آرمی پبلک ا سکول کے روح فرسا واقعہ کے ایک سال بعد چار سدہ حملے کے غم سے پوری پاکستانی قوم ابھی تک نکل نہیں پائی۔پاک فوج کے ترجمان جنرل عاصم باجوہ کے مطابق حملہ افغانستان سے ہی کنٹرول ہوا۔حملہ آوروں کے پاس افغان سمیں موجود تھیں اور انہیں مسلسل افغانستان سے ہدایات مل رہی تھیں۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنے ٹھوس شواہد ہونے کے باوجود افغان حکومت دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کررہی؟حالانکہ چار سدہ حملے کے متعلق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ٹھوس ثبوتوں کی بناء پرافغان صدر اشرف غنی کوٹیلی فون پر آگاہ کیا کہ آرمی پبلک اسکول کی طرح چارسدہ حملے میں بھی افغان سرزمین استعمال ہوئی ہے۔مقام افسوس ہے کہ افغان صدارتی محل سے جاری ہونے والے بیان میں چار سدہ حملےمیں افغانستان سے مداخلت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیاگیا ہے۔افغان حکومت کے اس نارواطرز عمل سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ افغان حکام اور امریکہ دونوں کویہ علم ہے کہ پاکستان میں ہونیوالی دہشت گردی میں دہشت گردوں کوکون اسلحہ،پیسہ اور تربیت فراہم کررہاہے مگر اس کے باوجود ان تخریب کار عناصر کیخلاف ایکشن نہیں لیاجارہا۔لمحہ فکریہ یہ ہے کہ افغانستان کے ساتھ پاکستانی سرحدی علاقوں پر تو امریکہ ڈرون حملے جاری رکھے ہوئے ہےلیکن افغانستان میں جہاں دہشت گرد موجود ہیں وہاں امریکہ ڈرون حملے دانستہ طور پر نہیں کررہا ۔یوں لگتاہے کہ جیسے افغانستان،امریکہ اور بھارت تینوں نے پاکستان کومستقل طور پرعدم استحکام کاشکاررکھنے کیلئے یہ سارااسٹیج ڈرامہ تیارکیا ہے۔امریکی صدر اوباما نے چند روز قبل اپنے خطاب میں کہا تھاکہ پاکستان اور افغانستان کئی دہائیوں تک عدم استحکام میں مبتلارہیں گے۔اب انہوں نے اپنے حالیہ انٹرویومیں پھرہماری حکومت سے ’’ڈومور ــ‘‘کامطالبہ کردیا ہے کہ پاکستان دہشتگردوں کانیٹ ورک ختم کرنے میں سنجیدگی دکھا ئے۔واقفان حال کاکہنا ہے کہ امریکہ خود تو چودہ سال تک افغانستان میں امن قائم نہیں کرسکا اب وہ اپنی ناکامیوں کابدلہ لینے کیلئے اپنی لگائی اس آگ میں پاکستان کودھکیلنا چاہتاہے۔امریکی پالیسی سازوں نے افغانستان اور بھارت کے ساتھ ملکر پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کردیا ہے۔پٹھان کوٹ کے حملے میں سچائی سامنے آرہی ہے کہ اس واقعہ میں بھارت کے اپنے ہی شہری ملوث تھے۔اسی طرح چار سدہ حملے میں بھی افغان سرزمین استعمال کی گئی ہے مگر افغان حکومت اس کو ماننے سے انکار کررہی ہے۔اسی تناظر میں وزیراعظم نوازشریف نے بلاشبہ درست توجہ دلائی ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پرعملدرآمد میں تیزی لاناہوگی۔اس وقت کراچی،بلوچستان اور قبائلی علاقوںمیں90فیصد دہشتگردی کاخاتمہ کیا جاچکا ہے۔کراچی میں بھتہ خوری،ٹارگٹ کلنگ اور بوری بند لاشوں پرقابوپالیا گیا ہے۔بلوچستان میں بھی حالات دن بدن معمول پر آرہے ہیں۔اسی طرح قبائلی علاقوں میں آئی ڈی پیز کی واپسی کاعمل بھی جاری ہے۔ پختونخوا اپیکس کمیٹی کے حالیہ اجلاس میں بھی چار سدہ حملے کی جامع تحقیقات کافیصلہ کیا گیا ہے۔افغان سموں کے معاملے کی بھی تحقیقات کی جارہی ہیں۔افغان بارڈر پرسگنلز کے بارے میںبھی افغان حکومت سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔پاکستان نے اگست 2014ءمیں دفتر خارجہ کے ذریعے افغان حکام سے رابطہ کیا تھا لیکن بار بار کی یقین دہانی کے باوجود اس اہم معاملے پرکوئی کارروائی نہیں کی گئی۔بھارت سے دوستی اچھی بات ہے مگر جموں وکشمیر کی قیمت پر یہ دوستی قابل قبول نہیں ہوسکتی۔اگر واقعی بھارت پاکستان سے اچھے تعلقات کاخواہاں ہے تو اسے افغانستان سے اپنی خفیہ تنظیم ’’را‘‘کے دہشت گردی کے نیٹ ورک کوختم کرنا ہوگا۔افغان انٹیلی جنس کے بھارتیوں کے ساتھ روابط اور مشترکہ ایجنڈا کسی سے ڈھکاچھپا نہیں ہے۔بھارت پاکستان کودبائومیں رکھنے کیلئےاسےمشرقی ومغربی بارڈر پر الجھائے رکھنا چاہتا ہے۔گزشتہ سالوں میں اس نے ایران سے بھی اپنے تعلقات کوخاصامضبوط کیا ہے۔