• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس سے پہلے کے کالموں میں تیسری عالمی جنگ کی تیاریوں، 2018ء میں امریکہ کا نیا ایٹمی ڈاکٹرائن، امریکہ، روس، چین اور بھارت میں میزائلوں کی دوڑ، دفاعی نظام کی تیاریوں سے متعلق کچھ عرض کیا تھا ۔ صورتحال یہ ہے کہ تاحال کوئی بھی ملک میزائل کی تباہ کاریوں سے اپنے آپ کومحفوظ بنانے کا نظام نہیں بنا سکا ہے۔بھارت کے عالمی قوت بننے کے خواب کے بارے میں پچھلے کالم میں معروضات پیش کرچاہوں۔ اب یہ بتانا ضروری ہوگیا ہے کہ بھارت اور چین بحرہند میں اڈوں کے حصول کی دوڑ میں کہاں تک پہنچے ہیں، گوادر کی بندرگاہ سے پاکستان چین اقتصادی راہداری چین کے ’’ایک سڑک ایک پٹی‘‘ جس کو وہ ’’ابور‘‘ یعنی One Belt One Road کا نام دیتاہے اُس کے چھ راستوں میں سے ایک ہے، باقی پانچ راستے مختلف ممالک سے گزرتے ہیں اس لئے چین کو اپنے بحری جہازوں کو محفوظ بنانے کے لئے اڈوں کی ضرورت ہے، بھارت بحرہند کو اپنے زیراثر سمجھتا ہے تاہم بحر ہند میں دُنیا کے بحری بیڑے موجود ہیں، چین کا خیال تھا جیسا کہ اس کے ایک پروفیسر نے 2003ء میں اسلام آباد میں ہونے والے ایک مذاکرے میں کہا تھا کہ وہ اس وقت کا انتظار کررہے ہیں کہ کب چین اور امریکہ میں اس سلسلے میں تصادم ہوگا، مگر چین کے اندازوں کے برعکس بھارت اور امریکہ چین کے خلاف متحد ہوگئے ہیں۔ بھارت کو امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس اور دیگر ممالک کے بحری بیڑوں کی موجودگی پر اعتراض نہیں البتہ وہ چین کو اپنی راہ کا بڑا پتھر سمجھتا ہے۔ وہ شاید اس کو برداشت کر لیتا، اگر پاکستان میں چین اقتصادی راہداری کی تعمیر کا کام نہ ہورہا ہوتا، اب تک اس کی تعمیر میں 22 بلین ڈالر خرچ ہوچکے ہیں، امریکہ بھی بھارت کے ساتھ اس لئے ہے کہ وہ چین کی عالمی پیش قدمی روکنا چاہتا ہے۔ جبکہ روس اور چین نے ایسے میزائل بنا لئے ہیں جن کو امریکہ کا دفاعی نظام روکنے میں ناکام ہے اس لئے امریکہ کو اپنے ایٹمی اثاثہ جات کو جدید بنانے کا خیال آیا ہے۔ امریکی اسٹرٹیجک کمانڈر جنرل جان ہیٹن نے 22 مارچ 2018ء کو سینیٹ کی مسلح افواج کی کمیٹی کو بتایا کہ اُن کو ایٹم بم گرمانے کے لئے 80 پلوٹونیم کور کی ضرورت ہوگی، اگرچہ انہوں نے اُس کی موثر عمر نہیں بتائی البتہ انہوں نے یہ ضرور کہا کہ وہ 1978ء اور 1989ء کے درمیان بنی تھی اور ساتھ ہی یہ جملہ بھی آن ریکارڈ کہہ دیا کہ نئی پلوٹونیم پلیٹس کے بغیر امریکی ایٹم بم بے مقصد ثابت ہوں گے۔ اس سے پہلے روس نے ایٹمی آبدوز سے ایٹمی ڈرون اور آواز سے 20 گنا رفتار سے زیادہ تیز چلنے والے میزائلوں کا تجربہ کیا تو امریکہ کی میزائل بالادستی ختم کرتے ہوئے روسی صدر نے امریکہ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ برابری کی سطح پر بات کرے اور اپنے آپ کو ہتھیاروں کے معاملے میں بالادست نہ سمجھے۔ عالمی معاملات میں بڑی تیزی سے تبدیلی آرہی ہےجو اگرچہ الگ سے کالم کا تقاضا کرتی ہے، اس وقت یہ ضروری ہے کہ قارئین کی خدمت میں اس دوڑ کو زیربحث لایا جائے جو بھارت اور چین کے درمیان بحری اڈوں کے حصول کے لئے جاری ہے۔ جیسا کہ بھارت عالمی طاقت بننا چاہتا ہے اس کے لئے وہ اسلحہ بھی بڑی تعداد میں خرید کر پاکستان کو دبائو میں لانے کی کوشش کررہا ہے اور جن ممالک سے اسلحہ خرید رہا ہے، ان ممالک میں اپنا اثرورسوخ بڑھا کر بڑے اور بااثر ممالک میں اپنی جگہ بنانے کا خواہشمند ہے۔ بھارت نے ایران کی چاہ بہار کی بندرگاہ، اومان کی دقم بندرگاہ کے لئے معاہدہ کرلیا ہے اور سیسلز سے 20 سالہ فضائی اڈہ بنانے کے لئے حاصل کرلیا ہے، سنگاپور سے چھانگی فضائی اڈے کی رسائی کا معاہدہ نومبر 2017ء کیا۔ بھارت نے اپنے جزائر انڈومان (کالا پانی) اور نکوبار کو جہاں بھارت کے ایٹم بم محفوظ کئے گئے ہیں بھارت کی زمین سے 1200 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے کو بھارت بحرہند اور بحرالکاہل کی سطح پر لے آیا ہے اور وہاں امریکی بحری بیڑے کو رسائی دیدی ہے کیونکہ امریکہ اور بھارت کے درمیان بندرگاہوں تک رسائی کا معاہدہ موجود ہے، بھارت یہ اس لئے بھی کرے گا کہ بھارت کے یہ دونوں جزائر شاہین III میزائل کی زد میں آتے ہیں۔ اس طرح وہ اُن کو محفوظ بنانا چاہتا ہے کہ امریکہ کی ان جزائر میں موجودگی سے پاکستان اُن پر حملہ کرنے سے باز رہے گا۔
بھارت امریکہ سے مل کر بحرہند کو ملٹری اور ایٹمی ہتھیاروں کی بھرمار سے بحرہند کے اطراف واقع 33 ممالک کو خطرات سے دوچار کررہا ہے اس کے علاوہ بھارت کو امریکہ افغانستان میں رسائی دے کر خطے میں طاقت کا توازن بگاڑنا چاہتا ہے جبکہ سی پیک میں رکاوٹ پیدا کرنا بھی مقصود ہے، اس کے مقابلے میں چین نے تنزانیہ سے لے کر سری لنکا تک اپنی فوج کی موجودگی اور بحرہند میں بھارت کی بالادستی روکنے کی کوشش کو ایک ڈاکٹرائن (String of Pearls) موتیوں کی ڈوری کا نام دیا ہے۔ اس حکمت عملی کی شروعات میں اس نے ڈی جی بیوٹی جو افریقہ کا سینگ کہلاتا ہے میں اپنا پہلا اڈہ 2016ء میں بنا لیا تھا، اس کے بعد گوادر کی رکھوالی خود پاکستان کے پاس ہے جو چین کا دوست ہے، 2017ء میں اس نے سری لنکا کی بندرگاہ، ہمن ٹوٹا کو 99 سالہ لیز پر لے لیا جبکہ بھارت اسی شہر میں فضائی اڈہ بنانے کی بات کررہا ہے۔ دسمبر 2017ء میں چین نے سری لنکا کی بندرگاہ کا قبضہ لے لیا۔ چین نے مالدیپ، برما، نیپال میں بھی اپنا اثرورسوخ بڑھا لیا ہے۔ اس کے علاوہ چاہ بہار کی بندرگاہ میں بھی وہ کچھ کام کررہا ہے اور بھارت کے اثر کو زائل کرنے میں لگا ہوا ہے۔ بھارت کو چین پاکستان اقتصادی راہداری میں رکاوٹ ڈالنے کی ضرورت نہیں تھی، اس لئے کہ 128 ممالک نے سی پیک کی حمایت 2016ء میں کردی تھی مگر اس کو پاکستان کو دبائو میں لنے کا شوق ہے اس کے برعکس پاکستان اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے اور یہاں تک کہ امریکہ نے جماعت الدعوۃ اور جیش محمدپر جو اعتراض کئے ہیں اُن پر بھی ان جماعتوں کے رہنمائوں کو کشمیر میں مداخلت کے سلسلے کو روکنے کی کوشش شروع کردی ہے، کیونکہ بھارت میں خود اتنا مواد موجود ہے جو اس کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا دے گا۔ یہ وقت کی بات ہے کہ اس نے جمہوریت اور سیکولر ازم کو چھوڑ کر ہندتوا کو اپنا لیا ہے جس نے بھارت کی چولیں ہلا دی ہیں، اس میں آزادی کی تحریکیں زور پکڑ رہی ہیں اور ڈراویڈین جو بھارت کے اصل باشندے ہیں اور جو جنوبی بھارت میں آباد ہیں انہوں نے ایک نئی تحریک ’’برہمنوں‘‘ کو ملک سے نکلانے کی شروع کردی ہے، بوڈو، گورکھا، آزادی کی تحریکوں کے علاوہ نیکسلائٹ تحریک جو بھارت کی 29 ریاستوں میں سے 12 ریاستوں کو متاثر کرتی ہے،زور پکڑ رہی ہے، کشمیر کی تحریک آزادی نے بھارت کا ناطقہ بند کر رکھا ہے، بہرحال آج کی دُنیا ایک خطرناک دور سے گزر رہی ہے مگر ہمیں کوشش کرنا چاہئے جنوبی ایشیا جنگ سے دور رہے اور جہاں تک ممکن ہو پاکستان اپنی ترقی اور امن کے لئے کام کرتا رہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین