• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہائی اسکول کے زمانے میں چند دوستوں کی بدولت بار ہا طلبا تنظیموں کے رہ نمائوں سے ملاقات کا موقع ملتا رہا۔ اِس دوران کافی کچھ نیا سننے اور سمجھنے کو ملا! انہی دنوں پہلی بار کراچی پریس کلب جانا ہوا تو دیکھا ایک شخص اسٹیج پر کھڑا ایک جلسے سے پرجوش خطا ب کررہا ہے، کچھ انقلابی، اورکچھ باغیانہ سا خطاب! جلسے کی سمت بڑھنا شروع کیاتو بینرز دیکھ کر معلوم ہوا کہ یہ حسن ناصر نامی ریاستی تشدد کے سبب شہید ہونے والے کسی سیاسی رہ نما کا چو بیسواں یوم شہادت ہے۔ اِس حساب سے یہ یقیناً نومبر 1984کا قصہ ہے، یعنی جنرل ضیاءالحق کی آمریت کا دور ِعروج!
تقریر جاری تھی، قریب پہنچنے پر مقرر کا چہرہ صاف دکھائی دینے لگا۔ مزید پتہ چلا کہ شہید حسن ناصر پر جنرل ایوب کے دور میں ترقی پسند تحریک کا سرگرم حصہ ہونے کی پاداش میں لاہور کے شاہی قلعے میں جان لیوا تشدد کیا گیا تھا، تقریر اب بھی جاری تھی۔
وہ ضیاء الحق اور مارشل لا کے خلاف سخت الفاظ استعمال کررہا تھا۔ سن کر اندازہ ہوا کہ سیاست میں مداخلت کا معاملہ آمریت یا مارشل لا کے نفاذ تک محدود نہیں۔ وہ بتارہا تھا کہ جمہوریت کی تباہی میں آمروں کا کیا عمل دخل رہا ہے، جاگیر دار کیوں طاقتور ہوتا ہے اور مذہب کو کیوں کر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ یقین نہیں آرہا تھا کہ اس ملک میںکوئی شخص کھل عام یہ سب کہہ سکتا ہے! میں اندر ہی اندر خوف زدہ ہورہا تھا کہ اگر پکڑا گیا تو کیسے ثابت کروں گا کہ اُس آدمی کے خیالات سے میرا کوئی تعلق نہیں! میرے خوف کی وجہ بہت واضح تھی ۔
لڑکپن ہی میں ملک کی سیاسی فضا میں یہ تاثرپروان چڑھا دیکھا تھا کہ آمروں، انتہا پسندوں، قبائلی روایات اور لاہور و دلّی پر قبضہ کرنے والے بیرونی حملہ آوروں پر تنقید جرم ہے، اور اس جرم کے مرتکب شخص کی جان، مال اور عزت کسی بھی وقت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ اِس عمر میں یہ اندازہ بھی ہوچلا تھا کہ کچھ بیانیے صرف یقین کرنے کیلئے ہیں، اِن پر تحقیق منع ہے۔ جیسے پاکستان کا قیام صرف اردو بولنے والے مہاجروں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے، جیسے صوبہ سرحد و افغانستان پر کوئی بیرونی قوت کبھی قبضہ نہیں کرسکی، جیسے 1965کی جنگ میں غیبی قوتوں نے بھارتی حملوں کو پسپا کردیا، جیسے کمیونسٹ کافر ہوتے ہیں اور جیسے مرد کو عورت پر تشدد کا پیدائشی حق حاصل ہے۔ یہ بیانئے آج بھی کسی سوال کرنے والے کو ہلاک نہیں لیکن ہلکان کرسکتے ہیں۔ تاثریہی رہا ہے کہ ان باتوں پر سختی سے عمل کرنے والا ہی محب وطن، باعزت اور محفوظ پاکستانی ہوسکتاہے۔ پریس کلب کے جلسے میں جاری تقریر اِن سب تصورات کے بر خلاف تھی۔
زیادہ سوچنے پر ممانعت تھی، سو اب بھی ہے۔ لیکن آج سے کوئی چونتیس برس پہلے یہ آدمی کس امید پر اتنا سوچ سوچ کر بول رہا تھا؟ وہ بھی با آواز بلند! ایک ہی تقریر میں اوپر تلے وہ سب کچھ کہہ جانا جن پر اب تک غیر اعلانیہ مگر سخت پابندی ہے ایک غیر معمولی بات تھی! سوچ رہا تھا کہ شاید یہ اس آدمی کی پہلی اور آخری تقریر ہو۔ اسٹیج کے سامنے چند لوگ کرسیوں پر بیٹھے تھے لیکن پچھلی طرف کھڑے لوگوں کی تعداد زیادہ تھی، وہیں موجود ایک معروف شاعر کی زبانی معلوم ہواکہ اِس کا نام جام ساقی ہے۔