ایرانی علاقے چاہ بہار اور اس سے افغانستان کوملنے والی سڑکوں پربھارت نے اربوں ڈالرکی سرمایہ کاری کی ہے۔وہ گوادر پورٹ کوکسی بھی صورت میں کامیاب نہیں ہونے دینا چاہتا۔حیران کن امر یہ ہے کہ بھارت میں80کروڑ سے زائد انسانوں کودووقت کی روٹی نصیب نہیں اور وہ ایران اور افغانستان میں بھاری سرمایہ کاری کررہا ہے؟۔پاک چین اقتصادی راہداری،ایران گیس پائپ لائن معاہدہ اور گوادرپورٹ کے منصوبوں نے بھارت کی نیندیں حرام کردی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ افغانستان اور ایران پر اپنی نوازشات کررہا ہے۔پاکستان کی سول وعسکری قیادت نے2016ء کو دہشتگردی کے خاتمے کاسال قراردیا ہے۔انشاء اللہ سال رواںمیں قانون نافذ کرنے والے اداروںکی کاوشوں سے پاکستان بیرونی طاقتوں کے دہشت گردی کے نیٹ ورک کوجڑ سے اکھاڑ دے گا۔اب اس کیلئے از حد ضروری ہے کہ پاکستان کے18کروڑ عوام اپنے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی پشت پر کھڑے ہو جائیں۔ 20نکاتی نیشنل ایکشن پلان تیرہ ماہ پہلے بنایا گیا تھا اس پر عملدرآمد کوتیزکرنا وقت کااہم تقاضا ہے۔نیشنل ایکشن پلان کے جن نکات پردینی وسیاسی جماعتوں کوتحفظات تھے ان کو بھی دورکرنا چاہئے۔حکومت کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ وہ قومی ایکشن پلان پرپارلیمنٹ اور تمام سیاسی جماعتوں کواعتماد میں لے ۔دینی مدارس کے خلاف یلغار بھی اب رکنی چاہئے۔قومی لائحہ عمل کایہ مطلب نہیں ہے کہ اس کی آڑ میں دینی جماعتوں اور مدارس کیخلاف کارروائیاں کی جائیں۔دینی مدارس اسلام کے مراکز ہیں۔وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے بارہایہ بات کہی ہے کہ تمام دینی مدارس پردہشتگردی کالیبل نہیں لگایا جاسکتا۔اگر کہیں خرابی موجود ہے تووہ دورکرنی چاہئے۔پاکستان میں دہشت گردی کے عفریت پرقابوپانے کیلئے حکومت اور فوج ایک پیج پرہے۔نیشنل ایکشن پلان کے بعض نکات پر اگر سست روی ہے تو اس کی ذمہ دار حکومت ہے۔اس وقت کراچی میں بھی یہ دکھائی دے رہا ہے کہ رینجرز نے توبڑے پیمانے پرٹارگٹ کلرزاور جرائم پیشہ افراد کوگرفتار کیا ہے مگر حکومت پراسیکیوشن کے عمل میں مجرمانہ غفلت اور نااہلی کامظاہرہ کررہی ہے جس کانتیجہ یہ نکلا ہے کہ بڑے خطرناک ملزم ضمانتوں پررہاہوتے جارہے ہیں۔ان معاملات کی تمام ترذمہ داری وفاقی اور صوبائی حکومت دونوں پرعائد ہوتی ہے۔المیہ یہ ہے کہ ٹارگٹ کلرز کوتوکراچی میں گرفتار کرلیا جاتا ہے مگر انکے سرپرستوںپردانستہ ہاتھ نہیں ڈالاجارہا ہے؟رینجرز اس مسئلے میں سندھ حکومت کوقصور وار گردانتی ہے۔رینجرز آپریشن سے کراچی میں امن قائم ہوا۔اب اس آپریشن کومنطقی انجام تک نہ پہنچایاگیاتو پھر خدانخواستہ ٹارگٹ کلنگ،بوری بندلاشوں کاکلچر دوبارہ واپس آسکتا ہے۔سندھ حکومت کی تین سالہ کارکردگی مجموعی طور پرمایوس کن دکھائی دے رہی ہے۔اب تک رواں ماہ کے دوران تھر میں100سے زائد بچوں کی ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔سندھ حکومت کو کراچی میں رینجرز کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے کی بجائے تھر میں غذائی قلت اور بیماری کے باعث بچوں کی اموات کے بارے میںفوری نوٹس لینا چاہئےاوروزیراعلیٰ سندھ کواپنی اس ناکامی کااعتراف کرتے ہوئے فی الفور مستعفی ہوجانا چاہئے۔سندھ حکومت کو تو صرف ایک ہی پریشانی ہے کہ کسی طریقے سے ڈاکٹر عاصم حسین کورہاکرواکردبئی پہنچایا جائے۔سندھ اسمبلی نے کریمنل ایکٹ میں حالیہ تبدیلی بھی اس حوالے سے کی ہے۔یہ ملکی وقومی مفاد میں ہرگزنہیں ہے۔اگر ڈاکٹر عاصم حسین قصور وار نہیں ہیں تو انہیں عدالتوں سے انصاف مل جائے گا لیکن اگر انہوں نے قومی خزانے سے لوٹ کھسوٹ کی ہے تو ان کااحتساب ہونا چاہئے۔پیپلزپارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں کو دہشتگردی اور کرپشن کیخلاف آپریشن کی حمایت کرنی چاہئے۔وفاقی حکومت کوبھی امن وامان کے قیام کواپنی ترجیح اول بنانی چاہئے۔اگر اورنج ٹرین اور میٹروبسوں کوہی فوقیت دی جاتی رہی توملک میں امن کے قیام کی منزل دور ہوجائے گی۔