• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں حزبِ اختلاف کا کردار روزِ اوّل سے محض برسراقتدار حکومت کو ہٹانے اور قبل اَز وقت اِنتخابات کے انعقاد پر مرکوز رہا ہے۔ حکمرانوں کی اوپر تلے غیر جمہوری تقرری کے سبب اِبتدائی 26برسوں تک ملک میں پارلیمانی حزبِ اختلاف (Parliamentary Opposition) نام کی کسی شے کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ اِس جمہوری تصور نے صحیح معنوں میں 1972میں پہلی منتخب حکومت کے قیام کے ساتھ ہی جنم لیا۔ لیکن جمہوریت کے تقاضوں کو مکمل طور پر پورا کرنے کا جذبہ ہمارے اپوزیشن لیڈرز کی تربیت، مزاج اور کردار میں ہمیشہ نایاب رہا ہے۔
جدید جمہوری نظام میں اپوزیشنز کے بنیادی فرائض برسراقتدار حکومت کی انتظامی خامیوں کی نشاندہی اور ایوان نمائندگان کے ذریعے حکومتی امور کو بہتر بنانے کی جدوجہد پر مشتمل ہوتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں اِن فرائض کو ایمانداری سے ادا کرنے کے بجائے ووٹ حاصل کر کے ایوانوں میں جگہ گھیرنے والوں کی اکثریت ہمہ وقت اِقتدار کی ہوس میں مبتلا رہتی ہے۔ سازشوں اور بدعنوانی سمیت بہتیرےغیر قانونی و غیر جمہوری ہتھکنڈے بھی استعمال کئے جاتے ہیں، طاقتور عناصر کا سہارا لینا بھی اِقتدار کی سیاست کے روایتی قصوں کا ناگزیر حصہ رہا ہے۔
گزشتہ پانچ برسوں سے نون لیگ کے مخالفین بھی حسب روایت یہی طریقہ اپنائے ہوئے ہیں۔ اگرچہ اُنہیں نون لیگ کی انتظامی کمزوریوں کی نشاندہی کے لئے اِس عرصے میں اَن گنت مواقع میسر رہے لیکن جلد سے جلد اِقتدار میں آنے کی خواہش نے معاملات کو میٹرو، پاناما اور اقامہ تک محدود رکھا، سو یوں حزب اختلاف کی بنیادی ذمہ داریوں کی حیثیت اِس بار بھی ثانوی اور مبہم سی رہی۔
دوسری جانب پی پی پی کے گزشتہ دور اقتدار میں نون لیگ کا کردار بھی کم و بیش اِسی مایوس کن روایت کا جیتا جاگتا نمونہ پیش کرتا رہا۔ بحیثیت حزب اختلاف جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام (ایف) اور ایم کیو ایم سمیت دیگر جماعتوں کی سرگرمیاں بھی عہدوں اور اختیارات کے حصول کی کوششوں سے آگے نہ جا سکیں! لیکن حکومت مخالف سرگرمیوں کے اِس بلا تخصیص تسلسل میں گزشتہ دنوں پی پی پی اور پی ٹی آئی کا سینیٹ الیکشن میں ہم آواز ہوجانا سال کا سب سے غیر معمولی واقعہ ہے۔ پیپلز پارٹی اگرچہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے بھی عموماً جمہوری روایات کی پاسداری کرتی رہی ہے لیکن اِس بار لگتا ہے جیسے یہ جماعت ماضی کی عوام دوست پیپلز پارٹی سے بہت مختلف ہے۔ دوسری جانب، اِسی دوران، نون لیگ ماضی میں آمروں کی خوشنودیوں اور بارہا اِقتدار کی طاقت سے فیض یاب ہونے کے باجود ملک میں مزاحمتی سیاست اورعوامی جدوجہد کی علامت بنتی دکھائی دے رہی ہے۔
اِس حقیقت سے انحراف کی فی الحال بہت گنجائش موجود ہے۔ لیکن تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال کے غبار میں مسلسل اقتدار میں رہنے کے باجود نون لیگ کو سیاسی تغیر کے کٹھن عمل سے، بادِل نخواستہ ہی سہی، مگر گزرنا پڑ رہا ہے۔ البتہ یہ کوئی نہیں جانتا کہ یہ تغیر، مستقل مداخلت اور جابجا موقع پرستی کے اِس دور میں، اپنا ارتقائی عمل مکمل کر بھی سکے گا یا نہیں! یہ بھی سچ ہے کہ مستقبل قریب میں نون لیگ کے سیاسی کردار میں اَگر سچ مچ ایسی کسی تبدیلی کا امکان موجود ہے تو کریڈٹ لیگی قیادت سے زیادہ اِس کے مخالفین کی سرگرمیوں کو جانا چاہئے۔
