• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سال دو ہزار تیرہ، میں اپنی والدہ کے ساتھ رشتہ داروں سے ملاقات کے غرض سے چند دنوں کے لئے کانپور میں مقیم تھا۔ ماہِ مئی کی ایک تپتی دوپہر میرے خالہ زاد بھائی کسی کام سے شہر سے باہر جانے لگے تو میں ساتھ ہولیا۔ ہائی وے پر سنگ میل دیکھ کر اندازہ ہوا کہ شہر اُنّائو کانپور سے بہت قریب ہے۔ ہم اُنّائوہی جارہے تھے۔ کوئی بیس پچیس منٹ کی ڈرائیو کے بعد شہر میں داخل ہوتے ہوئے تحریک آزادی کی ممتاز شخصیت مولانا حسرت موہانی کا خیال آیا۔ سن رکھا تھا کہ اُن کے آبائو اجداد کا تعلق اِسی شہر سے ہے اور یہ بھی کہ انگریز راج میں ہندوستان کی آزادی کا پہلا نعرہ مولانا حسرت موہانی کی سیاسی فکر کا ہی نتیجہ تھا۔
میرے لئے اُنّائو کا یہ مختصر دورہ مولانا کی سیاسی زندگی کے بارے میں مزید تجسس کا سبب بن گیا۔ پھر اندازہ ہوا کہ مولانا سے متعلق ابتدائی مطالعے سے محسوس ہو جاتاہے کہ ماضی کا سیکولر، جمہوری، نسبتاً خوشحال اور سائنسی بنیادوں پر ترقی کرنے والا ہندوستان جواہر لال نہرو کے مقابلے میں مولانا حسرت موہانی کے تصورات سے زیادہ قریب تھا۔ لیکن اُس دِن اُنّائو سے واپسی تک مجھے اِس سچائی کا ادراک نہیں تھا!
اُ نّائو میں اِس مختصر قیام کی اہمیت مستقبل میں کتنی اہم ثابت ہوسکتی ہے، اُس وقت اِس بات کا ایک فیصد بھی اندازہ نہیں تھا۔ یہ علم بھی نہیں تھا کہ جنگ آزادی میں انگریزوں کے خلاف بہت سے معرکے اِسی شہر کے آس پاس انجام پائے اور یہ بھی کہ اِن لڑائیوں میں آزادی کی خاطر بہت سے مقامی باشندوں نے فرنگیوں کے خلاف لڑتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا! کسی لمحے یہ خیال بھی نہ آیا کہ خود وہ چھوٹا سا شہر اور پورا ہندوستان تیزی سے سیاسی و سماجی انحطاط کے عمل سے گزر رہے ہیں ۔ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ چند برسوں بعد اِسی شہر کے ایک غریب خاندان کی نوجوان لڑکی نہ صرف بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک منتخب ایم ایل اے کلدیپ سنگھ سینگار کی جنسی ہوس کی بھینٹ چڑھ جائے گی بلکہ اس کا بے یارو مددگار باپ بھی اِسی ایم ایل اے کے چھوٹے بھائی اتول سینگار کے ہاتھوں مارا جائے گا! ظلم کی اِس داستان میں طویل خاموشی کے بعد عوام کا ضمیر تو کسی طرح جاگ ہی گیا لیکن اِن شکوک وشبہات کا اب بھی اظہار کیا جارہا ہے کہ بی جے پی حکومت ضلع اُنّائو سے منتخب اپنے اِس پارٹی رہنما اور اِس کے بھائی کو سزا سے بچانے کی ہر ممکن کوششیں کررہی ہے۔ خدشات کا یہ اظہار غیر منطقی بھی نہیں کیوں کہ یہ معاملہ اب سی بی آئی (CBI) کے ہاتھ میں ہے اور یہ ادارہ براہ راست بی جے پی حکومت کے ماتحت کام کرتا ہے۔ لہٰذا موجودہ حکومت تحقیقات پر فیصلہ کن حد تک اثر انداز ہوسکتی ہے۔ یہ خدشات اُس وقت شدّت اختیار کرگئے جب جموں و کشمیر میں محبوبہ مفتی نے آٹھ سالہ آصفہ بانو کے ساتھ زیادتی اور اس کے قتل کا معاملہ سی بی آئی کے حوالے کرنے سے صاف انکار کردیا۔ یہ خدشات مستقل بڑھتے جارہے ہیں کہ یہ تحقیقاتی ادارہ بھارتی یونین گورنمنٹ کا حصہ ہونے کے سبب مکمل طور پر بی جے پی حکومت کے تابع ہے۔ اِس خدشے کو مزید تقویت بے جے پی رہنمائوں کے اِس بیان سے ملتی ہے جس میں انہوں نے اِس معاملے کو سی بی آئی کے حوالے کرنے پر محبوبہ مفتی پر غیر معمولی دبائو ڈالتے ہوئے کہا تھا کہ مقدمے میں نامزد ملزمان بے قصور ہیں اور انہیں سیاسی دبائو کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔
