ایک جانب لگے روسٹرز پر عاصمہ جہانگیر ، نسیم زہرہ، شفقت محمود اوراسد عمر گفتگو میں مصروف تھے؛ یہ سب اِس شو میں ایک دو سرے کے مد مقابل تھے ۔ کوئز کے ضابطوں کے تحت ، اِن میں جیتنے والے کو ملک کا وزیر اعظم فرض کیا جانا تھا۔ دوسری جانب نصب ججز کے پینل پر قاضی فیض عیسی ، ظفر عباس ، طاہرہ عبداللہ، کامران شفیع اور عائشہ جلال مقابلے کی تازہ ترین صورتحال پر سرگوشیوں میں مصروف تھے ۔ شو کے میزبان حمید ہارون سیٹ پر موجود اظہرعباس سے محوگفتگو تھے اور ساتھ ہی ساتھ اپنے پینل پر بکھرے ہوئے کاغذات کا جائزہ لیتے جا رہے تھے ۔
وقفہ ختم ہوا چاہتا تھا اور بحیثیت پروڈیوسر میں نے کنٹرول روم میں موجود تمام اسٹافرز کو فونز بند کرنے کا اشارہ کرتے ہی محسوس کیا کہ ایک کیمرا مین کو کوئی پریشانی لاحق ہے ۔ سیڑھیا ں اتر کر میں کیمرا مین کی جانب بڑھ ہی رہا تھا کہ اَظہر عبا س فون پر کسی سے بات کرتے ہوئے کچھ پریشانی کے عالم میں تیزی سے اسٹوڈیو سے باہر چلے گئے۔ چند لمحوں بعد ظفر عباس نے بے نظیر بھٹو کے زخمی ہونے کی اطلاع دی ۔ سیٹ پر خاموشی طاری ہوگئی اور اب مجھ سمیت ہر شخص ظفر عباس کے چہرے کے تاثرات پڑھنے کی کوشش کررہا تھا۔ تھوڑے وقفے کے بعد ایک بار پھر اِن کے فون کی گھنٹی بجنا شروع ہوگئی ۔انہوں نے فون اٹھا یا، کسی سے انتہائی مختصر بات کی اور پھر کسی کی جانب دیکھے بغیر بجھے ہوئے چہرے کے ساتھ آہستہ سے کوئی بات کہی۔ اگلے ہی لمحے عاصمہ جہانگیر بے اختیا ر رونا شروع ہوگئیں ۔ پلٹ کر دیکھا تو نسیم زہرہ بھی غم سے نڈھال تھیں۔یوں چند لمحوں کے اندر اندر رنگ و نور سے سجا یہ بارونق سیٹ گویاماتم کدہ بن گیا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے بہادر اور مضبوط عاصمہ جہانگیر کو سنبھلنے کی بھرپور کوشش کرتے دیکھا،اگرچہ اُس لمحے یہ ممکن نہ تھا۔
عاصمہ جہانگیرکو اُس وقت تک کوئز میں نمایاں حیثیت حاصل تھی ۔اُس وقت کم و بیش واضح ہوگیا تھا کہ مقابلے کا گرا نڈ فنالےGrand Finale) عاصمہ جہانگیر اور اسد عمر کے درمیان ہوگااور یہ سب کچھ جاننے کے باوجود صدمے سے نڈھال عاصمہ نے مقابلے سے دستبرداری کا فیصلہ کیا ۔ یوں عاصمہ سمیت کراچی کے باہرسے آنے والے مہمانوں کی واپسی کا بندوبست شروع کردیا گیا۔لیکن کوئی دو ماہ بعد کچھ حالات بدلے تو عاصمہ جہانگیر اور دیگر شرکا کی رضامندی سے پروگرام کی باقی ماندہ ریکارڈنگ مکمل کرلی گئی۔ عاصمہ کی کامیابی پر ہمارے تجزیات غلط ثابت نہیں ہوئے۔ دنیا کوعلم ہے کہ عاصمہ جہانگیر کی زندگی کا بیشتر حصہ ملک کے بے یارو مدد گار لوگوں کی خدمت میں گزراہے۔ اگرچہ وہ ایک نامور ماہر قانون تھیں لیکن خواتین اور بنیادی حقوق سے محروم طبقے کی رضاکارانہ رہ نمائی اور مدد آخری سانس تک اِن کی ترجیح رہی ۔ اِن کی جدوجہد کو انسانی حقوق کے حوالے سے ملک میں عوامی شعور کی بیداری کا بنیادی سبب قرار دیا جاتا ہے ۔ سچ ہے کہ اِن کی موت کی خبر سنتے ہی بے باکی سے سوچنے ، بولنے اور لکھنے والے چند انقلابیوں پر چند لمحات کے لئے احساس عدم تحفظ طاری ہوگیا تھا ۔اِن کی زندگی بلا شبہ سیاسی طور پر درست افراد کے لئے ڈھارس کا بڑا سبب تھی۔ عاصمہ جہانگیرکے خلاف بارہا فتوے جاری ہوئے ۔ انسانی حقوق اور مساوات کے لئے ان کی جدوجہد پر اُنہیں ملک دشمن قرار دیا جاتا رہا ۔ لیکن وہ اپنے موقف پر کاربند رہیں ۔خاص بات یہ کہ ان کی وفات پر ان کے نظریاتی مخالفین زیادہ کچھ نہ بول سکے ۔اِس کی بنیادی وجہ شایدو ہ تصویر ہے جس میں عاصمہ جہانگیرسابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد کی صاحب زادی ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی کے ساتھ کھڑی نظر آرہی ہیں ۔ ڈاکٹر سمیحہ نے یہ تصویر عاصمہ جہانگیر کی وفات کے بعد سوشل میڈیا پر جاری کردی تھی ورنہ شاید آج اِن کی آخرت پر بھی تجزئیے ہورہے ہوتے۔ البتہ ایک خبر نے چند حلقوں میں کسی حد تک بے چینی پید ا کردی تھی کہ ان کی نماز جنازہ سید حیدرفاروق مودودی پڑھائیں گے ۔ خاص طور پر سوشل میڈیا پر سرگرم کچھ مبصرین نے ابتدا میں اس خبر پر حیرانی کا اظہار کیا، کسی نے خبر کی صداقت پر سوال اٹھائے اور چند نے اس معاملے کو بھی متنازع بنانے کی کوشش کی۔ لیکن حیرت کا اظہار کرنے والوں کے لئے یہ حقیقت اور زیادہ حیرت انگریز ہو گی کہ ڈاکٹر عاصمہ جہانگیر کا نکاح سید حیدر فاروق مودودی کے والد ، جماعت اسلامی پاکستان کے بانی اور شہرہ آفاق اسلامی اسکالر مولانا سید ابوالاعلی مودودی نے پڑھا یا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ اِس حقیقت کو بھی کسی طرح متنازع بنانے کی کوشش کی جائے لیکن سیدصاحب جیسے جید عالم سے متعلق کسی بھی حقیقت کو جھٹلا نا کوئی آسان کام نہیں ۔اِس تناظر میں یہاں مزید ایک نا قابل یقین قصہ پیش کر نا ضروری ہے ۔
عاصمہ جہانگیر نے حقوق اور جمہوریت کے لئے اپنی عملی زندگی کا آغاز 1968میں ایوب خان کے خلاف ایک جلوس کے انعقاد سے کیاتھا ۔ کہتے ہیں کہ جلوس کی منصوبہ بندی میں ممتاز دولتانہ کی صاحبزادی شاہدہ دولتانہ اور عارف نظامی کی ہمشیرہ سائرہ نظامی بھی آگے آگے تھیں۔ اگرچہ انہوں نے اس مقصد کے لئے درکار بینرز اور پوسٹرز کی عبارات تحریر کرلی تھیں لیکن اُنہیں یہ علم نہیں تھا کہ یہ بینرز اور پوسٹرز کیسے اور کہاں پرنٹ ہوں گے۔ ساتھ ہی ساتھ انہیں جلوس کے روٹ پر بھی رہ نمائی درکارتھی۔ لہذا عاصمہ جہانگیر سیدھی منصورہ جا پہنچیں جہاں انہوں نے مولانا مودودی سے ملاقات کرکے اپنی پریشانی بیان کی۔ مولانا نے اِن سے بینرز اور پوسٹرز کا تحریری مواد لیکر جلوس کے روٹ پر بھر پور رہ نمائی کی ۔ عینی شاہدین کے مطابق جلوس کے دن تمام بینرز اور پوسٹرز صحیح وقت پر ا یک ٹانگے میں عاصمہ جہانگیر تک پہنچا دئیے گئے ۔ یوں انہوں نے ایوب آمریت کے خلاف یہ کامیاب جلوس نکال کرانسانی حقوق اور جمہوریت کے لئے اپنی کامیاب جد وجہد کا آغاز کیا ۔
سید صاحب کے ہاتھوں عاصمہ جہانگیر کا نکاح اور ان کی زندگی کے پہلے احتجاجی جلوس کی کامیابی اَگر اب بھی کسی کی نظر میں متنازع معاملات ہیں تو اس سلسلے میں دستیاب شواہد معائنے کے لئے ہر وقت تیار ہیں۔ خدا ہر بے بس ولاچار کی مدد کے لئے ہر وقت حاضر رہنے والی عاصمہ جہانگیر اور مثالی رواداری کے امین مولانا ابوالاعلی مودودی کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے ، آمین۔

تازہ ترین