چند اِحباب کا خیال ہے کہ قیادت کے فقدان کے سبب نون لیگ کا یوں عوامی جماعت بن کر اُبھرنا ممکن نہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ نون لیگ جیسی جماعت کو عوامی جدوجہد سے جوڑنا تجزئیے سے زیادہ تجزیہ کار کی خواہش ہوسکتی ہے لیکن حال ہی میں محمد حنیف، محسن حامد، امینہ سیّد، عاصمہ جہانگیر اور فیدل کاسترو جیسی روشن خیال اور حقوق و مساوات کی علمبردار شخصیات کے لئے صدارتی ایوارڈز کا اعلان اِس حقیقت کا عندیہ ہے کہ اِس وقت برسر اقتدار جماعت شاید ماضی کی نون لیگ سے بہت مختلف ہے۔
صرف ایک یا ڈیڑھ سال پہلے بھی ملک بھر کی پسماندہ اکثریت تک رسائی نون لیگ کے لئے چیلنج تھی۔ لیکن گزشتہ چند ماہ میں منعقدہ ضمنی انتخابات کے نتائج کی روشنی میں پنجاب کے عوامی حلقوں میں اِس جماعت کی برھتی ہوئی مقبولیت بڑی کامیابی ہے۔ اُدھر اعلی ایوانوں میں حالات میں یکسر تبدیلی اُس وقت محسوس کی گئی جب چیئرمین سینیٹ کے انتخاب پر نون لیگ کی تجویز کی نہ صرف مخالفت کی گئی بلکہ اس عہدے کے لئے ایک غیر متوقع اُمیدوار پر پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی ہم آواز ہوگئے۔ سوشل میڈیا پر یہ تک کہا گیا کہ ملک کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار پنجاب نے عوام کا اور سندھ نے اشرافیہ کا ساتھ دیا ہے۔ لفظ اشرافیہ عموماً جملے کو قابل اشاعت بنانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
پیپلز پارٹی کا بدلتا ہوا سیاسی کردار ملک کی پسماندہ اکثریت کے لئے کسی طور خوش آئند نہیں! سال 1966میں پارٹی کے قیام، 1970میں پہلے شفاف انتخابات میں کامیابی، 1972میں ذوالفقار علی بھٹو کی بحیثیت وزیراعظم تقرری، 1976کے انتخابات میں فتح پر ملک گیر احتجاج کا سامنا، 1977میں بھٹو کی گرفتاری اور دو برس بعد پھانسی، بھٹو خاندان کا بکھر جانا، 1983میں ایم آر ڈی کی جدوجہد میں نمایاں کردار، 1986میں بے نظیر کی واپسی اور1988کے انتخابات میں کامیابی تک پیپلز پارٹی کی سیاسی داستان جبر کے خلاف مزاحمت اور قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔ لیکن تاثر ہے کہ پارٹی کے سیاسی کردار میں تبدیلی کا عمل دراصل 1988میں بے نظیر بھٹو کی بحیثیت وزیراعظم تقرری کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ بے نظیر کی وزارت عظمیٰ پر تقرری اور پی پی پی حکومت کی تشکیل اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت کی بدولت ہی ممکن ہوئی تھی لہٰذا سال 1993میں نواز حکومت کے جبری خاتمے کے بعد بے نظیر بھٹو کا دوسری بار منتخب ہوکر اِسی منصب پر دوبارہ فائز ہوجانا ملتی جلتی مفاہمت کے خدشات سے عاری قرار نہیں دیا جا سکتا!
ملک کی اِس مقبول جماعت کی جانب سے مفاہمت کا تیسرا باب جنرل پرویز مشرف کے دور میں این آر او کے سائے تلے بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی سے شروع ہوتا ہے۔ پاکستان میں اِیوان اقتدار تک پہنچنے کے معاملے میں اشرافیہ کی اہمیت کے تصور یا مفروضے کو حقیقت سمجھنے والوں کے لئے یہ کوئی خاص حیرانی کی بات نہیں تھی۔ پھر دسمبر 2007میںبے نظیر کے قتل کے بعد پارٹی کی نئی قیادت کے لئے ’مفاہمت‘ کے دروازے مکمل طور پر کھل گئے۔
تیزی سے بدلتی ہوئی پاکستان پیپلز پارٹی کا چوتھا اور اہم ترین دور آصف علی زرداری کی صدارت سے شروع ہوکر حال ہی میں چیئرمین سینیٹ کے انتخابات میں پی ٹی آئی سے گٹھ جوڑ پر مکمل ہوجاتا ہے۔ قابل غور حقیقت یہ ہے کہ ملک کی اِن دو سب سے بڑی جماعتوں کے نظریاتی کردار میں یہ غیر معمولی تبدیلیاں ایک ہی وقت میں رونما ہورہی ہیں اور یہ محض اتفاق نہیں ہوسکتا!
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین