• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ ہفتے پیرس میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے اجلاس سے حاصل ہونے والے اسباق بہت واضح ہیں۔ ان میں کوئی ابہام نہیں۔ پہلا سبق یہ کہ انسداد ِدہشت گردی کے محاذکی سرکاری خبریں جو ہم اپنے عوام کے کانوں میں انڈیلتے رہتے ہیں، وہ ہم دنیا کو نہیں بتا سکتے ۔ عالمی فورمز پر کوئی ہماراموقف تسلیم نہیں کرتا۔ اسٹیبلشمنٹ حقیقی اور کھلی بحث کی اجازت دینے کے لئے تیار نہیں۔ تنقیدی جائزہ لینے والی آوازوں کو خاموش کرادیا جاتا ہے۔ یہ سوال بھی برداشت نہیں کہ ہم نے دنیا کی تشویش رفع کرنے کے لئے کیا کیا؟ تو پھر اس پر حیرت کیوں کہ ہماری مخلصانہ درخواست پر غور نہیں کیا گیا؟ سیاست دانوں سے منظم دہشت گردی کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات کی تعریف کرالی جاتی ہے ۔ ناقدانہ جائزہ لینے والوں کی سرکوبی کے لئے میڈیا کے کچھ زرخرید جنگجو موجود۔ وہ اپنے ایک ایک لفظ کی قیمت وصول کرتے ہیں۔ اور اُن کے ہوتے ہوئے سچائی کے متلاشیوں کو اپنی جسارت کی بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے۔
خوف اور خاموشی کے پہرے ملک میں عظمت کا تاثر قائم کرنے کے لئے کافی تھے۔ ان حصاروں میں من پسند ہیروز کی کھیتی خوب پروان چڑھتی ہے۔ لیکن زمینی حقائق اس کاوش کو سند نہیں دیتے۔ ہمارے پالیسی سازوں کو انسداد ِ دہشت گردی کی کارروائیوں میں سچائی تلاش کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ عوامی سوچ کو باور کرایا جاچکا کہ تمام دنیا ہمارے خلاف ہے۔ چنانچہ ہمیں گرے لسٹ میں رکھا جارہا ہے۔
پیرس میںہونے والی خفت اس بات کولازمی بناتی ہے کہ ہم ایک قدم پیچھے ہٹ کر دہشت گردی کی فنانسنگ روکنے میں اپنی کارکردگی کا محاسبہ کریں۔ اس ہزیمت سے ظاہر ہو اکہ دنیا میں کسی کو ہماری پریس ریلیز اور خوش آہنگ ٹویٹس پڑھنے میں دلچسپی نہیں۔ نہ ہی ان دو درجن کے لگ بھگ تجزیہ کاروں کی کارکردگی سے کوئی متاثر ہے یہ احباب شام ہوتے ہی ٹی وی اسکرینوں پر پوزیشن سنبھال کر عالمی سازش کی تھیوریاں بے نقاب کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ یہ ثابت کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے کہ دنیا ہمارے ساتھ ناروا برتائو کررہی ہے ۔
دہشت گردی کے خلاف ہمارا بیانیہ ساکھ سے محروم ہے۔ ہم دنیا کے سامنے بھی وہی طوطے مینا کی کہانی رکھتے ہیں جو اپنے عوام کو سناتے اور یقین کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ دنیا کے پاس حقائق کی جانچ کے اپنے طریقے ہیں۔ ہماری الف لیلہٰ اُنہیں متاثر نہیں کرتی۔ وہ ٹھوس شہادت رکھنے والی دنیا کے لوگ ہیں۔ جب وہ بات کرتے ہیں تو پاناما کیس کی جےآئی ٹی یا احمد چیمہ کے نیب کیس کی طرح نہیں ہوتے۔ دنیا ہمارے بیانات کی دھجیاں اُڑانے والی شہادت رکھتی ہے۔ اور ہم خود اُنہیں شہادت پلیٹ میں رکھ کر پیش کرتے ہیں۔ ذرا یاد کریں کہ جماعت الدعوۃ، تحریک لبیک، خادم رضوی، اکوڑہ خٹک،یہ ایک طویل فہرست ہے۔ تصویر کو واضح دیکھنے کے لئے فریم سے نکل کر ذرا ایک نظر ان پر ڈالیں۔ بات واضح ہوجائے گی۔ یہ کوئی دوچار برس کا قصہ نہیں، گزشتہ دو دہائیوں سے معاملات اسی ڈگر پر چل رہے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہماری چیخ و پکار حقائق سے پاک ہے۔ پیرس میں کوئی نئی بات نہیں ہوئی۔ چنانچہ اگر نتائج مختلف ہوتے تو حیرت ہوتی ۔
ایک اور سبق یہ کہ ہم نے اپنے اتحادیوں کو بہت مشکل میں ڈال دیا ہے۔ عالمی سیاسیات کا تقاضا ہے کہ ممالک کے مفاد میں ہم آہنگی پیدا کی جائے۔ ہماری سوچ کا پرنالہ کہیں اور گرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب وہ کسی فورم پر صرف اس لئے ہمارا ساتھ نہیں دیں گے کہ وہ ہمارے اتحادی ہیں۔ ہم نے فوجی دستے بھیج کر دیکھ لئے، سعودی عرب نے اپنا موقف تبدیل نہیں کیا۔ چین نے حتمی رائے شماری میں ہمارا ہاتھ نہیں تھاما۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ دنیا کے حقائق سے کنارہ کشی اختیار نہیں کرسکتے۔ ترکی نے البتہ طرفین کو خوش رکھا۔ وہ جانتا تھا کہ پاکستان کے ساتھ کھڑے ہونے سے صورت ِحال میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوگی۔ ایسا کرنے سے اُسے واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کی کوئی قیمت نہیں چکانی پڑے گی، اور اسلام آباد بھی خوش ہوجائے گا۔ اگر کہیں ترکی کا ووٹ فیصلہ کن ہونا ہوتا تو کہانی بہت مختلف ہوتی۔ اُس صورت میں شاید انقرہ بھی ہمارے دوسرے دوستوں کے ساتھ کھڑا ہوتا۔
پیرس سے حاصل ہونے والا تیسرا سبق یہ ہے کہ ہم جب بھی اپنی عالمی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کی کوشش کرتے ہیں، ہم خود کو پہلے سے کہیں زیادہ مشکل میں الجھا لیتے ہیں۔ پیرس میں پہلے رائونڈ میں ہم امریکہ اور برطانیہ کی پیش کردہ تحریک، جسے جرمنی اور فرانس کی حمایت حاصل تھی ، کو ناکام بنانے کی امید لگائے ہوئے تھے۔ ہمارا خیال تھا کہ دہشت گردی کی فنانسنگ پر دنیا کو مطمئن کرچکے ہیں۔ لیکن ہم نہیں جانتے تھے کہ آگے کیا ہونے والا ہے ۔ امریکہ اور اُس کے اتحادیوں نے ہماری ابتدائی کامیابی کو کچل ڈالا۔ اس کے بعد دوسرے رائونڈ میں ہونے والی رائے شماری میں ہمارا سامنا جانچ کی ایک مشکل ڈیل سے تھا۔ آخر میں ہم دوسرے رائونڈ کی ووٹنگ کے نتائج کو نہ روک سکے۔ اس فہرست میں اٹھائے گئے مشکل سوالات کا جواب ہم نے اگلے تین ماہ کے دوران تلاش کرنا ہے تاکہ بلیک لسٹ میں جانے سے بچ سکیں۔ بلیک لسٹ میں آنے کا مطلب سنگین معاشی محاصرہ، پست گلوبل ریٹنگ، عالمی سطح پر رقوم کے تبادلے پر بھاری کٹوتی، بنکاری اور قرضہ جات کی مشکلات، اور ایک ذمہ دارریاست ہونے کی ساکھ کو شدید دھچکا۔ اور یہ ایک طویل فہرست ہے۔
