• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام آباد کی ایک احتساب عدالت جو کہ معزول وزیراعظم نوازشریف اور ان کے بچوں کے خلاف 3ریفرنسوں کی سماعت کر رہی ہے کا فیصلہ اب زیادہ دور نہیں ہے ۔ سابق وزیراعظم کو بڑی حد تک یقین ہے کہ انہیں سزا ہو جائے گی۔ وہ بار بار اس کا اظہار کر چکے ہیں اور ساتھ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ ان کے خلاف کرپشن کا کوئی الزام ثابت تونہیں ہوا مگر انہیں ایک منصوبے کے تحت سزا دلوائی جائے گی۔ اس سے قبل کہ احتساب عدالت کا اس قسم کا کوئی فیصلہ آئے وہ اور ان کی دختر مریم نواز بھرپور عوامی مہم پر ہیں جس کا مقصد آئندہ عام انتخابات میں ن لیگ کی پوزیشن بہتر کرنا ہے۔ وہ پے درپے عوامی جلسوں سے خطاب کر رہے ہیں جس میں لوگ بھر پور شرکت کر رہے ہیں ۔ اس کمپین کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان کے تمام جلسوں میں اسی شہر کے لوگ ہی شرکت کر رہے ہیں جہاں یہ منعقد ہوتے ہیں اور دور دراز سے لوگوں کو بسوں اور ویگنوں میں بھر کر وہاں نہیں لایا جاتا ۔ انہوں نے ابھی تک زیادہ تر جلسے پنجاب کے مختلف علاقوں میں کئے ہیں لیکن ان کے پروگرام کے مطابق وہ اس مہم کو دوسرے صوبوں میں بھی لے جانا چاہتے ہیں ۔وہ بھرپور انداز میں عمران خان اور آصف علی زرداری پر تنقید کے تیر برسا رہے ہیں اور بار بار کہہ رہے ہیں کہ یہ تو مہرے ہیں اور ان کا اصل مقابلہ تو ’’خلائی مخلوق‘‘ جو کہ سامنے نظر نہیں آتی، سے ہے۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جو ووٹ بھی عمران خان اور آصف زرداری کو پڑیں گے وہ دراصل ایسی ہی قوتوں کے حق میں ہوں گے ۔ وہ اپنا بیانیہ، جو انہوں نے 28جولائی 2017ء کے عدالت عظمیٰ کے فیصلے جس میں انہیں نااہل قرار دے دیا گیا تھا کہ بعد شروع کیا تھا، کو ہی مضبوط سے مضبوط بنا رہے ہیں۔ عمران اور زرداری پر حملوں کے علاوہ نوازشریف اعلیٰ عدلیہ سے بھی بار بار جارحانہ انداز میں شکوہ کر رہے ہیں کہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا ہے ۔ وہ عوام سے اپیل کررہے ہیں کہ ن لیگ کو اتنے ووٹ دیں کہ وہ فیصلے کو ریورس کر سکیں ۔طے شدہ آئینی اور قانونی اصولوں کے مطابق عدالت عظمیٰ کے کسی بھی فیصلے کو پارلیمنٹ آئین میں ترمیم کر کے رد کر سکتی ہے ایسا پہلے بھی کئی بار ہو چکا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ جو ن لیگ کو درپیش ہے وہ یہ ہے کہ اگلے انتخابات کی مہم کس طرح چلانی ہے جب کہ امکانی طور پر نوازشریف سلاخوں کے پیچھے ہوں گے ۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ ووٹ صرف نوازشریف کے نام پر ملتا ہے اور اس جماعت میں کوئی بھی ایسا لیڈر نہیں ہے جو یہ دعویٰ کر سکے کہ وہ اس قابل ہے کہ وہ لوگوں کو متحرک کر سکے گا ۔ یہ یقیناً ن لیگ کے لئے بہت بڑا چیلنج ہو گا جب نوازشریف جیل میں ہوں گے ۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اپنی نااہلی کے بعد گزشتہ 9ماہ کے دوران معزول وزیراعظم بڑی بھر پور ’’انتخابی مہم ‘‘چلا چکے ہیں جس کا اثر جولائی میں ہونے والے انتخابات تک قائم رہے گا۔ان کے سیاسی اور دوسرے مخالفین خصوصاً عمران خان اور آصف زرداری کا خیال ہے کہ جب نوازشریف کو سزا ہو جائے گی اور وہ جیل چلے جائیں گے تو اس طرح ن لیگ کے ہاتھ پائوں بندھ جائیں گے اور انتخابی میدان ان کے لئے کھلا ہوگا جس میں وہ آسانی سے انتخابات جیت جائیں گے۔یہی خیال کچھ لوگوں کا اس وقت بھی تھا جب 28جولائی کو نوازشریف کو نااہل کیا گیا مگر تمام مقامی اور بین الاقوامی سرویز اور تجزئیے بتاتے ہیں کہ نااہلی کے بعد نوازشریف کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے اور وہ اس وقت پاکستان کے سب سے پاپولر لیڈر ہیں۔اس مسلمہ حقیقت نے سارے پلان اور اندازے الٹ پلٹ کر دیئے ہیں ۔اگر کوئی چاہتاہےکہ ن لیگ کو ملیا میٹ نواز شریف کو جیل میں ڈال کر کیا جاسکتا ہے تو یہ بھی کر کے دیکھ لیں نتیجہ سب کے سامنے آجائے گا۔