چوری اور سینہ زوری یہ کہ آصفہ بانو کے مقدمے میں نامزد ملزمان کے حق میں مظاہروں کے دوران برسر اقتدار بی جے پی کے دو رہنما آگے آگے رہے۔ اگرچہ بعدازاں دونوں کو استعفی دینا پڑا، لیکن اس صورتحال کی بدولت قانون کی بالادستی کے حوالے سے بی جے پی کے نظریات کی قلعی کھل گئی۔ ستم یہ کہ مقامی پولیس اہلکار بھی ملزمان کے ساتھ ساز باز کرنے میں شامل رہے۔ اگرچہ چند شہادتوں کی بنیاد پر چار پولیس اہلکار گرفتار بھی کئے گئے لیکن اِس صورتحال میں آصفہ بانو کے ورثا کو انصاف ملنا ممکن نہیں دکھائی دیتا۔ البتہ یہ سچ ہے کہ اِس سال جنوری میں پیش آنے والے اِس اندوہناک واقعے کے بعد، اُنّائو کی معصوم لڑکی اور اِس کے باپ کے ساتھ ہونے والے ظلم کی خبر بھی ہندوستان بھر میں پھیل گئی! اِن دونوں واقعات پر اب چنائے، کولکتہ، ممبئی، دلّی اور دیگر شہروں میں احتجاجی ریلیوں اور مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔
پڑوسی ملک میں جہاں تیزی سے بڑھتی ہوئی ہندوتوا نے دنیا کو حیرت میں ڈال رکھا ہے، وہیں اِس ملک میں غالبا ًیہ پہلا موقع ہے کہ سی بی آئی جیسے ا دارے پر برسراقتدار حکومت کے مستقل دبائو اور خواہشات پر کام کرنے کا الزام لگایا جارہا ہے! اِس تناظر میں آصفہ بانو کے معاملے کو سی بی آئی کے حوالے کرنے کے لئے محبوبہ مفتی پر بی جے پی کے دبائو کا پس منظر باآسانی سمجھا جاسکتا ہے۔ کسی ادارے پر برسراقتدار حکومت کے دبائو کا معاملہ شاید کسی پاکستانی شہری کے لئے زیادہ حیرانی کی بات نہیں!
اِس صورتحال کا خاص پہلو یہ ہے کہ بھارت میں ابتدائی پچاس برس میں پھلتے پھولتے رہنے والی جمہوری، سیکولر اور سائنسی روایات اَب ملک بھر میں سرگرم انتہا پسندوں اور بی جے پی حکومت کے سائے تلے کھوکھلی ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ ایک جانب آصفہ بانو کے معاملے کو بھی ہندوتوا کا پرچار کرنے والی تنظیموں نے ہندو مسلم فساد کا رنگ دینے کی کوشش کی اور دوسری جانب یہ بھی کہا جارہا ہے کہ انتہا پسند عناصر کھٹوعہ جیسے ہندو اکثریتی علاقے سے مسلمانوں کو ہجرت پر مجبور کرنے کے لئے آئے دن اِس قسم کے جرائم کرتے رہتے ہیں۔
تیزی سے بدلتے ہوئے اِس ہندوستان میں اب میڈیا کو اپنی آرمی سے متعلق خبریں نشر کرتے ہوئے بھی انتہائی محتاط رویہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ بھارتی آرمی کی قیادت یا اِس کی کسی حکمت عملی پر کسی بھی قسم کی تنقید ہندوستان میں ملک دشمن سرگرمی سمجھی جاتی ہے۔ حد یہ ہے کہ حال ہی میں بھارت کی فوجی قیادت کی جانب سے ملک کے سیاسی، خارجی اور داخلی معاملات میں باقاعدہ بیانات جاری کئے گئے جنہیں سیاسی حلقوں میں بہت سراہا گیا۔ اگر صورتحال یوں ہی جاری و ساری رہی تو کم از کم پاکستان کے انتہائی تجربہ کار عوام کو یہ سمجھانے کی قطعی ضرورت نہیں کہ اِنکے پڑوس میں کیا کچھ ہونے والا ہے!
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین