• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زندگی میں اچھی اور بری دونوں مثالیں موجود ہیں۔ ان سے سیکھا اور فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ زہر قاتل ہے اور تریاق بھی، ہتھیار سے بیگناہ کوقتل کیا جاسکتا تو اپنابچائوبھی، آتشیں اسلحہ کے زور پر ڈاکہ ڈالاجاسکتا اور اسی سے ڈاکوئوں سے بچائو بھی ممکن ہے۔ شیخوپورہ کےانقلابی شاعر امین گیلانی کہتے ہیں:
آپ ہی تونے چھانٹے ہیں، کیا جانوں پھول کہ کانٹے ہیں
ہار نہیں تو باڑ بنا لے، کانٹے بھی بے کار نہیں
کاٹنے راہ میں بچھا کے مسافر کو اذیت دی جاسکتی انہی کی باڑ سے کھیت اور فصلیں محفوظ بنائی جاتی ہیں۔ عمرؓ کی تلواربڑی خطرناک تھی۔ حکمت، دانائی، فلاح، بھلائی اور محسن زماں ﷺ کا گلا کاٹنے نکلی، پھراسی کی حفاظت و وسعت کاذریعہ بن کر لوٹ آئی۔ ارسطوسے پوچھا ’’دانائی کہاں سے سیکھی؟‘‘ کہا ’’احمقوں سے۔‘‘ ’’وہ کیسے؟‘‘ بولا ’’یوں کہ میں انہیں قریب سے دیکھتا، غورسے مشاہدہ کرتا ہوں جو کچھ وہ کہتے اور کرتے ہیں، وہ نہیں کرتا۔
شر سے بچنے اور محفوظ رہنے کے کچھ اصول اور طریقے ہیں۔ انہیں اختیار کرنے سے زندگی میں بڑی آسانیاں اور سہولت ہو جاتی ہے۔ نبی آخر الزماںﷺ کی زندگی سے بڑی کوئی دانائی اور اسوہ نہیں۔ ہر صورت حال سے نمٹنے کے لئے ان کی زندگی میں بے شمار حکمت اور درست رہنمائی ہے۔ آپﷺ کی ہجو لکھنے والے شاعر، سید الشہدا امیرحمزہؓ کو شہیدکرنے والے ’’وحشی‘‘ ،سینہ پھاڑ کے کلیجہ چبانے والی ہندہ اور اس کا شوہر ابوسفیان، جو ہر جنگ میں خم ٹھونک کر مقابل آئے،اسلام اور مسلمانوں کو مٹا ڈالنے کا قصد کیا، راہ بدل کر رہنماﷺ کے رہرو بنے تو صحابی کے منصب پر سرفراز ہوکر رضی اللہ قرارپائے۔
کیا کوئی سیاسی جماعت ایک معمولی اور بے وقعت ووٹر کو اور کوئی نظریاتی تحریک اس کے نظریا ت کو قبول کرنے والے کارکن کو اپنی صفوں میں شامل کرنے سے انکار کرسکتی ؟ کیا ضروری ہے بد زبان، زبا ن دراز کو اپنے خلاف متوجہ رکھا جائے؟ کیوں نہ اس کی اصلاح کرکے اسے دشمنوں کے خلاف محفوظ کرلیاجائے۔ آج ہماری سیاسی زندگی میںشیخ رشید ٹھوس حقیقت ہیں۔ ایک ٹیلیویژن ٹاکرے میں عمران کے خلاف ان کا بیان اور کپتان کا انہیں چپراسی نہ رکھنے کا اعلان، ساری قوم کو زبانی یاد ہے۔ اسی شیخ رشید کی تقریر پر تحریک ِ انصاف کے کارکن فدا ہیں۔ اس نے آج کپتان کے مخالفوںکا ناطقہ بند کر رکھا ہے۔ ایک دن علیم خان، جہانگیر ترین ا ور ان کےساتھیوں کی بھی تحریک ِ انصاف میںشمولیت پر اعتراض کیا گیا تھا۔ یہاں تک کہ شمولیت کے بعد بھی خود تحریک ِ انصاف کی مجلس عاملہ میں ان کے خلاف تحریک پیش کرنے کی کوشش ہوئی۔ آج وہ سب اس کی تقویت کا ذریعہ ہیں۔
رضاکارانہ آنے والوں کی راہ روک کر کوئی تحریک کامیابی حاصل نہیں کرسکتی۔ شروع میں چھلنی لگانے والوں کا انجام جماعت اسلامی ہے۔ چھلنی کی ضرورت عہدیدار چننے اور ممبران اسمبلی بناتے وقت ہے۔ زیادہ باریک چھلنی کابینہ بناتے وقت لگائی جاسکتی ہے۔ جہاں تک نئے آنے والوں اور پرانے کارکنوں میں ترجیح کا معاملہ ہے، تو اگر کارکردگی اور قابلیت میں برابر ہیں تو پرانے کارکن کو ترجیح ورنہ نئے کو۔ ریاست کو موثراور درست طریقےسے چلانے کو ترجیح ہے، نہ کہ پرانے کو۔
فوج میں نئے افسروں کی بھرتی کے وقت راقم نے ایک نوجوان کے لئے سفارش کی تو مجاز افسر نے کہا ’’ضرور آپ کی سفارش کو سامنے رکھوں گا۔ اگر مجوزہ جوان 19 ہوگا تو اسے 21کر دیاجائے گا مگر 18کو21 کی گنجائش نہیں۔ پرانے 19کو 21میں بدلنے تک برداشت کیا جاسکتا ہے۔ اس سے زیادہ قوم پر بوجھ ہے۔‘‘