نوازشریف کی حالیہ عوامی مہم سے قبل عمران خان نے بھی مینار پاکستان گرائونڈ لاہور میں ایک اچھا شو کیا اور اپنے ’’نئے پاکستان ‘‘کے لئے 11نکاتی ایجنڈا پیش کیا۔کئی مہینوں بعد تحریک انصاف کے چیئرمین نے کوئی جلسہ کیا جس میں لاہور سے لوگوں کی شرکت کافی کم تھی اور زیادہ تر شرکاء دوسرے علاقوں، خصوصاً خیبر پختونخواسے لائے گئے تھے۔اس جلسے پر کروڑوں روپے خرچ کئے گئے ۔ اگر کروڑوں کے شہر سے صرف چند ہزار لوگوں نے اس جلسے میں شرکت کی تو کیا اسے کامیاب کہا جاسکتا ہے؟ ایسا صرف تحریک انصاف ہی کہے گی۔ 2013ء کے انتخابات میں اگرچہ اس جماعت کو لاہور شہر سے قومی اسمبلی کی ایک ہی نشست ملی تھی لیکن یہ حاصل کئے گئے ووٹوں کی تعداد کے لحاظ سے ن لیگ کے بعد دوسرے نمبر پر تھی۔ عمران خان پچھلے 5سال میں جو بھرپور احتجاج کرتے رہے ہیںاس میں یہ طعنے بھی شامل تھے کہ وزیراعلیٰ شہبازشریف نے لاہور میں اربوں روپے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کئے ہیں اور صوبے کے دوسرے علاقوں پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ جب اس طرح کی تنقید ہو گی تو لاہور کے لوگ تو یقیناً سوچیں گے کہ کیا ایسے لیڈر کے جلسے میں شرکت کرنی چاہئے یا نہیں۔یہ بھی سوال اٹھتا ہے کہ کیا عمران خان ہر بڑے شہر میں جلسہ کرنے کے لئے اتنے زیادہ پیسے خرچ کرتے رہیں گے کہ لوگوں کو دیگر علاقوں سے وہاں لاتے رہیں ۔جب تک مقامی لوگوں کی بھر پور شرکت نہیں ہوگی اس علاقے میں جماعت کی پوزیشن بہت زیادہ مضبوط نہیں ہو گی۔رہا سوال عمران خان کے 11نکات کا تو سب سے پہلے تو یہ بات ہونی چاہئے کہ ان میں سے کتنوں پر خیبر پختونخوا میں کس حد تک عمل ہوا ہے۔ اگر وہ اس صوبے جہاں ان کی حکومت ہے کا کوئی ماڈل پیش کرسکتے تو یقیناً ان کی بات میں وزن ہوتا ۔ چاہے وہ صحت کا میدان ہو یا تعلیم کا یا دوسرے نکات جن کا انہوں نے ذکر کیا ہے پر بڑی حد تک خیبر پختونخوامیں عمل ہوتا تو لوگ ان کے ایجنڈے پر ضرور توجہ دیتے۔ تعلیم کا فروغ یہ نہیں ہے کہ آپ ایک مدرسے کو اس کے مہتمم کی سیاسی حمایت کے لئے 50کروڑ روپے دے دیں۔پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ اہم ریاستی اداروں خصوصاً فوج اور سویلین حکومت کے درمیان اچھے تعلقات یا کم ازکم ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنا ہے جس کے بارے میں عمران خان کا ایجنڈا بالکل خاموش ہے ۔ اگر اداروں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کر لی جائے تو ملک کے زیادہ تر مسائل خودبخود ہی حل ہو سکتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہم 70سال سے اسی چکر میں ہی پھنسے ہوئے ہیں جس سے نکلنے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔ اگر کپتان کے کرپشن کے خاتمے کے بارے میں نکتے کو لیں تو خیبر پختونخوا میں جو حال احتساب کمیشن کا ہوا ، اس کو سامنے رکھ کر بہتر ہو گا کہ وہ اس پوائنٹ کو اپنے ایجنڈے سے نکال ہی دیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین