• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حالانکہ جھانکنے کیلئے اپنا گریبان ہی کافی ہے۔ پھر بھی ہم ادھر ادھر نقب لگاتے، تانک جھانک کرتے، دوسروں کی داڑھی میں تنکا ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ اگر عیسیٰ علیہ السلام آواز لگا دیں کہ پہلا پتھر وہ مارے جس نے کوئی گناہ نہ کیا ہو تو، سارا ہجوم دم بخود رہ جاتا ہے، سب کو سانپ سونگھ جاتا ہے، سانسوں کی آواز تک سنائی نہیں دیتی، آج کل گونگوں کے خلاف زبان درازوں نے اودھم مچا رکھا ہے۔ وہ شور کہ کان پڑی آواز بھی صاف سنائی نہیں دیتی۔ جی ہاں یہاں گونگوں سے مراد وہ نہیں جو بول نہ سکے بلکہ جنہوں نے اپنے منصب کے تقاضے اور شخصی وقار کیلئے گالم گلوچ کا جواب دینے میں احتیاط برتی، ورنہ کیا انہیں بات کرنا نہیں آتی؟ جو تعلیم تجربے میں زیادہ ہیں وہ اگر اپنے منصب اور سرکاری حیثیت کو یونہی بے دریغ استعمال کر سکتے ہوں تو دھوبی گھاٹ کا میدان اور موچی دروازہ ان کے حامیوں اور عقیدت مندوں سے بھر سکتا ہے۔ ورنہ جو پولیس اور انتظامیہ نااہلوں کے جلسوں کی رونق اور انتظامات کر سکتی ہے وہ خاموشوں کا حکم زیادہ آسانی اور خوشدلی سے پورا کرنے کیلئے تیار ہو جائے گی۔ اگر مجرم اور گنہگار پولیس کے زور پر محفل سجا سکتے ہیں تو منصب اور حفاظت کاروں کو بھی صلائے عام دیدیں تاکہ دونوں طرف کے لوگ رائے عامہ کو ہموار کرنے میں آزاد ہوں۔ پھر آپ کو آزادی ہے کہ ریفرنڈم ہے تو ریفرنڈم ہی سہی، آخر آپ کو روکا کس نے؟ پارلیمنٹ اور حکومت کے پاس یہ ترجیح (آپشن) موجود ہے کہ وہ کسی قومی مسئلہ پر ریفرنڈم کروا سکے، اگر فرحت اللہ بابر کرپشن اور بدعنوانی کی اجازت ممبران پارلیمنٹ کیلئے ضروری خیال کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ممبران اسمبلی کو سات خون معاف ہوں تو عوام سے رائے کی خاطر ریفرنڈم کی تجویز شاید معقول خیال کی جاسکتی ہے۔
یہ بھی خوب کہی کہ جمہوریت ’’ہم‘‘ نے چھینی ہے کسی نے خیرات میں نہیں دی، مگر چھینی کس نے؟ ’’ہم نے‘‘ نہیں چھینی وہ کوئی اور تھے جنہوں نے ہمارے لئے جیت کر تحفے میں دیا۔ ورنہ لیاقت علی خان کے بعد جمہوریت ’’دوجنسیوں‘‘ کے ہاتھ لگی وہ جو فوجی تھے نہ سیاستدان، ’’ہم‘‘ سارے کے سارے ان کی دربانی کو جا حاضر ہوئے اور منصب و خلعت سے نوازے گئے۔ فوج نے آکر انہیں نکال باہر کیا تو ’’ہم‘‘ میں ایک ذہین ’’خلیق الزمان‘‘ نے اپنے جمہوری دوستوں سے کہا کیا ایوب خان کی بادشاہت سے نجات چاہتے ہو؟ جو محروم تھے انہوں نے ہاں کہہ دی تو دانا سیاستدان نے کہا آئو پھر اس کے ساتھ شامل ہو جائیں کہ اس کے ساتھ ہماری شمولیت کے بغیر وہ غیر مقبول ہوگا نہ ناکام، تب مسلم لیگ کی کوکھ سے کنونشن مسلم لیگ نکلی اور اس کے خلاف نفرت پیدا ہوئی۔ ایوب خان کو انہی عبقریوں نے بنیادی جمہوریت کا درس دیا پھر دھاندلی کی راہ دکھائی۔ تب وہ ’’ہم‘‘ نہ تھے جنہوں نے پہلا پتھر مارا وہ ہمارے بنگالی بھائی تھے جو ’’ہم‘‘ سے زیادہ چوکس، ہوشیار اور بہادر تھے جو اٹھ کھڑے ہوئے اور کھڑے ہی رہے۔ انہوں نے بیٹھنے سے انکار کر دیا۔ تب ہمارے یہ ’’ہم‘‘ نہیں یونیورسٹی کے طالب علم تھے جنہوں نے مشرقی پاکستان میں دو برسوں سے بند تعلیمی اداروں کے ساتھ یکجہتی کیلئے کمر ہمت باندھی اور مردانہ وار لاٹھی، گولی کا مقابلہ کیا اور ان کی مدد کو وکلا لپک کے آئے اور ججوں نے طالب علم رہنمائوں کو قید و بند سے بچائے رکھا۔ تب کیا کیا قدآور سیاستدان اور رہنما تھے جنہوں نے اس تحریک کا ساتھ دیا۔ سب سے پہلی طاقتور آواز ایئر مارشل اصغر خان کی تھی جو ایوب خان کے ہمسائے، ہم عصر اور منصب میں ان کے برابر پیشہ ورانہ مہارت میں بلند تر اور کردار کا کوہ گراں تھے۔ دوسری طرف جسٹس محبوب مرشد، سید مودودی، نصراللہ خان، نور الامین، پروفیسر غلام اعظم، مولانا بھاشانی، مفتی محمود، چوہدری محمد علی، مولوی فرید، حمزہ، باقی بلوچ، بلوچ سردار اور کراچی کے مغز بیدار ورنہ ’’ہم‘‘ اور ہمارے لیڈر ایوب خان کی پاکٹ یونین کے سیکرٹری جنرل ہوا کرتے تھے۔ اور ’’ہم‘‘
ہم ایسے بے بساط ہیں کہ ہر بساط پر
کھیلے بغیر ہار گئے مات ہو گئی
پارلیمنٹ جو سپریم ہے مگر قانون سازی کیلئے، اس نے پاکستان کی پوری تاریخ میں نالائقی، بزدلی اور کم ہمتی کا لوہا منوایا ہے۔ انہیں اصرار ہے کہ ان کی بد اعمالیوں، نالائقیوں اور بزدلیوں کے باوجود اپنے بنائے ہوئے قوانین اور آئین کی پابندیوں سے استثنیٰ دیا جائے نہ صرف پچھلے گناہوں سے بلکہ آئندہ کیلئے بھی کھلی چھٹی ہو، کسی ایسی قانون سازی کا اختیار بھی شاید انہی کے پاس ہے لیکن وہ یہ اختیار فوج اور عدلیہ سے منوانے پر مصر ہیں۔ یہ حق ان سے طلب کرتے ہیں جنہیں خود یہ حق حاصل نہیں۔
پاکستان سمیت دنیا بھر بلکہ ہمارے جسم کے اندر بھی اپنی کمزوریوں اور بیماریوں سے بچائو کیلئے ایک خودکار دفاعی نظام موجود ہوتا ہے حتیٰ کہ غیر مادی ضمیر کے اندر بھی جو غلط سے روکنے کی کوشش کے ساتھ انتباہ بھی کرتا رہتا ہے مگر ایسا کوئی اصلاحی اور خود احتسابی کا نظام موجود نہیں ہے تو وہ صرف پاکستان کی پارلیمنٹ (مجلس شوریٰ) ہے جس کا اندرونی دفاعی نظام اتنا ناقص اور کمزور ہے ’’ایڈز‘‘کے مریض کی طرح کہ جو مریض کے خون اور جسم میں موجود دفاع کو ناکارہ بنا دیتا ہے اور وہ کسی معمولی مرض کے خلاف بھی لڑ نہیں سکتا۔ نہ خود سے نہ دوا کے زیر اثر، ہاں دعا کا معاملہ الگ ہے۔
فوج میں خود احتسابی کا عمل کافی موثر اور طاقتور ہے گویا وہ اپنے ناکارہ حصوں کی تربیت کے دوران چھانٹی شروع کر دیتے ہیں۔ ان کی پیشہ ورانہ اور اخلاق و کردار پر نظر رکھی جاتی ہے۔ نظم و ضبط کا خیال نہ رکھنے والوں کو نکال باہر کیا جاتا ہے۔ ان کے پاس ایک عدالتی اور قانونی نظام بھی متحرک رہتا ہے۔ عدلیہ کے معاملات بھی ہیں جو ’’سپریم جوڈیشل کونسل‘‘ دیکھتی ہے۔ زیادہ نہ سہی پھر بھی ایسی مثالیں موجود ہیں جب اعلیٰ عدلیہ نے نااہلی اور بدعنوانی پر اپنے چند ساتھیوں کو چلتا کیا، شہری انتظامیہ، پولیس اور دیگر ریاستی اداروں کے اندر ڈسپلنری ایکشن لیا جاتا ہے، ہرصوبے، مرکز اور ضلع میں اینٹی کرپشن اور احتساب کے ادارے موجود ہیں، بھلے وہ زیادہ کارآمد نہ ہوں مگر موجود تو ہیں۔ اگر اس طرح کا کوئی نظام اور ادارہ موجود نہیں ہے تو وہ ہے پارلیمنٹ، عدلیہ کے پاس اپنی شہرت و عزت کی حفاظت کیلئے ایک طاقتور آلہ اور بھی موجود ہے جسے ’’توہین عدالت‘‘ کا قانون کہا جاتا ہے۔ عدالت توہین کا یہ قانون اپنے معاون و مددگار مگر منہ زور وکلا پر بھی لگا دیتی ہے جس کے خوف سے ان کی منہ زوری کو لگام دی جاتی ہے۔ جس کا مظاہرہ پچھلے ہفتے نہال ہاشمی کے مقدمے میں دیکھا گیا۔ ایسا اختیار مقننہ (پارلیمنٹ) کے پاس بھی ہے جسے ’’استحقاق‘‘کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ قانون شاید توہین عدالت سے بھی زیادہ طاقتور ہے لیکن پارلیمنٹ نے آئین میں دیئے اس اختیار کے مطابق کبھی قانون سازی نہیں کی، پارلیمنٹ کے سامنے غلط بیانی کرنے، جھوٹ بولنے اور جعل سازی کی کڑی سزا تجویز ہو سکتی ہے اور سنائی گئی سزا پر کوئی اپیل بھی نہیں ہے۔ مگر اس کا اطلاق کبھی نہیں ہو گا۔ اس لئے کہ پارلیمنٹ کے سامنے زیادہ تر غلط بیانی خود اس کے ممبران کی طرف سے کی جاتی ہے جب سینیٹ اور قومی اسمبلی میں سرے محل، سوئٹزر لینڈ کے بینک میں آصف زرداری، بینظیر کے اکائونٹ ایک غیر ملکی فرم کی طرف سے جواہرات کے ’’ہار‘‘ بارے میں بعض وزراء اور ممبران اسمبلی انکار کرتے رہے اور بعد میں ان کی ملکیت تسلیم کی گئی ان کی فروخت کے وقت زرداری صاحب بھی تھے جو صدر پاکستان بنے۔ وہ کبھی ان الزامات سے بری نہیں ہوئے مگر انہوں نے اس عذاب سے بچنے کیلئے انوکھا کھیل کھیلا وہی جو شریف برادران ’’حدیبیہ پیپر مل‘‘ کے مقدمے میں کھیل رہے ہیں۔ جب پیپلز پارٹی کے ’’وصیتی‘‘ سربراہ وعدوں کو ’’قرآن و حدیث نہیں‘‘ کہہ کر مکر گئے تو پارلیمنٹ کے سارے ممبران، ساری جماعتیں، بشمول تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے، منہ میں گھنگھنیاں ڈال کر بیٹھے رہے۔ پانامہ کے ہنگام وزیر اعظم نے اسمبلی کے اندر جو کچھ کہا اس سے ’’پھر گئے‘‘ اور عدالت میں اسے سیاسی بیان قرار دے کر جان چھڑوانے کی کوشش کی یہ واقعہ پارلیمنٹ کی توہین اور سارے ممبران کے استحقاق کو مجروح کرنے کا معاملہ تھا مگر آج تک اس کا نوٹس نہیں لیا گیا تو کیا خیال ہے جب عدالتیں قتل کے مقدمات کا فیصلہ نہیں کر پاتیں تو سڑکوں، چوراہوں اور گائوں کے چوک میں انتقام کیلئے گولیاں چل جاتی ہیں۔
پارلیمنٹ اپنا احتساب نہ کرے تو عدلیہ کو اس بکھیڑے میں پڑنا ہی ہوتا ہے۔
کالم پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998

تازہ ترین