آج سے ٹھیک 78برس پہلے لاہور کے منٹو پارک میں قائداعظم محمد علی جناح کی زیرصدارت ایک ایسا تاریخی جلسہ منعقد ہوا جس نے ہمارے پیارے وطن پاکستان بنانے کی راہ ہموار کی، 23مارچ کے جلسے میں برصغیر بھر سے نمایاں سیاسی و سماجی شخصیات نے قائداعظم کی قیادت پر اپنے بھرپور اعتماد کا اظہار کیا۔ میری معلومات کے مطابق انسانی تاریخ میں قیامِ پاکستان جیسی کوئی مثال نہیں ملتی، یہ حقیقتاً تاریخ کا ایک منفرد واقعہ ہے کہ آزادی کا جذبہ لئے لاکھوں افراد نے اپنے لئے آزاد مملکت کا مطالبہ کیا اور سات سال کے قلیل عرصے میں اپنی پرامن تحریک ِ پاکستان کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ تحریک پاکستان کے ولولہ انگیز واقعات کا مطالعہ سوچنے پر مجبور کردیتا ہے کہ وطن سے محروم لوگ اپنے لئے الگ ملک لینے میں تو کامیاب ہوگئے لیکن ملک سنبھالنے میں ناکام کیوں ہورہے ہیں؟ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کیلئے ہمیں اپنی قومی تاریخ کو سمجھنا ہوگا۔ بطور تاریخ کے طالب علم میرا ہمیشہ سے یہ ماننا رہا ہے کہ تاریخ کے اوراق میں بہت سے سبق پوشیدہ ہوتے ہیں اور زندہ قومیں کبھی اپنی تاریخ فراموش نہیں کرتیں بلکہ سبق حاصل کرتی ہیں۔ پاکستان کا قیام خالصتاً جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں عمل میں آیا تھا اور بانی پاکستان قائداعظم ایک اصول پسند، بلند کردار اور جمہوریت پسند لیڈر تھے۔ عالمی منظرنامے میں پاکستان کی موجودگی روز اول سے نہایت اہمیت کی حامل رہی ہے،آزادی کے فوراً بعد اپنے زمانے کی دونوں سپرپاورز پاکستان سے قریبی تعلقات کی خواہاں تھیں، پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان سویت یونین کا دعوت نامہ ٹھکرا کر اگر امریکہ گئے تو اس کی وجہ یہی تھی کہ جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں آزاد ہونے والا پاکستان اپنے آپ کو نظریاتی طور پر امریکہ کا فطری اتحادی سمجھتا تھا۔ افسوس کا مقام ہے کہ پاکستان جسے عالمی برادری کے سامنے ایک کامیاب رول ماڈل ملک کے طور پر سامنے آنا تھا وہ روز بروز تنزلی کاشکار ہے، عالمی سطح پر پاکستان کو نت نئی سازشوں کا بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے، آج ہمارے مسائل کی ایک بڑی وجہ قائداعظم کے وژن کو نظرانداز کرکے خودغرضی، بے ایمانی، مفاد پرستی اور بداعتمادی کی راہ اختیار کرنا ہے، قومی مفاد پر ذاتی مفادات کو ترجیح دینے کی روش نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا،میں نے ایسی منفی سیاست دنیا کے کسی ملک میں نہیں دیکھی جہاں اصولوں اور کردار پر کمپرومائز کیا جاتا ہو۔ ہماری اپنی کمزوریوں نے مخالفین کے حوصلے اتنے بلند کردیئے ہیں کہ وہ جب چاہیں پاکستان کو سفارتی محاذپر پسپاکرنے کیلئے خصوصی واچ لسٹ میں شامل کرلیتے ہیں۔ مشرقی و مغربی سرحدوں پر کشیدگی اور امریکہ کے ڈومور کے بلاجواز مطالبات کا مقصد پاکستان کی ترقی کا پہیہ روکنا ہے، میرے خیال میں قائداعظم سمیت تحریک پاکستان کے تمام اکابرین کی نظر میں یہی وہ وژن تھا جس نے مطالبہ پاکستان کو تقویت بخشی، دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلم لیگ کا سبز ہلالی پرچم اٹھا کر پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے والوں میں مسلمانوں کے ساتھ غیرمسلم بھی شامل تھے، یہ تمام غیرمسلم قائداعظم کے مطالبہ پاکستان کی حمایت اس بناء پر کرتے تھے کہ مسلمان اکثریتی ملک میں تمام شہری باہمی طور پر ملکی ترقی میں بھرپور کردار ادا کرنے کے قابل ہوسکیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج پاکستان تاریخ کے نازک دور سے گزر رہا ہے اور ہمارے ملکی حالات روز بروز گمبھیر ہوتے جارہے ہیں، پاکستان کو مسائل کے منجدھارسے نکالنا کسی ایک آدمی یا ادارے کے بس کی بات نہیں بلکہ تمام اداروں کو ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنا ہوگا، اس کیلئے ضروری ہے کہ تمام قومی اداروں کی توقیر یقینی بناتے ہوئے احترام کا رشتہ قائم رکھا جائے، میں مانتا ہوں کہ ہمارے قومی اداروں سے کچھ غلطیاں سرزد ہوئی ہیں لیکن اس کا مطلب کسی طور یہ نہیں کہ ہم الزام تراشی پر اتر آئیں، ہمیں ملکی مفاد میں اداروں کی بہتری و استحکام کی بات کرنی چاہئے۔ ہماری قومی تاریخ میں پارلیمان، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کا بہت کلیدی کردار رہا ہے۔ میں سوفیصدی اس بات سے متفق ہوں کہ پارلیمان سپریم ہے، پارلیمان میں عوامی مسائل کیلئے موثر قانون سازی کیلئے ضروری ہے کہ وہاں عوام کے حقیقی نمائندوں کی موجودگی یقینی بنائی جائے، ایسے حقیقی پارلیمانی نمائندے جو کسی کی ذاتی پسند ناپسند نہیں بلکہ عوام کے ووٹ کی طاقت سے پارلیمان میں آئیں، اسی طرح تمام قومی اداروں کو اپنے آئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی چاہئے، میں سمجھتا ہوں کہ اختیارات سے تجاوز یا کسی دوسرے ادارے کے معاملات میں مداخلت کرنے کے منفی نتائج پورے ملک و قوم کو بھگتنا پڑتے ہیں۔ ایک آزاد عدلیہ کسی بھی جمہوری معاشرے کا اعزاز ہوا کرتی ہے، پسندیدہ فیصلہ ہو یا ناپسندیدہ اعلیٰ عدلیہ کا احترام سب پرلازم ہے، جنگ عظیم کے زمانے میں جب برطانوی وزیراعظم چرچل کو دشمن کی تباہ کن بمباری کے بارے میں بتایا گیا تو چرچل نے تاریخی کلمات ادا کئے کہ اگر برطانوی عدالتیں اپنا کام صحیح طرح کر رہی ہیں تو برطانیہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ میں نے حالیہ دنوں میں قومی اسمبلی اجلاس سے اپنے خطاب میں گرینڈ جرگے کی تجویز پیش کردی ہے،میں سمجھتا ہوں کہ اگر قائداعظم پاکستان بنانے کی خاطر جمہوری انداز میں سب لوگوں کو اکٹھا کرسکتے تھے تو آج ہمیں بھی ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ملک کی ترقی کیلئے ایک عظیم الشان جرگہ منعقد کرانا ہوگا۔ بدقسمتی سے ہم نے احتساب کو سیاسی مخالفین پر کیچڑ اچھالنے کا سیاسی نعرہ بنادیا ہے، ہمیں چاہئے کہ ہم سب کیلئے یکساں احتساب کو یقینی بنائیں، ہمیں اپنی غلطیوں کو دہرانے کی بجائے سبق سیکھنا چاہئے، اب بھی وقت ہے،ہمیں احساس کرنا چاہئے کہ کسی بھی قسم کا تصادم پاکستان کو مزید پیچھے کی طرف دھکیل سکتا ہے، ہمیں اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ کرنے کیلئے اصلاحات کا مسلسل عمل متعارف کرانا چاہئے، اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے کے رحجان کی حوصلہ شکنی کرنی ضروری ہے، ہمیں اپنے خودساختہ مسائل سے جان چھرانے کیلئے اپنے آپ کو مثبت تعمیر ی سرگرمیوں میں مصروف رکھنا ہوگا، اگر ہم برطانوی سامراج کو شکست فاش دیکر آزادی حاصل کرسکتے ہیں تو آج پاکستان کو ایشیائی ٹائیگر بنانا بھی ناممکن نہیں۔ بطور محب وطن پاکستانی یہ میرے ضمیر کی آواز ہے کہ چیف جسٹس کی سربراہی میںایک ایسا گرینڈ جرگہ منعقد کیا جائے جو سیاسی، پارلیمانی نمائندوں، سول سوسائٹی ، میڈیا اور عسکری نمائندوں پر مشتمل ہو، اس جرگے کے سامنے ایک ہی ٹاسک ہو کہ ہم باہمی مشاورت سے ملکی مفاد کو مقدم رکھتے ہوئے نظام ترتیب دیں، جرگے کے ذریعے پاکستان میں کرپشن کے ناسور کا خاتمہ، قومی اداروں کا احترام، معاشی استحکام، انسانی حقوق کا تحفظ، رائٹ پرسن ایٹ رائٹ پلیس، میرٹ پر بھرتیاں وغیرہ جیسے قومی اہمیت کے معاملات پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے گرینڈ جرگے کے اختتام پر مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جائے جسکا نفاذہم سب قومی فریضہ سمجھ کر ادا کریں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم ایسا گرینڈ جرگہ منعقد کرنے میں کامیاب ہوگئے تو پاکستان نہ صرف ایک سال کے اندر ایشیائی ٹائیگر بننے کے قابل ہوسکے گا بلکہ عوام بھی خوشحال ہوں گے اور دشمن کے ناپاک ارادے بھی ناکام ہونگے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)