• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے مردم شماری کے عبوری نتائج کی بنیاد پر حلقہ بندیوں کی ابتدائی فہرستیں جاری کر دی ہیں۔ نوٹیفکیشن کے مطابق 3اپریل تک اعتراضات داخل کئے جا سکتے ہیں ، چار اپریل سے 3مئی 2018ء تک اعتراضات نمٹانے کے بعد حتمی حلقہ بندیوں کی فہرستیں آویزاں کی جائیں گے۔ ان فہرستوں کے مطابق قومی اسمبلی کی کل نشستیں 272ہی رہیں گی ۔ بلوچستان کی جنرل نشستیں گیارہ سے بڑھ کر 16، خیبر پختوانخواکی 35سے 39ہوگئی ہیں، پنجاب کی نشستیں 148 سے کم ہو کر 141رہ گئی ہیں جبکہ سندھ کی 61اور فاٹا کی 12برقرار رہیں گی جبکہ وفاقی دارالحکومت میں 2کے بجائے 3قومی اسمبلی کے حلقے ہونگے۔ صوبائی اسمبلی کیلئے بلوچستان کی 51، خیبر پختونخوا99، پنجاب 297، سندھ کی 130جنرل نشستیں ہونگیں۔ قومی اسمبلی کا پہلا حلقہ پشاور کے بجائے اب چترال سے شروع ہوگا جبکہ آخری حلقہ این اے 272لسبیلہ ہوگا۔ اس لحاظ سے پورے ملک میں تما م حلقوں کے نمبر تبدیل ہوگئے ہیں، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کی آبادی کے لحاظ سے تقسیم کا جوفارمولا استعمال کیا گیا ہے اسکے مطابق کے پی میں قومی اسمبلی کیلئے آبادی 7لاکھ 82ہزار 651، صوبائی کیلئے ایک حلقہ کی آبادی3لاکھ 8ہزار 317، پنجاب میں قومی اسمبلی کیلئے 7لاکھ 80ہزار 266، صوبائی کیلئے 3لاکھ 70ہزار429، سندھ میں قومی اسمبلی کیلئے 7لاکھ 85 ہزار 135اور صوبائی اسمبلی کیلئے 3لاکھ 68ہزار 410جبکہ بلوچستان میں قومی اسمبلی کیلئے 7لاکھ 71ہزرا 546اور صوبائی اسمبلی کیلئے 2لاکھ 42ہزار 52نفوس پر مشتمل آبادی کا کوٹہ رکھا گیا ہے۔ اس طرح فاٹا کیلئے قومی حلقہ کی آبادی 4لاکھ16ہزار تین سو 80اور اسلام آباد کیلئے 6لاکھ 16ہزار 380رکھی گئی ہے ۔ الیکشن کمیشن نے اقوام متحدہ کے ادارے برائے ترقیاتی پروگرام کے ماہرین کی معاونت سے شمال سے کلاک وائز حلقہ بندیاں کی ہیں۔ گو اس طے شدہ فارمولے کے تحت یہ حلقہ بندیاں ہوئی ہیںلیکن اس سے حلقہ بندیوں کا جو بنیادی ڈھانچہ 1970ء سے چلا آرہا تھا وہ یکسر بدل گیا ، ایک رپورٹ کے مطابق جس دس فیصد کمی بیشی کے قانون کے تحت یہ حلقہ بندیاں ہوئی ہیں عملی طور پر 81حلقے ایسے ہیں جن میں اسکو مد نظر نہیں رکھ گیا، 59حلقوں میں آبادی کا فرق 11سے20فیصد کے درمیان ، 11حلقوں میں 21سے 30، چھ حلقوں میں 31سے 40فیصد تک فرق ہے۔ اسی طرح 5حلقوں میں 41سے 50فیصد فرق ہے اور 7حلقے ایسے ہیں جن میں آبادی 10لاکھ سے زائد اور 23حلقوں میں 9لاکھ سے زیادہ آبادی ہے جبکہ اسلام آباد کے تین حلقوں کی اوسط آبادی قومی شرح سے 14فیصد کم ہے۔ خیبر پختونخواکا ضلع بنوں جس کی آبادی 12لاکھ کے قریب ہے، وہ ووٹرز صرف ایک رکن قومی اسمبلی کو منتخب کریں گے جبکہ اسی صوبے کا ضلع ٹانک جس کی آبادی 4لاکھ سے کم ہے وہ بھی ایک رکن قومی اسمبلی منتخب کریں گے۔ بنوں کے بعد پنجاب میں دوسرا بڑا حلقہ حافظ آباد ہے جس کی آبادی 11لاکھ 56ہزار سے زائد ہے اور وہ بھی قومی اسمبلی کاایک نمائندہ منتخب کرسکیں گے ۔ دوسری طرف بلوچستان کا حلقہ این اے 262جس کی آبادی 3لاکھ 86ہزار ہے وہ بھی ایک رکن قومی اسمبلی کا انتخاب کریں گے۔ جہلم کے حلقہ این اے 67کی آبادی ساڑھے 5لاکھ ہے۔ سندھ حلقہ این اے 199شکار پور کی آبادی چھ لاکھ جبکہ این اے 197کشمورکی آبادی 11لاکھ ہے۔
اگر اکتوبر 2017ء میں الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری کردہ اعدادو شمار کاتجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ قومی اسمبلی میں ایک حلقہ ایک لاکھ 30ہزار ووٹروں سے 6لاکھ سے زائد ووٹوں پر مشتمل ہے۔ ملک بھر میں قومی اسمبلی کے دو حلقے ایسے ہیں جن میں ووٹرز کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے بھی کم ہو گی ، 13حلقوں میں ووٹروں کی تعداد ڈیڑھ سے ڈھائی لاکھ ،78حلقوں میں ڈھائی سے ساڑھے تین لاکھ کے درمیان ہے۔ پندرہ حلقوں میں ساڑھے چار لاکھ سے ساڑھے پانچ لاکھ ووٹرز ہیں۔
حلقہ بندیوں کی فہرستیں جاری ہونے کے بعد ن لیگ ، تحریک انصاف ، ، پی پی پی،متحدہ ، جے یو آئی اور جماعت اسلامی سمیت تقریباً ہر جماعت نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اب تک کی رپورٹس کے مطابق 8سو سے زائد اعتراضات جمع کرا دیئے گئے ہیں۔ رپورٹس میں کہاجارہا ہے کہ یہ اعتراضات کئی ہزار ہو سکتے ہیںجبکہ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ابھی بہت کم اعتراضات آئے ہیں، ان اعتراضات کو نمٹانے کیلئے الیکشن کمیشن نے ایک مہینہ رکھا ہے اور لگتا نہیں کہ ایک مہینے میں نمٹائے جا سکیں گے ،الیکشن کمیشن کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ ہمار ااختیار ہے ، کسی کو مداخلت نہیں کرنے دینگے۔ اگر الیکشن کمیشن مقررہ وقت میں یہ نہ نمٹا سکا تو پھر نگراں حکومت آ جائیگی۔ جس سے ان خدشات کا اظہار ہورہا ہے کہ الیکشن بروقت نہیں ہو سکیں گے۔ سب سے بڑا اعتراض یہ سامنے آیا ہے چونکہ حلقہ بندیاں مردم شماری کے عبوری نتائج کی بنیاد پر کی گئی ہیں ، حتمی نوٹیفکیشن جاری ہوچکا ، اسلئے اب اسکے تحت حلقہ بندیاں ہونی چاہئیں ۔ یہ اعتراض بھی سامنے آ رہا ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل میں طے ہوا تھا کہ مردم شماری پر دوبارہ نظر ثانی ہوگی،پانچ فیصد پر باقاعدہ مردم شماری کرائی جائیگی۔ جس میں 18ہزار بلاکس کی نظرثانی شامل ہے۔ کہا جارہا ہے کہ ووٹروں کی تقسیم انداز سے ہوئی ہے کہ حکومت کے حامی اگر دیہی علاقے میں ہیں تو انہیں شہر میں دکھایا گیا جبکہ شہری علاقے والے دیہی علاقے میں دکھائے گئے ہیں۔ بعض بااثر افراد کی مرضی کی حلقہ بندیاں بنانے کیلئے تحصیل اور پٹوار سرکل میں تبدیلی کی گئی ہے ،میدانی علاقے میں ایک حلقہ دو لاکھ 65 ہزار اور پہاڑی علاقے کا ایک حلقہ 3 لاکھ آٹھ ہزار آبادی کا بنایا گیا، حلقہ بندیوں سے متعلق قومی اسمبلی کی خصوصی ورکنگ کمیٹی میں بتایا گیا کہ حلقہ بندیوں کے نقشے گوگل اور سروے آف پاکستان کے نقشوں سے مطابقت نہیں رکھتے،ان حلقہ بندیوں سے سیاسی جماعتوں کے ووٹرز تقسیم ہو جائیں گے۔ اگر پارلیمانی کمیٹی نے حلقہ بندیوں کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو مسترد کر دیا تو بڑا قانونی بحران پیدا ہو جائیگا،دوسری طرف بلوچستان اسمبلی نے نئی حلقہ بندیوں کیخلاف متفقہ طور پر قرار داد منظور کر لی ہے ۔ قرار داد میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان کی بڑھتی ہوئی آبادی اور وسیع رقبے کو مد نظر رکھ کر نئی حلقہ بندیوں پر نظر ثانی کی اشد ضرورت ہے جسکے تحت قومی اسمبلی کیلئے ضلع وائز اور صوبائی اسمبلی کیلئے مزید بیس نشستوں کا اضافہ کیا جائے، یہ اعتراض بھی سامنے آیاکہ کئی حلقوں کو شمال سے کلاک وائز شروع نہیں کیا گیا ۔ پرویز خٹک کا حلقہ سب سے چھوٹا بنا دیا گیا ہے،آبادی کے بجائے ووٹرفہرستوں کی بنیاد پر حلقہ بندیاں ہونی چاہئیں ۔ الیکشن کمیشن کی خود مختاری کا مطلب یہ نہیں کہ ہمارے ساتھ ناانصافی ہو ، یہ پری پول دھاندلی ہے۔ اگر 7لاکھ 80ہزار آبادی کا تناسب پنجاب کیلئے ہے تو پورے ملک میں یہ ہونا چاہئے، بلوچستان میں قومی اسمبلی کی سیٹ 3لاکھ اور صوبائی اسمبلی کی نشست 4لاکھ آبادی کرنے کا کیا جواز ہے۔ بعض سیاسی جماعتوں کیساتھ ساتھ الیکشن کمیشن کے اندر بعض حکام طے شدہ اسٹینڈرڈ کو توڑ کر صوبوں کے اندر اضلاع کو جوڑ کر اپنی پسند کے مطابق نشستیں تخلیق کر رہے ہیں ،ان حلقہ بندیوں کے نتیجے میں بلوچستان اور خیبر پختوانخو کے نصف درجن اضلاع کے عوام کو شاید قومی اسمبلی میں نمائندگی بھی نہ مل سکے ، اسلئے الیکشن کمیشن کو چاہئے کہ وہ حلقہ بندیوں پر اعتراضات کو سنجیدگی سے لے اور جو جو اعتراضات اٹھائے جارہے ہیں اُنکو طے شدہ قانون کے مطابق نمٹائے ۔ اگر یہ حل بروقت نہیں نکلتا تو الیکشن سے پہلے دھاندلی کی آوازیں اٹھیں گی اور پھر الیکشن کا بروقت انعقاد ممکن نہیں ہوگا!
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین