• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان نے 21 فروری 2018ء کو عالمی جوہری توانائی کمیشن (IAEC) کے نئے رہنما اصولوں کو قبول کیا اور ان پر عمل درآمد کرنے کی یقین دہانی کرا دی ۔ واضح رہے کہ عالمی جوہری توانائی کمیشن دُنیا بھر میں جوہری سرگرمیوں پر نظر رکھنے والا ادارہ ہے، وہ دُنیا کے ایٹمی ممالک سے رابطے میں رہتا ہے اور کہیں کوئی خطرہ یا کسی قسم کاخدشہ محسوس کرتا ہے تو اس کے لئے وہ رہنما اصول پیش کرتا ہے، پاکستان نے اُس کے بنائے ہوئے سارے رہنما اصولوں کو صدقِ دل سے قبول کیا ہوا ہے، اس نے حرارتی شعاعوں کی حفاظت اور تحفظ کے لئے جو اصول بنائے اُس کو جب پاکستان نے قبول کیا تو اس نے باقاعدہ ایک اعلامیے کے ذریعے دنیا بھر کی ایٹمی طاقتوں کو اطلاع دی کہ پاکستان اُس کے نئے وضع کردہ قواعد و ضوابط کو قبول کرنے پر رضامند ہوگیا ہے کہ وہ ایٹمی مواد یا حرارتی شعاعی مواد کے معاملے میں اُن تحفظات کو ملحوظِ خاطر رکھے گا جو عالمی جوہری توانائی کمیشن نے حال ہی میں وضع کئے ہیں، اگرچہ قانوناً کوئی ملک ایسے قواعد و ضوابط کو قبول کرنے پر مجبور نہیں ہے تاہم اس کے قبول کرنے سے یہ تاثر جاتا ہے کہ پاکستان ایک ذمہ دار جوہری ملک ہے اور یہ کہ ہر وقت عالمی جوہری توانائی کمیشن سے رابطے میں رہتا ہے اور اس کے وضع کردہ اصولوں پر عمل کرتا ہے جس سے وہ تاثر زائل ہوجاتا ہے کہ پاکستان کسی طور پر بھی جوہری پھیلائو یا جوہری مواد کے متعلق کسی قانون سے صرفِ نظر کرکے کوئی اور کام کررہا ہے جس کی وجہ سے عالمی جوہری توانائی کمیشن اور پاکستان کے درمیان تعاون مثالی بن گیا ہے۔ پاکستان کے تمام ایٹمی ری ایکٹر یا تعامل کار اس ادارے کے معائنہ کے لئے ہمہ وقت دستیاب ہیں، اُن کے ایٹمی بجلی گھروں میں باقاعدہ کیمرے لگے ہوئے ہیں جو یورینیم بجلی گھروں میں استعمال ہوتی ہے اور اُس کا فضلہ جو نکل کر آتا ہے وہ پلوٹونیم اور دیگر خطرناک کاموں کے لئے استعمال ہوسکتا ہے وہاں پر عالمی جوہری توانائی کمیشن کے کیمرے لگے ہوئے ہیں اور تابکاری کے اثرات وہاں بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ کینپ جو پاکستان کا پہلا سرکس قسم کا ایٹمی ری ایکٹر ہے ،جو کینیڈا نے پاکستان کو فراہم کیا تھا اور 1998کے بعد اس نے پاکستان کو یورینیم کی فراہمی سے لے کر ہر قسم کا تعاون ختم کردیا تھا تو پاکستان نے کچھ روز بند رکھنے کے بعد نہ صرف اُس کو چلایا بلکہ اس کے پرانے پرزہ جات کو بھی پاکستان میں ڈیزائن کیا۔ پچھلے سال جب ہم اس کے دورے پر گئے تھے تو وہاں ہم کو ایک خاص لباس پہنایا گیا تھا اور ایسے دروازے سے گزارا گیا تھا کہ ہمارے اندر کتنی حرارتی شعاع یا تابکاری کے اثرات ہیں اور جب اُس کو دیکھ کر واپس آئے تو پھر اسی خصوصی گیٹ سے گزارا گیا، یہ اطمینان ہوا کہ تابکاری کے اثرات نہیں ہیں تو ہمیں باہر نکلنے دیا گیا ورنہ وہاں اس وقت تک کے لئے روک لئے جاتے جب تک وہ تابکاری کے اثرات ختم نہ ہوجاتے، کیونکہ کینپ کینیڈا کی پابندی کے بعد خود بنایا تھا اور مئی 1998ء کے بعد عالمی پابندیاں لگ جانے کے بعد ہم عالمی جوہری توانائی کمیشن سے تعاون ختم کرنے کے مجاز تھے تاہم بطور اچھے اور ذمہ دار جوہری ملک کے ہم نے ایسا نہیں کیا جس کو آج بھی یہ ادارہ سراہتا ہے۔ اس طرح پاکستان نے اب بھی بلاتامل اس کمیشن کے نئے قوانین و ضوابط کو من و عن قبول کرلیا جو ہماری تعریفی اسناد میں اضافے کا باعث بنا اور ہماری نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی ممبر شپ کے حصول میں بھی ممدومعاون ثابت ہوگا۔ پاکستانی وزارتِ خارجہ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا کمیشن کے نئے قوانین و ضوابط کو ماننا پاکستان کے جوہری عدم پھیلائو کے عزم کو تقویت پہنچاتا ہے، جوہری تحفظ کے حوالے سے پاکستان کا تعاون 2005 سے جاری ہے اور پاکستان نے جب سے آج تک اس کمیشن کی ہر سفارش کو خوشی سے قبول کیا ہے۔ یہ تعلقات دیرینہ ہیں اور ہمارے کئی بڑے سائنسدان اس کمیشن کے اہم عہدوں پر فائز رہے، ڈاکٹر انصر پرویز بھی اُن لوگوں میں شامل ہیں جو اس ادارے کے عہدیدار بنے۔ ویسے بھی پاکستان نے 1998کے بعد جو رویہ اختیار کیا اِس سے اس کے ذمہ دار جوہری ملک ہونے کا تاثر اجاگر ہوتا ہے۔ پاکستان نے ایٹمی عدم پھیلائو اور تخفیف اسلحہ کے مقاصد کے حصول میں اپنے آپ کو پابند کر رکھا ہے ، اسی لئے اُن کے عالمی امن کے معاملے میں کسی قسم کی پیش قدمی، انتظامات میں شامل ہوتا ہے اور اپنا حصہ ڈالتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ عام تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں اور اُن کے استعمال کرنے والے آلات، جوہری تحفظ اور سلامتی کے سدباب میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے۔ پاکستان نے یہ عہد بھی کیا ہوا ہے کہ وہ کسی بھی ملک کو ایٹمی ہتھیار فراہم نہیں کرے گا اور نہ ہی کسی کی مدد کرے گا کہ وہ ایٹمی اسلحہ بناتاہے جو ایٹمی عدم پھیلائو معاہدوں کی روح اور اُس کی شق نمبر 1 کے عین مطابق ہو۔ پھر پاکستان ایٹمی عدم پھیلائو کے معاہدےکی شق نمبر 2 کے مطابق پاکستانی پالیسی اور رہنما اصول اسٹرٹیجک ایکسپورٹ کرنے کے بارے میں تمام مطلقہ مواد جس ملک کو فراہم کئے جارہے ہوں اُن کو اس معاہدےکے رہنما اصولوں کے عین مطابق فراہم کرنے کا پابند ہے۔ اس سلسلے میں اس معاہدے کے تمام مربوط تحفظات کا خیال رکھتا ہے جو کسی بھی ایٹمی عدم پھیلائو کے دستخط کنندہ ملک پر لازم ہیں۔ جس کے یہ معنی ہوئے کہ پاکستان ایٹمی عدم پھیلائو کے معاہدے پر دستخط کنندہ ممالک کی طرح معاہدےپر عمل درآمد کرتا ہے، اس طرح اُس کی نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی ممبر شپ کے حصول میں سیاسی رکاوٹوں کے علاوہ کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہ جاتی۔ پاکستان مستقل طور پر ایٹم بم سے پاک دنیا کے مقصد کے حصول میں دوسرے ملکوں کی طرح کوشاں نظر آتا ہے، جو تخفیف ِاسلحہ کے حوالے سے ہے۔ اس طرح پاکستان کو نظرانداز کرنا کسی کے بھی بس میں نہیں ہے سوائے اس کے کوئی صرف امتیازی اور تعصب کو بروئے کار لانے کا ارادہ رکھتا ہو۔ اب 21 فروری 2018ء کے عالمی جوہری توانائی کمیشن (IAEC) کا اعلامیہ اس بات کا بین ثبوت ہے کیونکہ اس سے درآمد اور برآمد کرنے والے دونوں ممالک کو مدد ملتی ہے کہ ایسے مواد جس کے پھیلنے سے انسانوں کو نقصان پہنچے اس سے بچا جائے۔ اس لئے IAEC یعنی عالمی جوہری توانائی ایجنسی نے ایٹمی مواد یا حرارتی شعاعوں کو تابکاری کے پھیلائو کا سبب بننے میں اُن کی منتقلی کے لئے اضافی اقدامات تجویز کئے ہیں۔ پاکستان کیونکہ ایک محفوظ، تحفظاتی اور پُرامن جوہری پروگرام کا حامل ملک ہے اس کا مظاہرہ اس نے دو عشروں سے انتہائی کامیابی سے کیا ہے، اسی لئے دنیا کا ہر انصاف پسند شخص، ملک یا ماہر پاکستان کو سراہے بغیر نہیں رہ سکتا، جیسا کہ کراچی میں ہونے والے ایک عالمی جوہری توانائی کمیشن سے تعلق رکھنے والی خاتون انیتا نیلسن نے درست فرمایا کہ پاکستان اس معاملے میں انتہائی خوش قسمت ہے کہ اس کے کسی ایٹمی بجلی گھر میں کوئی حادثہ رونما نہیں ہوا۔یہ تعریفی کلمات ایک غیرملکی ماہر خاتون سے ادا ہونا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ پاکستان کا جوہری پروگرام محفوظ ہے اوروہ ایک ذمہ دار جوہری طاقت بھی ہے۔

تازہ ترین