کچھ افراد اور تنظیموں کے خلاف کھوکھلے اور سطحی اقدامات اٹھا کر ہم نے خود کو مطمئن کرلیا۔ مقامی سامعین کویقین دلایا کہ ہم اپنا ’’ڈومور ‘‘ کر چکے، اب کسی اور کی باری ہے۔ لیکن ہم بیرونی دنیا کو کیسے متاثر کرتے ؟ اب پیرس سے واپسی پر ہمارے ہاتھ میں مزید مشکل سوالا ت کا پرچہ ہے ۔ ہم نے خودکو، اپنے وطن کو، اپنے عوام کو اس نہج تک کیوں پہنچایا ہے ؟ کیوں؟ اس سوال کا کوئی جواب نہیں ۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ داخلی طور پر ہماری توجہ کا ارتکاز اُن معاملات پر نہیں جن پر ہونا چاہئے تھا ۔ ہماری ترجیح حکومتوں کو بنانا یا گرانا ہے ۔ ہم میوزیکل چیئر کا شغف رکھتے ہیں۔ ہم انتخابات پر اثر انداز ہوتے ہیں، ہم سخت فیصلوں کو اٹھا کر ایک طرف پھینک دیتے ہیں۔ نیم پختہ سچائیاں ہمارے کانوں میں رس گھولتی ہیں۔ ہر طرف بہار کا سا سماں دکھائی دیتا ہے ۔ قوم کے پائوں البتہ لہو لہان ہیں۔ اور دنیا ہمیںان خارزاروں کو صاف کرنے کا کہتی رہی ہے ۔ان کانٹوں کا احساس دلانے والے مقامی افراد کو ہم غدار قرار دیتے رہے ہیں۔
یہ صلاحیت، اہلیت اور استعداد کا بحران نہیں تو اور کیا ہے ؟جس طرح ہمیں عالمی فورمز پر پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، اس سے پالیسی سازی کے شعبے میں صلاحیتوں کے فقدان کا تاثر گہرا ہونے لگتا ہے ۔ اس سے بڑھ کرستم یہ ہے کہ جب بھی پالیسی کے حوالے سے ہمیں کسی سنگین بحران کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، ہم آسانی سے چھری تلے آجانے والے قربانی کے بکرے تلاش کرتے ہیں۔ پہلے کہا گیا کہ کوئی وزیر ِخارجہ نہیں ہے ۔ اب یہ کہ وزیر ِخارجہ کیوں ہے ؟ پہلے ایسا نواز شریف کی وجہ سے تھا۔ اب مسٹر عباسی کی وجہ سے ہے ۔ ایک اور اکھاڑے میں میڈیا ، کالم نگار، بلاگرز، سوشل میڈیا کے کارکن مکےبازی کی زد میں ہیں۔ انہیں ’’ملک دشمن ‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ ’’اگر انھوں نے حمایت میں لکھا ہوتا...‘‘ایسا کرتے ہوئے ہم سوچتے ہیں کہ ہم نے اپنی ناکامیوں کی حقیقی وجہ کا پتہ چلالیا ہے ۔ اس لئے اگر ہم اپنے ملک میں ان ’’دشمنوں ‘‘ کی سرکوبی کرلیں تو خارجہ پالیسی کامیاب ہوجائے گی۔ یہ خوش خیالی عمران خان کی یاددلاتی ہے جو اپنی پارٹی کی کارکردگی کو نظر انداز کرتے ہوئے محض تعویذ ، دم اور پھونکوںسے وزیر اعظم بننے اور ’’کامیابی کا سہرا‘‘ اپنے سر سجانے کی دھن میں مگن ہیں۔
دنیا ہماری درخواست پر کان کیوں نہیں دھر رہی؟ اس کی وجہ ہمارے بیانیے میں حقائق کا فقدان ہے ۔ جو کچھ ہم گھرمیں کہتے ہیں، اُس کا خمیازہ ہمیں بیرونی دنیا کے سامنے بھگتنا پڑ جاتاہے۔ ایک مشکل دور میں امریکی ترجیحات پر بات کرتے ہوئے جان ایف کینیڈی نے بالکل درست کہا تھا’’ داخلہ پالیسی ہمیں صرف شکست دے سکتی ہے،لیکن خارجہ پالیسی ہمیں ہلاک کرسکتی ہے ۔ ‘‘ پاکستان کے کیس میں ہماری داخلہ پالیسی نے ہماری خارجہ پالیسی کو ہلاک کرنا شروع کردیا ہے ۔ ان دونوں محاذوں سے ہمارے لئے شکست اور ہزیمت کی خبریں آرہی ہیں۔ بہت افسوس کی بات ہے کہ پیرس نے بھی ہمیں آئینہ نہیں دکھایا ہے۔ ہم اب بھی حقائق کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں۔ حیرت ہے، مکمل حیرت اور شدید مایوسی۔

تازہ ترین