• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ 22مارچ کی بات ہے ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ سہیل ٹیپو کی لاش ان کے بیڈ روم میں پنکھے سے لٹکی ملی۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ خودکشی اور کوئی اسے قتل قرار دے رہاہے۔ حقیقت کیا ہے ؟ آج دو ہفتے گزرنے کے بعد بھی سامنے نہ آ سکی ، یہ کیسے سامنے آسکتی ہے ، کون کن محرکات کو چھپانے کی کوشش میں ہے۔ ان پر غور کرنے کیلئے سہیل ٹیپو کی شخصیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ شخص 1978ء میں عارف والا کے ایک گائوں میں پیدا ہوا ، گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن کی اور پھر سی ایس ایس کا امتحان پاس کر کے29ویں کامن میں پاکستان آڈٹ اینڈ اکائونٹس سروس جوائن کی ۔ مگر بچپن کا خواب اور والد کی خواہش بیٹے کو ڈپٹی کمشنر دیکھنے کی تھی ۔ اس نے اپنے اس خواب کی تعبیر کیلئے دوران ملازمت پھرسی ایس سی کا امتحان دیا اور ڈی ایم جی گروپ میں 31ویں کامن میں شمولیت اختیار کر لی ، انکی پہلی تعیناتی بطور اسسٹنٹ کمشنر ڈیرہ غازی خان ہوئی پھر اسکے بعد مختلف جگہوں سے ہوتے ہوئے ایوان وزیراعلیٰ بطور ڈپٹی سیکریٹری تعینات ہوئے۔ وزیراعلیٰ نے انکی کارکردگی، ایمانداری اور جانفشانی کی وجہ سے اپنا اسٹاف آفیسر بنا لیا ۔ گزشتہ برس گیارہ دسمبر2017ء کو انکو ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ تعینات کر دیا گیا ۔ یہ ان کیلئے ایک بڑا چیلنج تھا۔ وہاں جوائن کرنے کے بعد اپنے بوڑھے والدین کو ساتھ لے گئے کیونکہ ان کے والد کو مہروں کی تکلیف تھی جب ایک نجی اسپتال میں ان کا آپریشن کرایا اس آپریشن کے نتیجےمیں وہ بستر سے لگ گئے، ضعیف والدہ گھٹنوں کے درد میں مبتلا ہوگئیں، سہیل ٹیپو ان کی خدمات کو اپنی اولین ذمہ داری کے طور پر نبھاتے۔ جبکہ ان کی بیوی اور بچے ابھی لاہور میں ہی تھے اور امتحانات کے بعد گوجرانوالہ شفٹ ہونے کاارادہ تھا مگر اللہ کو کچھ اور منظور تھا۔ ان کی موت کے بعد کئی ایک سوالات اٹھائے جارہے ہیں ۔ ویسے تو حکومت پنجاب بڑی متحرک ہے اور گزشتہ دنوں جب احد چیمہ کو نیب نے گرفتار کیا تو بڑا سخت رد عمل آیا ۔ وزیراعلیٰ نے فوری کابینہ کا اجلاس طلب کیا ۔ ان کے پیچھے کھڑے ہونے کا عندیہ دیا اور پنجاب اسمبلی سے گرفتاری کیخلاف قرار داد بھی پاس کروائی گئی مگرسہیل ٹیپو جو ان کا اسٹاف آفیسر بھی رہ چکا تھا اس کیلئے کوئی تعزیتی بیان آیا اور نہ ہی کوئی ریفرنس رکھا گیا ۔ اس کیس کو جس طرح سے ڈیل کیا جارہا ہے اس سے تو اب تک یہی لگتا ہے کہ کوئی بہت بڑے راز تھے جو ٹیپو کی موت کے ساتھ دفن کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ رپورٹس کے مطابق میت کا پوسٹ مارٹم کئی گھنٹے بعد کیا گیا ، لاش کو ایک کانسٹیبل ڈی سی ہائوس سے لیکر گیا اور وہی واپس لایا ، ایف آئی آر کیلئے ان کے ماموں سابق کمشنر انکم ٹیکس اکرم طاہر کو لاہور سے بلوایا گیا ۔ ان کے والد وہاں موجود تھے نہ تو ان کی مدعیت میں ایف آئی آر درج کرائی گئی اور نہ ہی سینئر بیوروکریسی نے اسکو اپنی ذمہ داری سمجھا ۔ حالانکہ ڈی سی کی موت کے بعد پہلا شخص جو ڈی سی ہائوس آیا وہ کمشنر گوجرانوالہ تھا ۔ انہوں نے بیڈ روم بند کرادیا اور فرانزک ٹیم کو فون کر کے لاہور سے بلوایا ۔ مگر افسوس کہ ان کے آنے سے پہلے پنکھے سے لٹکی لاش کی تصویر شوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی ، کیسے اور کیوں؟
وزیراعلیٰ انگلینڈ میں موجود ہیں انہوں نے ایک ہفتے بعد ریجنل پولیس آفیسر ملتان کی سربراہی میں جے آئی ٹی بنانےکا حکم دیا ہے۔ اب تک سامنے آنیوالے شواہد کی بنیاد پر جو سوالات اٹھائے جارہے ہیں اگر اسکی روشنی میں تمام پہلوئوں کی تحقیقات کر کے حقیقت سامنے نہیں آتی تو پھر اٹھائے گئے سوالات کو ہی عوام درست سمجھیں گے اور یہ یقین کرنے میں ذرہ برابر ہچکچاہٹ نہیں ہوگی کہ سہیل ٹیپو کو کسی خاص سازش کے تحت قتل کروایا گیا ۔ اس لئے جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے سامنے یہ سوالات رہنے چاہئیں۔1 ۔جس کمرے میں ڈی سی کی لٹکتی لاش پائی گئی اسکی حالت سے پتہ چلتا ہے کہ کمبل درست حالت میں تھا، وہ رات بھر سوئے نہیں اور انہیں زمین پر الٹا لٹا کر ہاتھ باندھ کر رسی سے گلا دبایا گیا کیونکہ اب تک کے شواہد کے مطابق کمپیوٹر کی وائر کے نشان گردن اور ہاتھوں کی کلائی پر موجود تھے ۔2ماہرین کے مطابق خودکشی کرنے والےکاجسم ڈھیلاپڑ جاتا ہے مگر یہ اکڑا ہوا تھا۔ ان کے پائوں زمین سے ڈیڑھ فٹ بلند تھے اور قریب ترین ٹیبل ایک سے ڈیڑھ فٹ دور تھا ۔ جسے کھینچنا ممکن نہیں تھا 3۔افسران کے گھروں کی سیکورٹی کی تبدیلی صبح 6بجے ہوتی ہےاورموت کا وقت چھ سےآٹھ بجے کےدرمیان ہے جو کسی اندرونی سہولت کار کی مدد سے ہی ہو سکتی ہے۔4۔ جس روز موت ہوئی اس رات کو پنجاب کی اعلیٰ شخصیت کے کسی فیملی ممبر سے سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کے حوالے سے کیا بات ہوئی ؟ -5۔وقوعہ سے جو چار موبائل فون ملے انکا ڈیٹا کیا کہتا ہے ، کونسی پانچ کالز ایک ہی نمبر سے متواتر موصول ہوئیں ، کن تین مشکوک افراد کو حراست میں لیا گیا ، ڈی سی ہائوس کے 33ملازمین سے جو پوچھ گچھ کی گئی وہ کیاتھی؟ -6۔