(گزشتہ سے پیوستہ)
گھر والوں کے پاکستان ہجرت کرنے کے بعد میں اپنے ہی شہر میں بے گھر اور اکیلا تھا۔ بے گھری کی ان تنہائیوں میں میرا مسئلہ وہ اقتصادی بحران تھا جو میرے نچلے متوسط طبقے کے ادب و آداب نے زیادہ شدید بنا دیا تھا۔
اس اقتصادی بحران کو کم کرنے کیلئے میں گوالیار چھوڑ کر بنجارہ صفت الگ الگ علاقوں میں آوارہ گردی کرتا ہوا سمندروں کی کشادگی میں پھیلے ہوئے اور ناریل کے پیڑوں کی طرح آسمان سے باتیں کرتے ہوئے شہر ممبئی آگیا۔
اونچی عمارتوں اور لمبے لمبے فاصلوں کے اس شہر نے ڈرایا کم جھنجھلایا زیادہ! یہی جھنجھلاہٹیں میری قوت بھی تھیں اور زندہ رہنے کی ضرورت بھی! قصباتی شہر گوالیار سے صنعتی شہر ممبئی تک دنیا اتنی جلدی بدلی تھی کہ درخت، آسمان، ہوا، سمندر اور انسان سب اجنبی محسوس ہوتے تھے۔
اس اجنبیت نے مجھ سے وہ سب کچھ چھین لیا جو ممبئی آنے تک میرے ساتھ تھا۔ میں نے گھر سے بے گھر ہونے کے بارے میں ’’لفظوں کا پل‘‘ کے دیباچے میں لکھا تھا۔
’’سن 65ء کی بات ہے میں بھوپال سے گوالیار آیا تھا۔ میں نے گھر کی گلی میں گھستے ہوئے اپنے آپ کو دیکھا تھا۔ دروازہ کھٹکھٹانے تک بھی میں اپنے آپ کو دیکھ رہا تھا لیکن اس کے بعد نہ جانے کیا ہوا، اٹیچی ہاتھ میں لئے جو سر جھکائے واپس آیا تھا، وہ میں نہیں تھا، کوئی اور تھا، مجھ جیسا ہی…! وہ بالکل اکیلا تھا۔ میرا یہ دوسرا روپ ایک ناراض آدمی کا روپ تھا جو ناراضگی میں اپنی اہمیت تلاش کرتا ہے۔ اس دور کی غزلیں، نظمیں اور گیت ’’مور ناچ‘‘ میں شامل ہیں۔
میرا یہ ذہنی رویہ ’’مور ناچ‘‘ کی منظوم تخلیقات کے ساتھ ’’ملاقاتیں‘‘ کے نثری مضامین میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ ’’مور ناچ‘‘ میں نظموں اور غزلوں کے ساتھ ہی ایک حصہ گیتوں پر بھی مشتمل ہے۔ ان گیتوں میں بھی موضوعات اور اظہار کے پیرایوں میں وہی ناراضگی اور جھلاہٹ نظر آتی ہے جو اس زمانے میں میرے حالات کی دین تھی۔
اقتصادی تگ و دو میں سیاحت، مذہب، معاشرہ، تہذیب سب اسی انفرادی ناراضگی کے آئینے میں بدلتی شکلوں میں نظر اتے تھے۔
یہ ایک فرد اور معاشرے کی تنہا لڑائی کی مہابھارت کے مماثل ہے۔ اس میں فرد کی بے چارگی بھی ہے، سیاست کا دبائو بھی ہے، حالات کا الائو بھی ہے اور ان کے ساتھ زندگی گزارنے کا تنائو بھی ہے۔ لسانی سطح پر ان گیتوں میں بھی میں نے اسی زبان کا استعمال کیا ہے جو نہ پنڈتانہ ہندی ہے، نہ مولویانہ اردو ہے۔ اسے اگر کوئی نام دیا جاسکتا ہے تو وہ عام آدمی کی اردو بھی ہوسکتا ہے اور پچھلی قطار والے کی ہندی بھی کہا جاسکتا ہے۔
گاندھی اسے دو رسم الخطوں میں ہندوستانی کہتے تھے۔ اس شعری زبان پر ایرانی اثرات کی جگہ وہ اثرات زیادہ نمایاں ہیں جو امیر خسرو کی عوامی زبان اور گولکنڈہ کی دکھنی آمیز زبان میں اپنی ابتدائی صورت میں ملتے ہیں جس میں رسم الخط کے علاوہ ہندی، اردو کا فرق نہیں ہے۔
یہ وہ زبان ہے جو گلی کوچوں میں اپنے پیروں سے چلتی ہے اور جذبات و احساسات کے ساتھ اپنا مزاج بدلتی ہے۔ ترقی پسندوں کے یہاں عوامی موضوعات کو اشرافیہ کی زبان میں بیان کیا جاتا ہے۔ میں نے عام آدمی کی ترجمانی عام زبان میں کرنے کا تجربہ کیا ہے۔
’’مور ناچ‘‘ جو ناراضگی اور جھنجھلاہٹ ملتی ہے، اس کا مجموعی مزاج منفیانہ ہے۔ یہ مزاج میری جدوجہد کے دنوں کا ردعمل ہے۔ منظوم تحریروں کے ساتھ اس ردعمل کا اثر ان دنوں کے میرے نثری مضامین پر بھی نمایاں ہے۔ اس میں سماجیت سے زیادہ انارکیت کی فضا حاوی ہے۔
تصویروں کے اس شہر میں نفرت بھی بہت ہے
اپنا سا ملے کوئی تو دشمن ہی بنا لے
’’مور ناچ‘‘ کی تلخی فکری انتشار اور مسلسل انکار میرا وجودی معیار تھا لیکن یہ میرے شعری سفر کے ایک پڑائو جیسا تھا، جہاں سے میں تیسری کتاب ’’آنکھ اور خواب کے درمیان‘‘ کے آتے آتے بڑی حد تک باہر آگیا تھا۔
تبدیلی کبھی یک لخت نہیں ہوتی۔ یہ اپنی رفتار سے راہ بدلتی ہے، لیکن تیسرے اور اس کے بعد کے شعری مجموعوں میں بڑی حد تک میں وہ نہیں تھا، جو ان سے قبل تھا۔ میری یہ بدلتی شکل جو میرے موضوعات کے انتخاب، لسانی انداز اور فرد کے معاشرے سے جڑنے کے تہذیبی اعتبار میں دکھائی دیتے ہیں۔
یوں تو میری خوشہ چینیوں میں انگریزی اور انگریزی کے واسطے سے کئی زبانوں کے فکشن اور شاعری، ملک کی بیشتر علاقائی بھاشائوں کا ادب شامل رہا ہے لیکن میری ذہنی وابستگی الگ الگ بولیوں کے ان ہندوستانی صوفی، سنتوں کی نگارشات سے زیادہ رہی ہے جو اردو شعری روایت کی وراثت سے کسی حد تک دور رہی ہیں۔
ان اثرات میں بڑا حصہ کبیر داس کی شاعری کا وہ پہلو ہے جس میں وہ دیکھی ہوئی دنیا کی بے ثباتی کے بجائے دنیا میں مذہبی تضادات کو اپنا موضوع بناتے ہیں۔
وہ انسان اور انسان کے درمیان پیدا کی گئی دوریوں کو ہٹاتے ہیں۔ کبیر، خدا اور انسان کے بیچ کسی وسیلے کی جگہ، خود اپنے شعور پر اعتماد کرتے ہیں لیکن کبیر کے دور میں اور ان کے چھ سو سال بعد کے زمانے میں جو فرق ہے، اس کی پہچان کو میں حسیت کہتا ہوں۔ یہی حسیت مجھے کبیر سے قریب ہوتے ہوئے کبیر سے دور بھی کرتی ہے۔ میں نے ایک جگہ غالب اور کبیر کا تقابل کرتے ہوئے لکھا تھا۔
کبیر اور غالب میں تھوڑا فرق ہے۔ کبیر سر پر آسمان رکھ کر زمین زادوں سے لڑتے تھے اور غالب آسمان والے اور زمین زادوں، دونوں سے جھگڑتے تھے۔ میں نے کبیر کی روحانی بصیرت اور غالب کی تشکیلی حکمت کے امتزاج سے رشتہ جوڑنے کا تجربہ کیا ہے۔ اس تجربے کا حاصل وہ مرکزی کردار ہے جسے عام آدمی کی اصطلاح سے یاد کیا جاتا ہے۔
اس عام آدمی کی تعمیر میں کبیر کی بصیرت اور غالب کی حکمت کے ساتھ تیسری دنیا کی سیاست کی حصہ داری سے انکار نہیں کیا جاسکتا جو روس کے انہدام کے بعد ایک عالمی طاقت کے زیراثر نئے نئے منصوبوں کا کھلونا بنی ہوئی ہے۔
اس عام آدمی کی جستجو میں، میں نت نئے تجربات سے روبرو ہوا ہوں۔ ’’کھویا ہوا سا کچھ‘‘ اس عام آدمی کو میں نے چھوٹے آدمی کے نام سے نظم کیا ہے جو ایک پونجی کی طرح سیاست، مذہب، ادب اور تجارت کی دنیا میں الگ الگ ہاتھوں میں الگ الگ طریقوں سے استحصال کا شکار بنا ہوا ہے۔
جس کے نام سے ہر کام کی شروعات ہوتی ہے اور مقصد پورا ہوجانے کے بعد جسے اپنی طرح سے جینے کیلئے چھوڑ دیا جاتا ہے، یہ وہی آدمی ہے جو ہر دور میں، ہر بار جیت کی طاقت ہے لیکن یہ تاریخی صداقت ہے کہ ہر دور میں وہی مرمر کے جیئے جانے کی قسمت ہے۔
یہ چھوٹا آدمی جس کے دکھ ہر نظام کی بقا کی ضرورت رہے ہیں، اسے میں نے ضرورت کے خاموش کھلونے کی طرح قبول نہیں کیا ہے۔ اس کی فعالیت میرے شعری رویئے کا معیار ہے۔ اس کے اپنے خواب ہیں، اپنا سنگھرش ہے اور اس میں تبدیلی کی خواہش کی چنگاریاں بھی روشن ہیں۔
یہ چھوٹا آدمی اپنی طاقت کے شعور کے ساتھ حالات کو مقدر کے حوالے نہیں کرتا، ان کو بدلنے کا حوصلہ بھی رکھتا ہے۔ اس عام شہری سے میرا شعری رشتہ زبان کی تبدیلی کا بھی باعث ہے۔ اس میں اردو کی مجموعی شعری زبان سے گریز ہی نہیں ملتا، رائج شعری ضابطوں سے پرہیز بھی ہے جو خیال آرائی کے ذیل میں آتے ہیں۔
یہاں کسی کو کوئی راستہ نہیں دیتا
مجھے گرا کے اگر تم سنبھل سکو تو چلو
٭…٭…٭
بازار، باغ، بلڈنگیں، سب شہر تو نہیں
کچھ ایسے ویسے لوگوں سے یارانہ چاہیے
٭…٭…٭
ہوگا وہ دیوتا مرے گھر میں تو سانپ تھا
خطرہ لگا تو مار دیا پھر کسی کو کیا
٭…٭…٭
وقت کے ساتھ ہے مٹی کا سفر صدیوں سے
کس کو معلوم کہاں کے ہیں کدھر کے ہم ہیں
٭…٭…٭
عربی آیتیں مقدس ہیں
ان کو اردو میں بھی پڑھو صاحب
(ختم شد)