جام سے آخری ملاقات چند برس پہلے حیدرآباد میں ہوئی۔ جیوز نیوز کیلئے ’’سرد جنگ‘‘ کے موضوع پر ایک دستاویزی فلم سیریز کی تیاری کے سلسلے میں یہ ملاقات انتہائی مفید ثابت ہوئی تھی۔ اگرچہ یہ سیریز اب تک نشر نہیں ہوسکی، کئی گھنٹوں پر مشتمل گفتگو سے اندازہ ہوا کہ اُس تقریر کے بعد کوئی تیس برس گزر جانے پر بھی وہ بالکل نہیں بدلے تھے! اِستحصال زدہ اکثریت کے حقوق کیلئے جذبہ، آمریت نواز عناصر کے خلاف نفرت اور رنگ و نسل، مذہب، زبان اور جنس سے بالاتر اجتماعی جدوجہد کیلئے ان کے جنون میں کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آئی۔ حد درجے کی غربت اور خراب صحت کے باجود خود کو اور اپنی اولاد کو دولت اور وسائل کے سحر سے مستقل دور رکھناجام کا ہی کمال ہو سکتا ہے۔
وہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری رہے۔ انہوں نے دیوارِ برلن کے انہدام کے بعد پارٹی کی چند پالیسیوں پر اختلاف کے سبب کنارہ کشی اختیار کرلی لیکن عوامی جدوجہد جاری رکھی۔ سال 1991میں انہوں نے کمو شہید سے کراچی تک لانگ مارچ کرتے ہوئے پورے سندھ کا سفر پیدل طے کیا۔ اس طویل مارچ کے دوران جام ساقی تمام آسمانی صحیفوں، دیگر مذاہب سے متعلق کتابوں، اردو، سندھی اور دیگر زبانوں کے اساتذہ، صوفی اور ترقی پسند شعرا کے کلام اور عوامی یکجہتی سے متعلق مواد مستقل اپنے ہاتھوں میں تھامے رہے۔ اِسی دور میں بے نظیر بھٹو، نصرت بھٹو اور سید عبداللہ شاہ اُنہیں بار بار پیپلز پارٹی میں شمولیت کی دعوت دے رہے تھے۔ آخر کار انہوں نے کونسل ممبر کے طور پر پی پی پی میں شمولیت اختیار کرلی۔ اِس پر ایک ساتھی کا کہنا ہے کہ، ’’پی پی پی میں ہوتے ہوئے بھی جام کا آخری سانس تک کسمپرسی کی حالت میں رہنا اِس کی اعلیٰ ترجیحات کا ثبوت ہے۔‘‘
چند برس پہلے حیدر آباد میں ایم کیو ایم کی دعوت پر انہوں نے کاروکاری کے خلاف منعقدہ ایک سیمینار میں خطاب کر کے چند سیاسی اور قوم پرست حلقوں کو ناراض کردیا تھا۔ اِن کا موقف تھا کہ اگر کاروکاری غلط ہے تو پھر اس کے خلاف ہر پلیٹ فارم پر آواز اٹھائی جاسکتی ہے۔
انہیں سندھ دھرتی سے جنون کی حد تک محبت تھی۔ اِن کے قریبی سیاسی حلقوں میں سندھی قوم پرست رہ نما سرفہرست تھے۔ دوسری جانب وہ کمیونسٹ پارٹی سے وابستگی کے سبب پروفیسر جمال نقوی کے بھی انتہائی قریب تھے۔ کہا جاتا ہے کہ پروفیسر کی سربراہی میں کمیونسٹ پارٹی اور قوم پرست تنظیموں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں جام نے فعال کردار ادا کیا تھا۔ اِس کوشش کا بنیادی مقصد بھی طبقاتی نظام کے خلاف ہم خیال عناصر پر مشتمل وسیع تر اتحاد کی تشکیل تھی ۔
گزشتہ منگل طویل علالت کے بعد جام ساقی کے انتقال کے بعد سے اب تک شاید چند لوگ ایوب آمریت میں ان کے بار بار جیل جانے، جنرل ضیاء کے دورمیں قید کے دوران اِن کی موت کی افواہ پر اہلیہ کی خود کشی اور گورباچوف سمیت دنیا کے کئی رہ نمائوں سے ان کی ملاقات کے قصوں سے کسی حد تک واقف ہو چکے ہیں کچھ کو شاید اب یہ بھی معلوم ہے کہ سابق چیکوسلاویکیہ، رومانیہ اور بلغاریہ کے دوروں پر اُنہیں سرکاری سطح پر گارڈ آف آنر پیش کیا جاتا تھا! البتہ یہ جاننا آج بھی مشکل ہے کہ ناقابل بیان تنگ دستی، صحت کی مستقل خرابی اور دولت کمانے کے اَن گنت مواقعوں کے باجود اِس لالچی، مطلبی اور خود غرض دنیا میں کوئی شخص صرف سچائی اور انسانوں سے لازوال محبت کی خاطر اپنی پوری زندگی کیسے قربان کرسکتا ہے؟

تازہ ترین