جنازہ تنگ گلی سے گزر رہا ہے۔ درمیان میں گندے پانی کا بہائو ہے۔ گٹر والے پانی کا۔ جنازہ اٹھائے ہوئے لوگ بمشکل جگہ بنا پا رہے ہیں۔ لیکن ہم خوش ہیں۔ شاید اس لئے کہ ہمارے ہاں سڑکوں کے جال بچھ گئے ہیں اور پھر لاہور میں 27کلومیٹر پر محیط اورنج ٹرین بھی تو مکمل ہونے والی ہے۔
پانی ختم ہورہاہے، رپورٹ بتاتی ہے کہ اڑھائی کروڑ سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں اور شاید ساڑھے چار کروڑ ذہنی اور جسمانی طور پر کمزور ہیں۔ بہتر تعلیم یافتہ لوگوں کا سوائے دو چار یونیورسٹیوں کے کوئی حال نہیں۔ تعلیم کی طرح صحت کا بھی ابتر حال ہے۔ کرپشن اپنے عروج پر ہے۔ یہ کرپشن اوپر سے لے کر نیچے تک ہر جگہ پھیلی ہوئی ہے۔ اس کے زیراثر پورامعاشرہ بدبودار گٹر بن چکا ہے، لیکن ہم خوش ہیں۔ کم از کم اس حوالے سے تحقیق کرنے والے ادارےتو یہی بتا رہے ہیں۔ خوشی کے اس معیار میں ہم برصغیر کے تمام ملکوں سے آگے ہیں۔ اپنے ازلی دشمن ہندوستان سے بھی، جس نے ٹیکنالوجی کی دوڑ میں اب چین اور دوسرے ترقی یافتہ ملکوں سے ٹکر لیناشروع کردی ہے۔ جس کی اکانومی اب دنیامیں سب سے تیزی سےترقی کر رہی ہے۔ اس کے اثاثے اب اربوں میں ہیں۔ہم اس کےمقابلے میں بھی خوش ہیں۔ ہماری اکانومی کا برا حال ہے۔ روپیہ اب کوڑیوں کے بھائو ہے۔ ڈالر اوردوسری کرنسیوں کےمقابلے میں اس کی کوئی وقعت نہیں۔ اس وجہ سے مہنگائی کا ایک نیا طوفان آنے والا ہے۔ پہلےسے موجود مہنگائی کے ہاتھوںہم پریشان تو ہیں لیکن ہم پھر بھی خوش ہیں۔غربت کے ہاتھوںآئے دن ماں باپ اپنے بچوں کو قتل کرکے خودکشیاںکر رہے ہیں۔ ہم ان کی تصاویر دیکھتے ہیں اور پھر شاید اور بھی زیادہ خوش ہو جاتے ہیں۔ ظاہر ہے اس کو دیکھنے کے بعدہماری باچھیں ہی کھلیں گی۔
دنیا بھر کے مبصرین اور سیاسی پنڈت ہماری صورتحال پر پریشان ہیں۔ ہمارے ہاں ڈیموکریسی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں یرغمال ہے۔ ہم اپنی معاشی بدحالی کا ملبہ ایک دوسرے پر ڈال رہے ہیں۔ ٹی وی اسکرینیں ایسے لیڈران اور تجزیہ کاروں سے بھری پڑی ہیں جو ایک دوسرے کو لعن طعن کرنے میں مصروف ہیں لیکن خوشی کے انڈیکس والا سروے ہمیں بتاتا ہے کہ ہمارے عوام خوش ہیں۔ ہندوستانیوںسے بھی زیادہ، بنگلہ دیش سے بھی زیادہ اورسری لنکا سے بھی زیادہ۔
سری لنکا میں اب لٹریسی ریٹ 97فیصد کے قریب ہے۔ بنگلہ دیش کی اکانومی مستحکم ہے ۔ اس کی ایکسپورٹ امپورٹ سے زائد ہے۔ ان کے ہاں غربت کی شرح میں کمی آ رہی ہے۔ تعلیم بہتر ہو رہی ہے۔ ادارے مضبوط ہیں۔ سیاسی ادارے بھی لیکن ان کو کیا معلوم خوشی کیاہوتی ہے۔ خوش تو ہم ہیں۔
غازی صلاح الدین بتاتے ہیں کہ صرف دہلی میں ایک ماہ میں بکنے والی کتابیں پورے پاکستان میں ایک برس میں بکنے والی کتابوں سے زیادہ ہوتی ہیں۔ ہندوستان میں یہ کتابیں صرف سائنس کے میدان میں نہیں بلکہ سوشل سائنسز اور ادب کے میدانوں میں بھی لکھی جارہی ہیں۔ہمارے ہاں میڈیکل سائنس پڑھنے والے بچے جانتے ہیں کہ اس وقت میڈیکل کی تقریباً تمام کتب ہندوستان سے تعلق رکھنے والے رائٹرز لکھ رہے ہیں۔ ہندوستان نے اپنی خلائی گاڑی مریخ تک پہنچا کر پوری دنیا کو حیرت میں مبتلاکردیاہے۔ ہمارے سائنس ہی کے نہیں بلکہ دوسرے شعبوں سےتعلق رکھنے والے لوگ دوسرے ملکوں سے تعلق رکھنےوالے لوگوں کے تھیسز چرا کر پی ایچ ڈی کی ڈگریاں لے رہے ہیں۔
ان کی ابتر صورتحال پر پرویز ہود بھائی بار بار روشنی ڈال رہے ہیں لیکن ہم اس پرخوش ہیں کہ ہمارےہاں پی ایچ ڈی حضرات کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔معلوم نہیں ایسے ادارے کے کردار کے حوالے سےہم اور خوش ہوں جو ہمیں جھوٹی تسلیاں دیتے ہیں۔ یہ کہہ کر کہ پاکستانی برصغیر کی سب سے زیادہ خوش قوم ہے اور اس غلط فہمی میں مبتلا قوم کی غلط فہمی میں اور اضافہ کرتے ہیں یا سر پیٹیں ایسے میں کہ مستقبل کا نقشہ مخدوش نظرآتاہے۔ دنیا ہماری جھوٹی ترقی کو جس میں سوائے چند سڑکوں اور ایک اورنج لائن ٹرین کے کچھ نہیں ہے، نہیں مانتی ہمیں یہ بتایا جارہا ہےکہ اب ہمارے قرضے 100ارب ڈالر سے زیادہ ہوچکے ہیں۔ ہمارے پاس ڈیڑھ ماہ سے زائد کےلئے اثاثے موجود نہیں ہیں اس کے بعد امپورٹ کیسے ہوگی ہم نہیں جانتے۔ ہمیں بتایا جارہاہے کہ اب ہمیں دوبارہ آئی ایم ایف سے قرض لیناپڑے گا اور اس کی شرائط بھی ماننا پڑیںگی۔ ان شرائط کے نتیجے میں مہنگائی اور بڑھے گی۔ بجلی،پانی، گیس اور مہنگے ہوں گے۔ ہم پھر بھی خوش ہیں اور کیوں خوش نہ ہوں ہمارے پاس ایٹم بم تو ہے ناں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)