• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جہاں بھارت میں علیحدگی کی 67 تحریکیں چل رہی ہیں وہاں اب ایک نئی طاقتور آواز اٹھنا شروع ہوئی ہے کہ ’’آرین واپس جائو‘‘ یہ تحریک جنوبی ہند سے شروع ہوئی ہے، جہاں آرین نسل کے لوگوں نے بھارت کے اصل باشندے ڈراونڈین کو بھیج دیا تھا، اِس تناظر میں جہاں بھارت کے اصلی باشندے ڈراونڈین جب آرین کے نکل جانے کا نعرہ لگاتے ہیں تو اُس کا مطلب بھارت کے ڈھائی فیصد برہن ذات کے لوگ ہوتے ہیں جو آرین ہیں۔ اگرچہ راجپوت اور سینٹرل ایشیا سے آنے والے لوگ جن کی ناک کھڑی ہوتی ہے اور رنگ گندمی یا سرخ و سفید ہوتا ہے، وہ آرین نسل کے لوگ ہیں۔ میں نے 14 اکتوبر 2004ء کو محمد اکبر بگٹی سے پوچھا تھا کہ کیا وہ بھی آرین ہیں کیونکہ انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ وہ ساڑھے سات سو سال پہلے سینٹرل ایشیا سے آکر بلوچستان میں بسے تھے، انہوں نے ذرا سوچ کر اثبات میں جواب دیا تھا کہ ہاں وہ آرین ہیں اور جو بگٹی ترکی چلے گئے، وہ اپنے آپ کو بغٹی کہتے ہیں، اس کے علاوہ دلت جن کی بڑی تعداد بھارت میں رہتی ہے وہ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، پٹنہ اور گوالیار میں 2 اپریل 2018ء کو خونریز ہنگامے ہوئے جس میں 4 دلت ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوگئے۔ یہ ہنگامہ اس وقت پھوٹ پڑا جب عدالت نے دلتوں کو نچلی ذات کا انسان قرار دیا جو ہندو دھرم کے عین مطابق ہے۔ دلتوں کی بھارت میں اکثریت ہے، انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف بھارت بند ہڑتال کر ڈالی، میرٹھ میں ایک تھانہ اور کئی گاڑیاں جلا دی گئیں، گوالیار میں کرفیو نافذ، لدھیانہ سمیت پنجاب میں 15 بسیں نذرآتش کردی گئیں۔ واضح رہے کہ گوالیار اترپردیش یا یوپی کا سیاحتی شہر ہے، پٹنہ بہار میں مختلف ٹرینیں روکی گئیں، دلت رہنما ’’پرکاش امیڈکر‘‘ نے متنبہ کیا ہے کہ بھارت بہت جلد شام بن جائے گا۔ یکم اپریل 2018ء سے بھارت نے کشمیر میں دہشت گردی بڑھا دی ہے، اب تک 20 کشمیری شہید ہوئےہیں اور پیلٹ گنوں کا استعمال کیا گیا ہے، فوجی آپریشن کیا گیا تھا،کشمیر کے بعد جو سب سے خطرناک تحریک ہے وہ مائونکسلائٹ ہے جس نے بھارت کے 29 میں سے 12 صوبوں کو متاثر کیا ہوا ہے یہ خونریز تحریک ہے جبکہ کشمیر میں آزادی کی تحریک غیرمسلح نوجوان چلا رہے ہیں، نکسلائٹ جدید اسلحہ سے مسلح ہیں، بھارت کو یہ خوف ہے کہ نکسلائٹ کی مددمیں چین اضافہ کرے گا، اگر اس نے ڈوکلم میں سڑک بنا لی تو وہ نکسلائٹ تحریک کو آزادانہ طور پر امداد دے سکے گا اور بھارت کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوجائے گا، جو بہت دور کی بات نہیں، اگرچہ بھارت نے ڈوکلم میں چین سے صلح کرکے اپنی افواج چینی سرزمین سے واپس بلا لی ہیں مگر اُن کے آرمی چیف دھمکیاں رہے ہیں کہ چین نے سڑک بنائی تو وہ واپس ڈوکلم پر قابض ہوجائیں گے۔ لداخ کے علاقے میں واقع ڈوکلم چینی اور برطانوی حکومتوں کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تحت چین کا حصہ بنا جہاں وہ سڑک بنانا چاہتا ہے اور ہماری اطلاعات کے مطابق چین نے وہاں سے ذرا ہٹ کر سڑک بنا بھی لی ہے۔ دارجلنگ میں گورکھا آزادی کی تحریک چل رہی ہے اور مشرقی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتابنرجی کئی گھنٹوں تک اس شہر میں محصور رہی ہیں۔ یہاں تک کہ فوج نے آکر اُن کو بچایا۔ ناگالینڈ کی الگ آزادی کی تحریک ہے اور بوڈولینڈ آسام میں تحریک بھی شدت پکڑ رہی ہے۔ میں نے بھارت کے 2005ء سے 2011ء تک کوئی چھ دورے کئےاوربھارت کی بارہ ریاستوں کا دورہ کیا، جہاں اُردو کے تمام اخبارات کے مدیروں سے ملا، راجیہ سبھا اور راشٹریہ سبھا میں اس وقت 56 مسلمان ممبران تھے، اُن میں سے 30 ممبران سے ملاقات کی اور 20 سے ٹیلیفون پر گفتگو کی، وہ بہرحال کسی نہ کسی پارٹی میں رہ کر اپنے آپ کو محفوظ کررہے ہیں، بھارت میں جماعت اسلامی بہت منظم طور پر کام کررہی ہے، وہ وہاں اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں بنا رہی ہے، دیگر مسلمان تنظیمیں بھی مسلمانوں کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دے رہی ہیں۔ حیدرآباد دکن میں جو آندھراپردیش کا دارالحکومت ہے وہاں کی اسمبلی میں مسلمانوں کے سات ممبران کامیاب ہوتے ہیں اور راشٹریہ سبھا میں سالااسد الدین ر اویسی کامیاب ہوتے ہیں، وہاں مسلمان کافی منظم ہیں، اس کے علاوہ بنگلور میں بھی مسلمان کافی کام کررہے ہیں، اس لئے کہ جنوبی ہند میں تعصب کم ہے۔ سوال یہ ہے کہ اب یہ نئی تحریک کیوں شروع ہوئی، اس کا جواب یہ ہے کہ بھارت کبھی ایک ملک نہیں رہا، مغل اور برطانوی ادوار میں بھی اس کی 550 سے زیادہ ریاستیں تھیں اور اُن میں مذہبی تقسیم ہے جس میں برہمن سب سے اونچی ذات ہے، پھر ششتری یعنی فوجی یا عامل، ویش کسان اور کاروباری، شودر اور دلت کم درجے کے کام کرنے والے جن کی تعداد بھارت میں سب سے زیادہ ہے، اس کے علاوہ بدھ مت ہے، جین مت اور دیگر جن کو ہم غلطی سے ہندو سمجھ بیٹھتے ہیں یہ سب دو بات پر یکجا تھے اُن میں ایک جمہوریت اور دوسرے بھارت کا لامذہب ہونا تھا، اب نریندر مودی کے آنے سے ہندو توا کی حکومت کا قیام عمل میں آگیا ہے جس سے بھارت کی بنیادوں میں دراڑ پڑ گئی ہے، میں نے اپنے دوروں میں یہ دیکھا کہ ہر ریاست کا طرزِ زندگی، انداز، اُن کے بت، اُن کے پوجاپاٹ کے انداز کافی الگ تھے، جب میں ٹریونڈم پہنچا جو کیرالہ کا دارالحکومت ہے تو میں نے دیکھا اُن کے ہیرو، اُن کے دیوتا الگ ہیں اور وہ بھارت سے مختلف ہیں، اس لئے جب ٹریونڈم کی رہنے والی سیکریٹری خارجہ بنی اور اپنے وزیرخارجہ کے ساتھ اسلام آباد آئی تو میں نے محمود شام اور بلوچستان کے فصیح اقبال کے سامنے اُن سے ازراہ مذاق کہا کہ ٹریونڈم تو بھارت میں شامل نہیں تو انہوں نے بڑے اصرار کے ساتھ کہا کہ وہ بھارت کا ہی حصہ ہے، مجھ سے جب پاکستان کے پروفیسرز نے پوچھا کہ بھارت کے متحد رہنے کی کیا وجہ ہے تو میں نے کہا کہ جمہوریت اور سیکولرازم اور جب یہ ختم ہوگیا تو بھارت بکھر جائے گا۔ بھارت اس وقت بہت خوفناک طاقت بن گیا ہے وہ نریندر مودی کی سربراہی میں اس غلط فہمی کا شکار ہوگیا ہے کہ یہ مناسب وقت ہے کہ بھارت کو ہندو ریاست بنا ڈالیں، جس کی وجہ سے وہ جابجا مسلمانوں کو تنگ کررہے ہیں اور جمہوریت اور سیکولر حیثیت کے ٹوٹ جانے کی وجہ سے وہاں کے تضاد اتنے ابھر آئے ہیںکہ اب یہ نعرہ لگ گیا ہے کہ ’’آرین واپس جائو‘‘ یہ بہت طاقتور نعرہ ہے۔ یو پی میں زیادہ تر آرین آبادی ہے، وہ اپنے سے بڑا کسی صوبہ کو نہیں سمجھتے، وہ ہے بھی 25 کروڑ کی آبادی کا صوبہ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جو یوپی پر حکومت کرے گا پورے ملک پر حکومت اُس کی ہوتی ہے مگر یہ کلیہ اس وقت ناکام ہوا جب مایہ وتی یوپی کی وزیراعلیٰ بنی وہ وزیراعظم نہیں بن سکی اس لئے کہ وہ نچلی ذات سے تھی، دلت اور اچھوت تھی، جو ملک مذہب کی بنیاد پر انسانوں کو برابر تسلیم نہ کرے وہ ملک کیسے قائم رہ سکتا ہے؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین