• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لیجئے !امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام کے ذریعے ہی اپنےو زیر خارجہ ریکس ٹلرسن کو ’’فائر ‘‘کر دیا ۔ وہی ٹلرسن جن کو خود صدر ٹرمپ نے اپنی چوائس سے وزیر خارجہ کے عہدے پر نامزد کر کے حتمی منظوری کیلئے امریکی کانگریس کے سامنے بھی پیش کیا تھا اور کانگریس نے بآسانی منظوری دے دی تھی۔ اور وہ امریکہ کے سیکریٹری آف اسٹیٹ کے طور پر دنیا کے مختلف ممالک کے دورے کر کے صدر ٹرمپ اورامریکہ کے مفادات کی نمائندگی کرتے رہے۔
وہ 1869کے بعد سے اب تک سب سے کم مدت یعنی صرف405روز تک امریکہ کے وزیر خارجہ رہے۔ ان سے قبل ایلھو واش برن 1869میں صرف گیارہ دن کیلئے امریکہ کے وزیر خارجہ رہے۔
ٹلرسن ابھی اپنے دورہ افریقہ میں مصروف تھے کہ وہائٹ ہائوس کے چیف آف اسٹاف جنرل (ر) کیلی نے ٹلرسن سے رابطہ کر کے اپنا دورہ افریقہ مختصر کر کے واپس آنے کی ہدایات دیں اور اطلاعات کے مطابق یہ بھی کہاکہ انہیں مزید ہدایات صدر کی جانب سے ٹوئٹر پر دی جائیں گی ٹلرسن دورہ مختصر کر کے امریکہ واپس آ گئے۔ انہیں ابھی صدر ٹرمپ کا ٹوئٹر پیغام تونہیں ملا تھا لیکن ان کے جاننے والوں نے انہیں خبر دی کہ صدر ٹرمپ کے جاری کر دہ، تازہ ٹوئٹ کے مطابق صدر ٹرمپ نے ریکس ٹلرسن کو امریکی وزیر خارجہ کے عہدے سے ’’فائر‘‘ یعنی برخاست کر دیا ہے۔
ٹلر سن گزشتہ کئی عشروں سے عالمی شہرت یافتہ اور کئی ممالک سے بھی زیادہ دولت مند امریکی کمپنی ’’ایگزون‘‘ کے سربراہ رہ چکے ہیں، پٹرول اور اس کی مصنوعات کے کاروبار کے باعث تیل پیدا کرنے والےمشرق وسطی، افریقہ اور دیگر ممالک کی حکومتوں سےتعلقات ،ان ملکوں میں تبدیلیوں پر نظر رکھنا’’ایگزون ‘‘ ٗکےسربراہ کی منصبی ذمہ داریوں میں شامل تھا لہٰذا وہ وزیر خارجہ بننے سے بھی قبل مشرق وسطی میں تیل کی سیاست، حکمرانوں کی باہمی عداوت اور دیگر اچھے برے پہلوئوں سے بخوبی واقف تھے۔وہ صدر ٹرمپ کی انتخابی جیت کے پرجوش حامی ضرور تھے لیکن وہ خارجہ پالیسی کے معاملات میں صدر ٹرمپ کے ’’یس مین‘‘یعنی خوشامدی ہرگز نہیں تھے۔ لہٰذا وہ انتہائی اہم عہدے پر فائز ہونے کے باوجود وہ ٹرمپ کی ’’کچن کیبنٹ ‘‘ یعنی قریبی بااعتماد حلقے میں شامل نہیں تھے۔ اسی لئے انہیں اپنی برخاستگی کی اطلاع بھی دوسروں سے ملی کہ صدر ٹرمپ کے جاری کردہ تازہ ٹوئٹ کے مطابق ان کو وزیر خارجہ کے عہدے سے ’’برخاست‘‘کر دیا گیا ہے۔ ایک سال 40دن امریکہ کے وزیر خارجہ رہنے والے ٹلر سن اور صدر ٹرمپ کے درمیان فارن پالیسی اور ڈپلو میسی کے بارے میں فکر اور عمل کا بہت بڑا فرق تھا۔ نیز دونوں بزنس کی دنیا سے آ کر حکومتی نظام کا حصہ تو بنے تھے لیکن دونوں کے کاروباری تجربے (پراپرٹی) اور (آئل) کی نوعیت اور سائز کا بڑا فرق تھا۔ لہٰذا متعدد اہم علاقائی اور عالمی ایشوز پر دونوں کی اپروچ اور اعلانات میں بھی فرق واضح تھا۔
(1) صدر ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیلی دارالخلافہ قرار دے کر امریکی سفارخانہ وہاں منتقل کرنے کا اعلان کیا تو ریکس ٹلر سن نے اسکی مخالفت کی کہ ایسا کرنا امریکہ کے مفاد میں نہیں ہے۔
(2) صدر ٹرمپ نے ناٹو ممالک سےکہا کہ معاہدے کے تحت اجتماعی سیکورٹی کے اخراجات میںنیٹو کے ممبر ممالک بھی اپنا حصہ ادا کریں۔ اکیلا امریکہ یہ ذمہ داری نہیں لے گا۔ اس اعلان نے معاہدہ نیٹو کو خطرےمیں ڈال دیا اور یورپی ممبران کا امریکہ کے بارے میں ردعمل منفی ہونے لگا۔ امریکی وزیر خارجہ ٹلرسن نے اس مخدوش صورتحال کو سنبھالنے کیلئے یورپی ممبران کو یقین دلایا کہ امریکہ نیٹو کے سلسلے میں اپنے وعدے اور ذمہ داریاں پوری کرے گا۔ ٹلرسن کا یہ بیان ٹرمپ کے نیٹو ممالک سے اخراجات کا حصہ ادا کرنے کےمطالبے کے برعکس تھا اور یورپی ممبر ملکوں سے ’’واجبات ‘‘ کی ادائیگی کے مطالبے کو بھی ختم کرنے کے مترادف تھا۔
(3)صدر ٹرمپ ایران سے ایٹمی ڈیل کو ختم کرنے کی دھمکیاں دیتے آ رہے ہیں جبکہ ریکس ٹلرسن نے ایران سے صدر اوباما کے دور میں کئے گئے معاہدے کو جاری رکھنے کے حق میں بیان دیا۔ (4) امریکی وزیر خارجہ کی حیثیت سے ٹلرسن نے شمالی کوریا کے ساتھ مذاکرات کی کوشش کی تو صدر ٹرمپ نے اپنے ایک ٹوئٹ کے ذریعے ٹلرسن کی کوششوں کی مخالفت کرتے ہوئے شمالی کوریا کے سربراہان کو لٹل راکٹ مین قرار دیتے ہوئے لکھا کہ ’’وہ (ٹلرسن) اس لٹل راکٹ مین سے مذاکرات کی کوششوں میں اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں ‘‘ آج ایک تلخ زمینی حقیقت یہ بھی ہے کہ صدر ٹرمپ نے چند روز قبل خود یہ اعلان کر دیا ہے کہ وہ شمالی کوریا کے سربراہ سے خود ملاقات کر کے شمالی کوریا کا ایٹمی پروگرام ختم کرانے جا رہے ہیں۔‘‘
گویا وہ شمالی کوریا سے ٹلرسن کے مذاکرات کے تو مخالف تھے لیکن اب وہ خود حالات کے باعث اسی حکمراں اور ملک سے ملاقات و مذاکرات کا راستہ اپنا رہے ہیں۔ جب اس سلسلے میںپبلک ڈپلو میسی امور کے ڈپٹی سیکریٹری آف اسٹیٹ سٹیو گولڈ اسٹین نے وزیر خارجہ ٹلرسن کی برخاستگی کے بارے میں ایسی وضاحت پیش کرنے کی کوشش کی جو دونوں طرف کے حقائق پر مبنی تھی تو ٹلرسن کی ٹرمپ کے ہاتھوں برخاستگی پر وہائٹ ہائوس سے متضاد بیان دینے کی بنیاد پر انہیں بھی ’’فائر‘‘ یعنی ملازمت سے برخاست کر دیا گیا۔
صد ٹرمپ نے خود اپنے ٹویٹ میں یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ ٹلر سن اور ٹرمپ کے درمیان خارجہ پالیسی کے بارے میں اختلافات تھے جن میں ایران کے ساتھ امریکہ کے ایٹمی ڈیل اور دیگر امور شامل ہیں۔
صدر ٹرمپ نے ریکس ٹلرسن کو ’’فائر‘‘ کرتے ہوئے ان کی جگہ مائیک پومپیو کو نیا وزیر خارجہ نامزد کیا ہے۔ پومپیو سابق کانگریس مین رہے ہیں اور اس وقت امریکی سی آئی اے کے سربراہ ہیں جو ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح سخت گیر اور ٹرمپ کے خیالات سے بخوبی آگاہ ہیں۔ ان کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ وہ ٹرمپ کی ہدایات اور خیالات کے مطابق کام کریں گے لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ اب تک ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے جن پرجوش حامیوں کو اپنا مشیر اور وہائٹ ہائوس کے اہم عہدوں پر مقرر کیا اور پھر اختلافات کے باعث ان میں سے اب تک جن مشیروں اور وزیروں نے استعفے دیئے یا ’’برخاست ‘‘کئے گئے وہ سب کے سب ٹرمپ کے سیاسی فلسفہ اور صدارت کے انتہائی پرجوش حامی تھے۔
اور ابھی جو باقی ہیں ان کے درمیان بھی اختلافات ہیں اور متعدد خواتین و مرد بھی ٹرمپ کو چھوڑ کر جانے کی تیاریوں میں ہیں۔13مارچ کی صبح ٹوئٹ پیغام کے ذریعے وزیر خارجہ کے عہدے سے صدر ٹرمپ کے ہاتھوں برخاست کئے جانے کے بعد بھی اب تک ریکس ٹلرسن کا موقف سامنے نہیں آیا ۔البتہ ٹلر سن کی برخاستگی یعنی فائر کئے جانے کے بارے میں وہائٹ ہائوس کے موقف سےمتصادم موقف پیش کرنے کے الزام میں ا سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ڈپٹی سکیریٹری گولڈ اسٹین کو بھی فائر کر دیا گیا،اس کے بعد ٹلر سن محکمہ خارجہ کے آڈیٹوریم میں آئے اور شمالی کوریا کو مذاکرات کی میز پر لانے کے مشکل کام کی تفصیل بھی بیان کی۔ انہوں نے سفارت کاروں، فوجی افسروں اور امریکی عوام کا شکریہ ادا کیا مگر ٹرمپ کا نام نہیں لیا اور نہ ہی تنازع کے بارے میں اپنا موقف بیان کیا۔ حقائق سامنے جلد یا بدیر ضرور آئیں گے۔ مزید اسکینڈلز سامنے آ رہے ہیں۔ پیوٹن نے نئے تباہ کن میزائل سامنے لا کر ایک نیا بحران پیدا کر دیا ہے۔ اور صدر ٹرمپ مشکل میںہیں۔
کالم پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998

تازہ ترین