ہمارے دوستوں میں بھی بعض حاضر جواب برجستہ گو اور بذلہ سنج بھی ہیں ایسے کہ دوست ضائع ہوجائے مگر آیا ہوا فقرہ جانے نہیںدیتے مگر ناگفتنی سے پرہیز کرتے ہیں جن میں کچھ حیا کی کمی یا خود پرگرفت کمزور ہو تو پھر ’’چل سو چل۔‘‘ ان لوگوں کے ذہین ہونے میں کوئی کلام نہیں۔
عمران خان کے نئے پیرو اور تحریک انصاف کے ہم سفر ’’عامر لیاقت حسین‘‘ بھی ’’چل سو چل‘‘ گروپ سے تعلق رکھنے والے ذہین ہیں۔ ان کی اضافی خوبی یہ ہے کہ اپنے سابق ’’قائد‘‘ کی طرح بلاتکان بول سکتے ہیں۔ بانی متحدہ جرم کی دنیا کے ذہین اور کامیاب لوگوں میں شمار ہیں۔ جرم کو منظم کرنے، وحشی مجرموں کو قابو رکھنے کا ہنر جانتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی اپنی زندگی بھی ہر وقت خطرے میں رہتی ہے۔ جس کے بچائو کے لئے یہ دوطرفہ حکمت ِ عملی اختیار کرتے ہیں۔ ریاستی اداروں سے بچنے کےلئے محفوظ پناہ گاہ اور اندرونی خطرات سے نمٹنے کے لئے قریبی ساتھیوںپر گہری نظر۔ عبرت دلانے کے لئے بعض کو یوں راہ سے ہٹایا جاتا ہے سب جان لیں کہ جان کس نے لی مگر قانون کو نظر نہ آئے۔ بانی متحدہ اس میں طاق ہیں۔ متحدہ کے چیئرمین طارق عظیم اور فاروق ستار ’’اسی کافر ادا‘‘ کا نشانہ بنے۔ عامر خان اور آفاق احمد بھنک پڑنے پر خفیہ اداروں کی معاونت سے بچ نکلے۔ عامر لیاقت حسین دیکھتے ہی دیکھتے ’’متحدہ‘‘ کے منظر پر نمودار ہوئے۔ ممبر قومی اسمبلی بنےا وروزیر مذہبی امور مقرر ہوئے۔ ٹی وی پروگرام میں آئے تو اپنی ’’برجستہ گوئی اوربے تکان بسیار گوئی‘‘ سے شہرت پائی۔ قائد کو جن صفات نے متوجہ کیا تھا اب وہی خوبیاں کھلنے لگیں تو عامر لیاقت حسین کے لئے بھی ’’پروانہ راہداری‘‘ جاری کردیا گیا۔ جان کی امان کے لئے بولائے پھرتے تھے کہ انہی دنوں تحریک ِ انصاف کے چند کارکن ایم کیو ایم کی شکارگاہ میں نشانہ بنے تو کپتان نے جارحانہ بانی متحدہ کو للکارا اور للکارتے ہوئے ان کی راجدھانی (کراچی)جا اترے۔ بانی متحدہ کے لئے کپتان کی پیش قدمی قطعی غیرمتوقع تھی۔ وہ جانتا تھا کہ خان لندن میں اس کی زندگی مشکل بنا سکتا ہے۔ اس کی ساری توجہ عمران خان کے حملے سے بچائو کی طرف لگی تھی۔ یوں عامر لیاقت کو بچ نکلنے کی راہ ملی۔ اس کا اعتراف اس نے عمران خان سے ایک ملاقات میں کرتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ جس (کم ظرف) پر احسان کرو تو اس کے شر سے بچ رہنے کی تدبیر بھی سوچ رکھو۔ جو کچھ احسان تھا اس کوخان پر تبریٰ کرکے اور شادیوں بارے بدزبانی سے برابر کیا یوں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے قول پر حرف نہ آیا۔
حساب برابر ہو چکنے کے بعد تحریک ِ انصاف میں شمولیت پر کوئی خرابی نہیں۔اس میں شامل ہونے سے ’’متحدہ قائد‘‘ کے شر سے (جو کوئی تھوڑا بچ رہا ہے) محفوظ رہیں گے اور عمران خان کو ’’برجستہ گو زبان درازی سے نجات ملے گی۔‘‘ اب وہ تحریک انصاف کے مخالفوں پر برستی رہے گی۔ اسی میں دونوں کا بھلا دونوں کی خیر۔
خسارے میں وہ رہے جنہوں نے ہوٹل میں جا جا کے عامر لیاقت سے ملاقاتیں کیں، پرتکلف ناشتے پر بلایا بات بن ہی جاتی مگر ’’سوء اتفاق‘‘ میزبان نے اپنے ٹیلی ویژن کی آواز کم کرنےکے لئے ریموٹ کنٹرول کو الٹاپکڑ رکھا تھا۔ آواز کم نہ ہوئی تو ٹی وی کو الزام دیا، تیز طرار، حاضر جواب مہمان نے کہا ’’میاں صاحب! ریموٹ کنٹرول کو سیدھاکریں توآواز دھیمی ہوجائے گی۔‘‘ بات تو کچھ بھی نہ تھی ’’آئی گئی ہوجاتی‘‘ مگرزیادہ وفادار جنہیں چوہدری نثار کٹھ پتلی شمار کرتے ہیں، انہوںنے مہمان سے کہا ’’آپ نے صاحب کوشرمندہ کردیا۔‘‘ یہ جملہ ذہین مہمان کے سمجھنے کو کافی تھا، وہ بدک کے رک گیا۔
واحد جگہ جو بچ رہی او راس کے لئے محفوظ بھی وہاں پر اس نے نشست جمالی، جلنے والے جلا کریں۔

تازہ ترین