• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کہا جاتا ہے کہ سینیٹ کا الیکشن جمہوری طریقے سے مکمل ہوا اور قطعی اکثریت لینے والے سینیٹر صادق سنجرانی 46کے مقابلے میں 57ووٹ لے کر چیئرمین منتخب ہوگئے ۔ اسی طرح سلیم مانڈی والا 54ووٹ لے کر ڈپٹی چیئرمین کامیاب ٹھہرے۔ لیکن پاکستانی جمہوریت کے حوالے سے سینیٹ کے الیکشن سے پہلے اور اب بعد میں بھی بڑے دلچسپ تبصرے ہوتے رہے ،عددی لحاظ سے ن لیگ نہ صرف سب سے بڑی پارٹی تھی بلکہ چیئرمین کے انتخاب سے چند لمحے پہلے تک اسے 52سینیٹرز کی حمایت حاصل تھی ۔ اب چونکہ پی ٹی آئی اور پی پی کے حمایت یافتہ وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کے آزادامیدوار جیتے ہیں تو نااہل سابق وزیراعظم نواز شریف کا کہنا ہے کہ ہم ہار کر بھی جیت گئے اور وہ جیت کر بھی ہار گئے ۔ گو سینیٹرز کی خریدو فروخت کی خبریں ہر الیکشن کے موقع پر سامنے آتی رہیں لیکن اس مرتبہ یہ اپنے عروج پر تھیں اور سینیٹ کے انتخابی عمل کے آغاز سے ہی سینیٹرز کی خریدوفروخت کا بازار گرم تھا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر سیاسی پارٹی دوسری پارٹی پر ہارس ٹریڈنگ کے سنگین الزامات لگا رہی ہیں ۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ بلوچستان میں چھ سینیٹرز آزاد منتخب ہوگئے، سندھ میں ایم کیو ایم دوسری اکثریتی پارٹی کے باوجود دوسرے گروپ کے سینٹرز جیتے، پنجاب میں پی ٹی آئی کے مطلوبہ ووٹ نہ ہونے کے باوجود چوہدری سرور سینیٹر بن گئے ، اسی طرح کے پی میں توقعات کے برعکس سینٹرز بنے۔ پھر جب چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب ہوا تو تب بھی ن لیگ اکثریت میں ہوتے ہوئے بھی 11کم ووٹ لے سکی ۔ اب سینیٹ کے الیکشن کے نتائج کے چند ماہ بعدہونیوالے عام انتخابات کا نقشہ بھی واضح ہوگیا ہے۔
قائداعظم ؒ کی وفات کے بعد سے اب تک مجموعی طور پر ہماری سیاست ، جمہوریت اور حکمرانی ذاتی مفادات کے گرد گھومتی رہی ، ہر کسی نے عوام کو بیوقوف بنانے کیلئے پرکشش نعرے اور منشور ترتیب دیئے، عوام کو یقین دلایا گیا کہ اس ملک میں روز گار نہیں، امن وامان خراب ہے ، تھانے عقوبت خانے ہیں، ٹیکس ڈیپارٹمنٹ ڈاکو ، عدالتوں میں انصاف بکتا ہے ، اسپتالوں میں دوائیں نہیں، تعلیم کو عام آدمی سے دُور کر دیا گیا ہے۔ اس ملک میں قدم قدم پر رکاوٹیں اور مشکلات ہیں، ان سب سے عوام کو صرف وہ بچاسکتا ہے جو خود بددیانت ، ٹائوٹ اور کرپٹ ہو،چونکہ شریف آدمی تو تھانہ کچہری جا سکتا ہے نہ ہی ٹائوٹی کر سکتاہے ۔ اس لئے آپکا نمائندہ صرف وہ ہوسکتا ہے جو ہر غلط کام کو صحیح کر وا دے اور سودے بازی کروا سکے ۔ مگر نمائندوں ، سیاستدانوں کو اپنےغلط کاموں کی وجہ سے کوئی مصیبت آتی ہے تو پھر شور مچاتے ہیں کہ ووٹ کے تقدس کو پامال کیا جارہا ہے اور اب جب اربوں روپے کی کرپشن بے نقاب ہورہی ہے تو عوام کے ووٹوں کے تقدس کے نام پر اداروں کو گالیاں دی جانے لگی ہیں ، وہ دو ادارے جنکی وجہ سے ملک کی سلامتی اور انصاف کی کچھ امید باقی ہے، اب اُنکو ختم کرنے کے درپہ ہیں،لیکن اب ایسا کچھ نہیں چلے گا اور نہ ہی عوام ان کرپٹ سیاستدنوں کے نعروں میں آئیں گے ، عوام سمجھتے ہیں کہ اب انتہا ہوچکی ۔ اسلئے ہمارا نمائندہ صرف وہ ہوسکتا ہے جو ہماری ان شرائط پر پورا اترتا ہو۔
الیکشن کے انعقاد میںابھی بہت وقت ہے اور یہ انعقاد اسوقت تک ہونا بھی نہیں چاہئے جب تک عوامی نمائندوں کا معیار چیک نہ ہو، پھر الیکشن لڑنے کا انہیں اہل قرار دینا چاہئے۔ ہم نوکری لینے جاتے ہیںتو تعلیم کا ایک معیار ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص ایم بی بی ایس نہ ہو تو وہ نہ میڈیسن کی پریکٹس کر سکتا ہے اور نہ ہی اُسے نوکری مل سکتی ، کوئی انجینئر کی ملازمت اُسوقت تک کرنے کااہل نہیں ہوتا جب تک اس نے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل نہ کی ہو، اس وقت تک کوئی ٹیچر یاپروفیسر نہیں بن سکتا جب تک اس نے 16یا 18سال تعلیم حاصل کر کے پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس نہ کیا ہو ، فوج میں بغیر مطلوبہ تعلیمی معیار نہیں جاسکتا۔ اگر آپ کو وکیل یا جج بننا ہے تو مطلوبہ قابلیت کیساتھ ساتھ پریکٹس اور امتحان بھی پاس کرنا ہوتاہے ۔واحد ایسا شعبہ ہے سیاست جس کیلئے کوئی تعلیمی معیار نہیں ۔ غلطی سے جنرل (ر) پرویز مشرف نے الیکشن لڑنے کیلئے گریجویشن کی شرط رکھی مگر عوام کے رہنمائوں نے یہ شرط بھی ختم کر دی۔ جب یہ شرط تھی تو جعلی ڈگریوں کا ایک نیا مافیا پیدا کر دیا گیا ۔ اس لئے اب اگر کوئی شخص عو ام کانمائندہ بننا چاہتا ہے تو اسکی کم از کم تعلیمی قابلیت گریجویشن ضروری ہے۔ پھر اسے چاہئے کہ جب سے اسکا شناختی کارڈ بنا ہے تب سے لیکر الیکشن میں حصہ لینے کے ارادے والے دن تک اپنی مکمل لائف ہسٹری الیکشن کمیشن کو جمع کرائے ،جس میں نہ صرف اسکی بلکہ اسکے بچوں اور خاندان کی ہر طرح کی جائیداد کی تفصیل ہو، یہ جائیداد کیسے بنائی، آبائی یا وراثتی جائیداد کتنی ہے، جو کاروبار کرتا ہے اسکی مکمل تفصیل ،کاروبار کرتا ہے تو کتنا ٹیکس اور دیگر محصولات دیتا رہا ہے اور کیا یہ سب ضابطے اور قانون کے مطابق ہیں، اگر جائیداد بڑھتی رہی تو کیا ان سب کی تفصیلات ساتھ ساتھ ڈکلیئرکی جاتی رہیں۔ اپنے ساتھ ساتھ خاندان اور بچوں کی جائیداد ں ، اُنکے ذرائع آمدنی اور جائز ہونے کے ثبوت فراہم کرے۔ پھر ایسا نمائندہ اپنی ذاتی زندگی کے حوالے سے اخلاقی معیار کی مکمل تفصیلات جمع کرائے جب الیکشن کمیشن کے پاس یہ تمام تر تفصیلات جمع کرا دی جائیں تو وہ نہ صرف مختلف ایجنسیوں کے ذریعے انکی مکمل چھان بین کروائے بلکہ اسکے بعد یہ تمام تر تفصیلات اخبارات میں نمایاں اشتہار کی صورت میں شائع کروائے اور جس حلقے سے وہ انتخاب لڑنا چاہتا ہے وہاں بھی ان تفصیلات کو مشتہر کرکے لوگوں کو اعتراضات کیلئے کم از کم ایک مہینے کا وقت دیا جائے۔ جب نمائندگی کرنیکا ارادہ رکھنے والا شخص عوام کی چھلنی سے پاس ہو جائے تو پھر الیکشن کمیشن اسے الیکشن لڑنے کااہل قرار دے۔ اگر یہ کلیہ اپنایا جائے تو اس سے عوام کو شاید ایک بہتر نمائندہ مل سکے اور پھر جو آئے روز انکے اخلاقی اور مالی کرپشن کے ا سکینڈلز سامنے آتے ہیں ان سے نہ صرف نجات مل سکتی ہے بلکہ پھر اس ملک کی ترقی اور خوشحالی کیلئے بھی کام ہوسکتا ہے ۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ حکمرانوں نے تو انتخابی اصلاحات کے نام وہ کارنامے سرانجام دیئے کہ پہلے امیدوار کی جانچ پڑتال کا جو ایک معیار تھا ، اُسے بھی اتنا نرم کر دیا کہ بدعنوان ترین شخصیات بھی الیکشن لڑنے کی اہل ہیں۔ ایک اور اہم بات جس کی میں پہلے بھی نشاندہی کر چکا ہوں کہ ایک سرکاری ملازم کو ووٹ دینے کا حق ہے مگر ووٹ لینے کا حق نہیں ، اسلئے اب زمانہ بدل چکا ، یہ اس کے بنیادی حقوق میں شامل ہونا چاہئے کہ اگر وہ ووٹ دینے کا حق رکھتا ہے تو لینے کا حق ہونا چاہئے۔ اس طرح اسمبلیوں میں ٹیکنو کریٹس کی سیٹوں کی تعداد کم از کم 50فیصد کرنی چاہئیں اور یہ ٹیکنو کریٹس مختلف محکموں سے لینے چاہئیں ، ان کو ووٹ دینے کا حق بھی اسی محکمے کے لوگو ں کے پاس ہونا چاہئے ۔ ممکن ہے کہ لوگ اس ساری گفتگو کو دیوانے کا خواب کہیں مگر اب ایسا ہوگا تو ملک میں انصاف اور احتساب کا یکساں نظام قائم ہو سکے گا، اگر اسطرح نمائندگی کی اہلیت کا معیار مقرر کیا جاتاہے تو شاید ہم کوئی قوم بن سکیں ورنہ عوام کا اسی طرح پرکشش نعروں سے استحصال ہوتا رہے گا، بدعنوان ہمارے لیڈر ہونگے جو ملک میں کبھی خوشحالی نہیں آنے دینگے!
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998)

تازہ ترین