پولیس ابتدا ہی سے کیوں کہہ رہی ہے کہ یہ خودکشی ہے ، ان کی گردن کی ہڈی ٹوٹی ہوئی تھی جبکہ پوسٹ مارٹم ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر گلزار کا کہنا ہے کہ جس پردے کے کپڑے سے گردن پر گرہ لگائی گئی ہے ، اس سے خودکشی ممکن ہی نہیں ، ہاتھ پیچھے تار سے بندھے ہوئے تھے اور یہ بظاہر قتل کی ایف آئی آر اسلئے کٹوائی گئی ہے تاکہ محکمہ سے مالی امداد لی جا سکے چونکہ قانون کے مطابق خودکشی پر یہ مالی امداد نہیں ملتی۔7۔ ایف آئی آر نامعلوم افرادپر اسلئےکٹوائی گئی تاکہ تفتیش میں عدم پتہ کی بنیاد پر قصہ ختم ہو جائے ؟ -8۔ سہیل ٹیپو گوجوانوالہ اپنی تعیناتی سے ہی شدید دبائو کا شکار تھے ، کیا انہیں زبردستی یہ پوسٹنگ دی گئی اور اپنا قابل اعتماد ہونے کی وجہ سے غیر قانونی کام لینے تھے مگر وہ ایسا نہ کر سکا۔9۔ڈی سی نے شدید دبائو کا ذکراپنے کمشنر سے بھی کیا اور کمشنر نے سول اسپتال کے ڈاکٹر کو بلا کر ان کا چیک اپ کرایا ڈاکٹر نے پندرہ دن آرام کا مشورہ دیا۔ سہیل نے پندر ہ دن کی چھٹی کی درخواست دی جو کمشنر نے فوراً چیف سیکریٹری کو فارورڈ کر دی ، چیف سیکریٹری سے بات بھی کی گئی، تبادلہ کی بھی درخواست دی مگرنہ چھٹی دی گئی اور نہ ہی ٹرانسفر ؟ 10۔وہ کونسا ایسا پریشر اور خوف تھا کہ موت سے چند روز پہلے جب ٹیپو نے اپنی اہلیہ سے ذکر کیا تو اسکی بیو ی نے نوکری چھوڑنے کا مشورہ دیا ۔11۔وہ کونسا نائب قاصد تھا جسکا ایک ہفتہ قبل ٹرانسفر کرنے اور نہ کرنیکا ارکان اسمبلی اور دوسری طرف سے دبائو تھا۔12۔وہ کونسی اراضی کی منتقلی اور قبضے کا چرچہ مقامی ایم این اے کے کزن کے حوالے سے زبان زد عام ہے کہ اے ڈی سی نے تو دستخط کر دیئے اور ڈی سی انکاری تھا۔ 13وہ کونسا گوجرانوالہ کا اسسٹنٹ کمشنر ہے جسکے مقامی سیاسی قیادت سے گہرے مراسم ہیں اور وہ فرانزک رپورٹ آنے سے پہلے ہی اسے خودکشی ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے ۔14۔کیا گوجرانوالہ میں منعقد ہونیوالے حالیہ جلسے میں خرچ ہونیوالے ایک کروڑ روپے کی ادائیگی کا ان پر دبائو تھاکیونکہ انکی شہرت یہ تھی کہ وہ بدعنوانی سے دور رہتے تھے -15۔سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کی کرپشن میں ملوث آفیسر کو بچانے کیلئے ان پر کس کا دبائو تھا۔16۔کیا سہیل ٹیپو احد چیمہ کا معاون تھا ؟۔17 ۔سہیل ٹیپو کی شخصیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کرپشن اور غلط کام نہ کرنے کی کشمکش میں مبتلا اس شخص کے قتل اور خودکشی کا پتہ لگانا ہی جے آئی ٹی کا سب سے بڑا چیلنج ہے ،اس کی پراسرار موت کے پیچھے جو سازش ہے وہ بے نقاب ہونی چاہئے اور سرکاری ملازمین کو استعمال کرنے کا یہ سلسلہ ختم ہونا چاہئے۔ بیوروکریسی کو بھی اپنا رویہ تبدیل کر کے عوام کو یہ یقین دلانا چاہئے کہ وہ کسی کے ذاتی ملازم نہیں بلکہ ریاست کے ملازم اور عوام کے خادم ہیں !
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین