• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی انتظامیہ دنیا میں سب سے زیادہ مستحکم مانی جاتی ہے کیونکہ عہدیداروں کو آئینی تحفظ اور کانگریس کی باضابطہ توثیق حاصل ہوتی ہے۔کانگریس کی بہت سی کمیٹیاں مختلف وزارتوں کو دیکھتی ہیں ، اس طرح یہ کمیٹیاں امریکی خفیہ ایجنسیوں ایف بی آئی اور سی آئی اے کو بھی دیکھتی ہیں۔ یہ دونوں دنیا کی طاقتور ترین خفیہ ایجنسیاں مانی جاتی ہیں بلکہ سی آئی اے تو دنیا میں حکومتیں گرانے کے لئے بھی مشہور ہے۔ایف بی آئی اور سی آئی اے دونوں کے ایجنٹس مختلف ممالک میں قائم امریکی سفارتخانوں میں مختلف عہدوں پر تعینات ہوتے ہیں ، عہدے کو اپنی شناخت پوشیدہ رکھنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، ان ایجنٹوں کو ہیڈکوارٹر سے مختلف ذمہ داریاں تفویض کی جاتی ہیں۔ بنیادی طور پر یہ دونوں ایجنسیاں امریکی حکومت کے آنکھ اور کان ہیں۔ عام طور پر سفارتکار جو کہ امریکی دفتر خارجہ کا حصہ ہوتے ہیں سے بھی یہ ایجنسیاں کام لیتی ہیں ۔ بنیادی طور پر امریکی وزیر خارجہ اور سی آئی اے ڈائریکٹر دونوں کی کامیابی کا دارومدار ان ایجنسیوں کی بیرون ممالک تعینات ٹیموں کی کارکردگی کے بل پر ہوتا ہے۔امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے ایک سال کے عرصہ میں ایف بی آئی ڈائریکٹر جیمز کومے، ایف بی آئی ڈپٹی ڈائریکٹر اینڈریو میک کیب ، چیف اسٹرٹیجک اسٹیو بینن سمیت کئی سینئر عہدیداروں کو برطرف کر دیا ہے حال ہی میں امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ ریکس ٹیلرسن کو برطرف کیاگیا ہے۔ان میں سے کچھ کو تو ٹرمپ نے برطرف کیا ہے جبکہ اکثر نے خود کسی نہ کسی وجہ سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے ۔ اوباما انتظامیہ کے دور سے ایکٹنگ اٹارنی جنرل کے عہدے پر تعینات سیلے ییٹس برطرف ہونے والوں میں پہلے نمبر پر ہیں، انہیں 30جنوری 2017 کو ہٹایا گیا جب انہوں نے ٹرمپ کی سفری پابندیوں کی توثیق کرنے سے انکار کر دیا۔ 13 فروری کو نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر مائیکل فلن نے استعفیٰ دے دیا جب ان کے بارے میں یہ تنازع پیدا ہوا کہ انہوں نے روسی سفیر سرگئی کیسلائیک سے ہونے والی بات چیت کے بارے میں امریکی نائب صدر مائیک پینس کو گمراہ کیا۔عام طور پر وائٹ ہائوس اسٹاف کے چیف متعدد حکومتوں کے ساتھ کئی کئی سال تک کام کرتے رہتے ہیں لیکن 5مئی کو وائٹ ہائوس اسٹاف کی چیف انجیلا رائد کو برطرف کردیا گیااور برطرفی کی وجوہات واضح نہیں ہیں۔وائٹ ہائوس کے مطابق ایف بی آئی ڈائریکٹر جیمز کومے کو جسٹس ڈیپارٹمنٹ کی سفارشات پر برطرف کیا گیا۔ کومے کو 9مئی کو ہٹایا گیا۔ وہ سابق وزیرخارجہ اور صدارتی امیدوار ہلیری کلنٹن کی ای میلز کی تحقیقات کر رہے تھے۔ٹرمپ کے پہلے کمیونی کیشن ڈائریکٹر مائیک ڈبکے نے عہدے کا چارج سنبھالنے کے ٹھیک 3ماہ بعد ہی استعفیٰ دیدیا، ڈبکے نے عہدہ چھوڑتے وقت کہا کہ وہ ٹرمپ سے پہلے واقف نہیں تھے اور وہ ان کے ساتھ مزید نہیں چل سکتے۔6جولائی 2017ء کو آفس آف گورنمنٹ ایتھکس کے ڈائریکٹر والٹر شوب نے صدر کے ساتھ متعدد بار اختلاف ہونے کی وجہ سے استعفیٰ دیدیا۔وائٹ ہائوس کے پریس سیکرٹری سین سپائسر کی ایڈوائس کے بغیر تعینات کیے جانے والے ٹرمپ کے ڈائریکٹر کمیونیکیشن انتھونی سکاراموسی نے نئے چیف آف اسٹاف کے دبائو کی وجہ سے 21جولائی 2017ء کو عہدہ چھوڑ دیا ۔انہوں نے وائٹ ہائوس کے اسسٹنٹ پریس سیکرٹری مائیکل شارٹ کو بھی عہدے سے ہٹانے کی بات کی تو 25جولائی 2017ء کو اسے بھی فارغ کردیا گیا۔ انتھونی 11دن بھی اپنی نوکری جاری نہ رکھ سکے ۔ ٹرمپ کے حامیوں کی طرف سے شدید تنقید کے بعد رینس پرائبس نے چیف آف اسٹاف کے عہدے سے 6ماہ بعد ہی 28جولائی 2017ء کو استعفیٰ دیدیا۔اسٹیوبینن کو 18اگست 2017ء کو وائٹ ہائوس کے چیف اسٹرٹیجک کے عہدے سے ہٹا دیاگیا، انہیں ہٹانے کیلئے کافی دبائو آ رہا تھا۔ جان کیلی کی تعیناتی کے بعد وہ وہائٹ ہائوس میں قریباً گوشہ نشین ہو گئے حالانکہ وہ عوامی آدمی تھے۔25اگست 2017ء کو وائٹ ہائوس کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ سباسچین گور کا ٹرمپ انتظامیہ میں بطور کائونٹر ٹیرورزم ایڈوائزر کام جاری نہیں رکھیں گے، بعدازاں گورکا نے کہا کہ انہوں نے خود استعفیٰ دیاتھا، برطرفی کے بعد گورکا نے کہا کہ ٹرمپ کا عوامی ایجنڈا اسٹیبلشمنٹ نے ہائی جیک کر لیا ہے۔سیکرٹری صحت ٹوم پرائس نے 29ستمبر 2017ء کو استعفیٰ دیدیا جب ان پر مسلسل تنقید کی گئی کہ انہوں نے 40ہزار ڈالر اپنے دوروں پر خرچ کر دیےہیں۔ڈینا پائول جو ٹرمپ کی ڈپٹی سکیورٹی ایڈوائزر اور مشرق وسطیٰ پالیسی کی روح رواں تھیں نے 8دسمبر 2017ء کو استعفیٰ دیدیا ۔سابق’’ Apprentice ‘‘اسٹار اوماروسانیومین کو وائٹ ہائوس آفس آف پبلک لائزن کے ڈائریکٹر کمیونیکیشن کے عہدہ سے 13دسمبر 2017 کو ہٹا دیا گیا جب ان پر اس حوالے سے کافی تنقید ہوئی کہ انہوں نے وائٹ ہائوس میں 39افراد کو بلا کر فوٹو شوٹ کیا تھا۔سابق بیویوں پر تشدد کے الزامات سامنے آنے کے بعد وائٹ ہائوس کے اسٹاف سیکرٹری روب پورٹر نے 7فروری کو استعفیٰ پیش کر دیا۔9فروری کو وائٹ ہائوس میں اسپیچ رائٹر ڈیوڈ سورینسن نے گھریلو تشدد کے الزامات سامنے آنے کے بعد استعفیٰ دیدیا۔وائٹ ہائوس کی ڈائریکٹر کمیونیکیشن ہوپ ہکس 28فروری کو اپنے استعفیٰ کا اعلان کر چکی ہیں ،البتہ وہ آنے والے دنوں میں باضابطہ طور پر عہدے سے الگ ہو جائیں گی، وہ ٹرمپ کیساتھ دیگر عہدیداروں کی نسبت لمبا عرصہ کام کرتے رہیں، ہوپ نے ایک انٹیلی جنس پینل کے سامنے اعتراف کیا کہ وہ ٹرمپ سے متعلق بعض اوقات جھوٹ بولتی رہی ہیں البتہ انہوں نے روس کے خلاف ہونے والی تحقیقات میں بالکل جھوٹ نہیں بولا۔ایف بی آئی ڈپٹی ڈائریکٹر انڈریو میک کیب کو 16مارچ کو عہدے سے برطرف کردیا گیا، وہ 2دن بعد ریٹائر ہونے والے تھے، اپنی برطرفی کو انہوں نے ’’ٹرمپ کی ایف بی آئی کیخلاف جنگ‘‘ کا حصہ قرار دیا، انہوں نے کہا کہ انہیں اپنا کردار اچھے طریقے سے نبھانے اورجیمز کو مے کی برطرفی کے بعد کئی اقدامات کرنے اور واقعات کا گواہ ہونے کی وجہ سے ہٹایا گیا۔ٹرمپ کے لمبی مدت کے ساتھی جان میک اینٹی کو وائٹ ہائوس سے ہٹا کر 13 مارچ کو ٹرمپ کی 2020ء کمپین میں بطور سینئر ایڈوائزر تعینات کر دیا گیا۔سیکرٹری آف اسٹیٹ ریکس ٹیلرسن فروری 2017ء سے اپنے عہدے پر تعینات تھے، ان کی برطرفی کی خبریں کئی ماہ سے زیر گردش تھیں، خاص طور پر جب انہوں نے جولائی 2017ء میں متعدد کابینہ ارکان کے سامنے ٹرمپ کو ’’بیوقوف‘‘ کہاتھا۔ اب سی آئی اے کے ڈائریکٹر مائیک پومپیو ٹیلرسن کی جگہ لے چکے ہیں۔ ان سب ایڈوائزرز کی پروفائل دیکھی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وائٹ ہائوس میں آمد سے قبل وہ ٹرمپ کے قریبی ساتھی تھےاورٹرمپ نے ان کی تعریفیں کی تھیں۔ دنیا حیران ہے کہ ٹرمپ کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے یا برطرف ہونے والے مشیر صدر کی توقعات کے مطابق ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام رہے۔ سابق صدورجارج بش اور باراک اوباماکی انتظامیہ کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ٹرمپ کی نسبت دونوں سابق صدور کی حکومتیں زیادہ مستحکم تھیں اور ان کی پالیسیوں میں تسلسل نظر آتا ہے۔ کونڈو لیزا رائس، جان کیری اور ہیلری کلنٹن جیسے وزرائے خارجہ نے اپنے عہدوں کی مدت پوری کی۔ مجھے ان تینوں کے ساتھ کام کا موقع ملا ۔ تینوں انتہائی قابل اور پیشہ ور تھے، ٹیلرسن میں بھی اپنے پیشروئوں جیسی انتظامی، ذہنی اور سفارتی صلاحیتیں موجود تھیں تاہم وہ ٹرمپ کی توقعات پر پور ا ا ترنے میں ناکام رہے۔ظاہر ہے ٹرمپ کو تب تک گلوخلاصی نہیں ملے گی جب تک وہ امریکی عوام کو برطرف کئے گئے عہدیداروں کی نااہلی کی تفصیلات نہیں بتائیں گے، امریکی عوام صدر سے اہم عہدوں پر تعیناتی کے لئے غلط افراد کے انتخاب پر سوال کرسکتے ہیں کیونکہ انتہائی نازک عہدوں پر فائز ان عہدیداروں کی برطرفی کا مسئلہ ناصرف امریکیوں کے لئے اہم ہے بلکہ یہ پوری دنیا کے ساتھ جڑا ہوا ہے کیونکہ امریکہ سپر پاور ہے۔آیئے دیکھتے ہیں کس طرح:۔٭ ٹرمپ نے دہشت گردوں کے خاندانوں کو بھی مارنے کی وکالت کی۔٭ انہوں نے دہشت گردوں سے تفتیش کے دوران ’واٹر بورڈنگ ‘ کے استعمال کی وکالت کی ، چاہے اس سے مطلوبہ معلومات نہ بھی مل سکیں۔٭ انہوں نے خواتین کو اسقاط حمل پر سزا دینے کی بات کی۔٭ انہوں نے ایک رپورٹر کی معذوری کا عوامی سطح پر مذاق اڑایا۔٭ انہوں نے اورلینڈو کے نائٹ کلب میں فائرنگ سے 49افراد کی ہلاکتوں پر بات کرتے ہوئے نہ صرف مسلمانوں کو ہدف تنقید بنایا بلکہ کانگریس پر بھی طنز کیا۔٭ انہوں نے گوروں کی بالادستی کی بات کرتے ہوئے غلط اعدادوشمار پر مبنی ٹوئیٹس کو ری ٹوئیٹس کیا۔٭ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے نیو جرسی میں ہزاروں مسلمانوں کو نائن الیون حملے پر جشن مناتے دیکھا۔٭ وہ اپنے بل ادا نہیں کرتے اور ٹیکس ریٹرن دکھانے سے بھی انکاری ہیں۔٭ ایک بار ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ نہیں جانتے کہ امریکی آئین میں کتنے آرٹیکلز ہیں اور بریگزٹ کا مطلب کیا ہے۔ یہ چیزیں ان کی بطور امریکی صدر جہالت کو ظاہر کرتی ہیں۔٭ انہوں نے اپنی بیٹی کے بارے میں کچھ اس طرح تضحیک آمیز باتیں کیں کہ ’’اگر ایوانکا میری بیٹی نہ ہوتی تو شاید میں اس کے ساتھ ڈیٹ پر جاتا‘‘۔ٹرمپ کے ان بیانات اور اب تک کے اقدامات کو دیکھ کر یہ سمجھنا ہر گز مشکل نہیں کہ امریکی صدر اس بات سے بھی نابلد ہیں کہ انہیں بحیثیت صدر کس موقع پر بولنا ہے اور کہاں زبان بند رکھنی ہے۔ اگر یہی وطیرہ جاری رہا تو وہ دن دور نہیں جب امریکہ کو اپنے صدر کی وجہ سے دنیا میں سبکی اٹھانی پڑسکتی ہے۔برطرف کئے گئے 22 عہدیداروں میں سے ہر ایک کی اپنی کہانی ہےاور یقیناً ان عہدیداروں کی کہانیوں پر مبنی درجن بھر کتابیں دنیا کو پڑھنے کو ملیں گی ۔جلد بازی میں کی گئی یہ برطرفیاں یہ سوال اٹھانے پر مجبور کرتی ہیں کہ کیا ٹرمپ اپنے سے پہلے صدور کی طرح سی آئی اے اور ایف بی آئی کی خدمات حاصل کرکے خاطر خواہ استفادہ کرتے رہے یا نہیں۔ ایک اہم سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا یہ دونوں بڑی ایجنسیاں ٹرمپ کو سپورٹ بھی کر 

رہی ہیں یا نہیں؟ چونکہ اقدامات سے تو دونوں طرف غیر یقینی اور عدم اعتماد کی فضا نظر آتی ہے۔ایک ایسی عالمی طاقت جو سی آئی اے کی طاقت کے بل بوتے پر دنیا میں حکومتیں بناتی اور گراتی آئی ہے اب اندرونی بحران سے گزر رہی ہے، کیا دنیا کو کبھی امریکا کی عدم مداخلت کی پالیسی دیکھنے کو ملے گی؟ٹرمپ نے نسل پرستانہ بیان دیتے ہوئے کہا کہ ایک امریکی نژاد جج ’اپنے میکسیکن ورثے کی وجہ سے‘جانبدار نہیں ہو سکتا ،انہوں نے میکسیکو کے مہاجرین کو ’’زانی‘‘ قرار دیا،ٹرمپ کے اکثر اقدامات کسی ضابطے کے مطابق نہیں بلکہ اس کی ذاتی خواہشات پرمبنی نظر آتے ہیں۔ ٹرمپ کے کام کو خاص طور پر دیکھا جائےگا، امریکی نظام کے ضابطوں کے برعکس ٹرمپ نے حکومتی امور چلانے کے لئے ابلاغ کا ایک نیا طریقہ اختیار کیا ہے۔ امریکی عوام نے شاذونادر ہی ٹرمپ کے پالیسی بیانات مخصوص ذرائع سے سنے یا دیکھے ہوں گے ورنہ اس کے اکثر پالیسی بیانات ٹویٹر کے ذریعے ہی عوام تک پہنچتے ہیں اور اس وجہ سے امریکہ کو متعدد مواقع پر سبکی اٹھانا پڑی ہے۔ ٹرمپ کے ٹویٹر بیانات اور مختلف ممالک کو دھمکیاں کسی طرح بھی ایک سپر پاور کے صدر کو زیب نہیں دیتے۔ ٹویٹر پیغام کے ذریعے پاکستان اور شمالی کوریا کے صدر کو دھمکیاں صرف اس کے جذبات میں الجھائو کو ظاہر کرتے ہیں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر ٹرمپ وہ ماہرین کی رائے لے تو اسے ہرگز ناپسندیدہ ٹویٹس کرنے کی اجازت نہیں ملے گی۔ آئینی تحفظ رکھنے کے باوجود امریکی انتظامیہ ٹرمپ کی طرف سے کی جانے والی برطرفیوں کو روکنے میں ناکام رہی اور اس سے مجھے مشہور ٹی وی شو ’’یس منسٹر‘‘ یاد آ رہا ہے۔ دراصل سرکاری حکام نے اسی جملے کی پیروی کی ہے بلکہ ایسا لگتا ہے کہ ’’یس مسٹر پریذیڈنٹ‘‘ کا جملہ اَپنایا ہے کیونکہ ٹرمپ کسی بھی چیز کے بارے میں ’’نو‘‘ سنناپسند نہیں کرتا۔ ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے جلدبازی اور غیر مستحکم انداز میں لیے گئے فیصلے ناصرف امریکہ بلکہ پوری دنیا کے لئے نقصان دہ ثابت ہوں گے۔ کیا ٹرمپ امریکا کو ذاتی سلطنت سمجھتے رہیںگے یا قابل مشیروں کے ساتھ بھی کام کریں گے؟ کیونکہ ان کی ایک غلطی امریکہ کو بہت بھاری پڑ سکتی ہے۔ ذیل میں ٹرمپ کے کچھ بیانات دیئے گئے ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ وہ حکومت چلانے کے اصولوں سے کس حد تک نابلد ہیں۔٭ٹرمپ نے کہا کہ وہ امریکی فوج کو جنگی جرائم کرنے پر مجبور کریں گے۔٭اس نے عورتوں کے خلاف نہایت ہتک آمیز اور اخلاق سے گرا ہوا بیان دیا۔٭اس نے امریکہ میں مسلمانوں کی نشاندہی کے لئے ایک ڈیٹا بیس بنانے اور مساجد بند کروانے کا بیان دیا۔٭اس نے حکومت سنبھالتے ہی مسلمانوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی عائد کر دی۔اب دنیا کو امریکی صدارتی انتخابات میں روسی مداخلت پر ایف بی آئی کے سابق ڈائریکٹر میولر کی رپورٹ کا انتظار ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ ٹرمپ کو الزامات سے چھٹکارا ملے گا یا مزید پھنسیں گے، اس کے ساتھ ہی تاریخ ثابت کرے گی کہ ہٹائے جانےو الے ایڈوائزر زنااہل تھےیا ٹرمپ خود۔

تازہ ترین