پاکستان تحریک انصاف کے 29اپریل 2018کو آزادی پارک مینار پاکستان میں منعقد جلسہ عام کے بعد ایک بار پھر یہ بحث شروع ہوگئی ہے کہ یہ جلسہ کامیاب تھا یا ناکام ، اس جلسے میں مقامی لوگ کم اور دوسرے شہروں سے تعلق رکھنے والے زیادہ تھے۔ یہ جلسہ30 اکتوبر 2011 کے جلسے سے چھوٹا تھا ، اس جلسہ میں وہ جذبہ نہیںتھا جو اس وقت دیکھنے میں آیا ۔ کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ 25ہزار افراد تھے، کوئی یہ تعداد 35سے50ہزار بتاتا ہے جبکہ ایک سے دو لاکھ افراد کی شرکت کے دعوے بھی سامنے آرہے ہیں۔جلسے کی تعداد کو کامیابی کی کنجی قرار دیا جا رہا ہے ۔ کہا جارہا ہے کہ 50کروڑ روپے جلسے کی تیاریوں میں جھونک دیئے گئے اس سے کئی سو کینسر کے مریضوں کا علاج ہو سکتا تھا ۔ دوسری طرف پی ٹی آئی نے جلسے کی مہم کے دوران ایک نیا اور عجیب سا نعرہ لگا دیا کہ دو نہیں ایک پاکستان ، ہم سب کا نیا پاکستان ۔ عمران خان نے نئے پاکستان کیلئے گیارہ نکات پر مشتمل اپنے ایجنڈے کا اعلان بھی کیا ہے ۔
سوال یہ ہے کہ بڑے جلسے کو الیکشن جیتنے کا معیار نہیں بنایا جا سکتا ۔ جلسے اور ووٹ ڈالنے کی نفسیات بالکل مختلف ہے۔ پی ٹی آئی کے موجودہ جلسے کو بھی معیار نہیں بنایا جا سکتا البتہ میر ی ناقص رائے میں یہ جلسہ معیار کے حوالے سے بہت کامیاب تھا کیونکہ اس جلسے میں واقعتاً لگ رہا تھا کہ کوئی لیڈر خطاب کر رہاہے۔ عمران خان جو عرصہ پانچ سال سے جلسوں اور ریلیوں میں حکمراں جماعت کو جس طرح للکار رہا تھا ، اس جلسے میں ایسا نہیں تھا بلکہ بڑے نپے تلے اور سنجیدہ انداز میں آئندہ کا پروگرام لوگوں کے سامنے رکھا۔ عمران خان نے جو گیارہ نکات قوم کے سامنے رکھے وہ شاید کوئی نئے نہیں لیکن لوگوں نے اسکو سنجیدگی سے لیا ہے ۔ لوگوں کو عمران کا دو نہیں ایک پاکستان اور نیا پاکستان کا نعرہ بھی پسند نہیں آیا ۔
وہ اب بہت سنجیدگی سے سوچ رہے ہیں کہ ہمیںکوئی نیا پاکستان نہیں بلکہ 1947ء والا وہ پاکستان چاہئے جسکے بانی قائداعظم ؒ محمد علی جناح ہیں ۔ اسمیں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کے گیارہ نکات قابل عمل ہیں مگر ان نکات کو قائداعظم ؒ اور نظریہ پاکستان کی نظر سے دیکھیں تو ان میں کچھ اضافہ اور تشریح کی ضرورت ہے ۔ عوام کی یہ مجموعی سوچ ہے اور عمران خان سمیت تمام سیاسی رہنمائوں اور پارٹیوں کے سامنےہے کہ اب آئندہ الیکشن میں صرف ان امیدواروں اور سیاسی جماعتوں کو ووٹ دیں گے جو اس ایجنڈے کو مکمل کرنے کا عہد اور حلف دیں ۔ یہی ایجنڈا قائداعظم ؒ کی سوچ اور آئین پاکستان کا مظہر ہے۔
-1تعلیم سب کیلئے :تعلیم کی اہمیت سب سے زیادہ ہے ۔ ہمارا مذہب بھی اسکو پہلی حیثیت دیتا ہے ۔ یہ ہر شہری کا بنیادی حق بھی ہے مگر افسوس کہ ہم سب سے زیادہ سوتیلا سلوک بھی تعلیم کیساتھ کر تے ہیں۔ ہم نے 18ویں ترمیم کے ذریعے اس کی اہمیت کو بڑھانے کی کوشش کی مگر یکساں نظام تعلیم کو دفن کر دیا، اس لئے جب تک ہم ایک جیسا نظام تعلیم اور اسکے حصول کے مواقع سب کو فراہم نہیں کریں گے تو نہ غریب اور امیر کا فرق ختم کر سکتے ہیں اور نہ ہی صحیح معنوں میں جمہوریت اس ملک کا مقدر بن سکتی ہے۔
-2صحت کی سہولتیں:اس ملک کی اشرافیہ تو ملک کے اندر علاج نہیں کراتی ۔ جو یہاں علاج کراتے ہیں تمام سہولتوں پر قبضہ بھی انہیں کا ہے ۔ غریب کو تو نہ دوائیاں میسر ہیں اور نہ ہی علاج معالجے کی سہولتیں۔ اس لئے قومی ایجنڈے کے طور پر یہ قانون سازی ہونی چاہئے کہ سب کا علاج اس ملک میں ہوگا پاکستان بھر کے تمام قصبے ، تحصیل اور ضلعی ہیڈکوارٹرز پر ایک جیسی سہولتیں ہونی چاہئیں۔
-3انصاف سب کیلئے:اگر ہم یہ کہیں کہ ملک میں نظام انصاف صحیح کام کررہا ہے تو یہ بالکل جھوٹ ہے ۔ اس لئے یہ قومی ایجنڈا ہونا چاہئے کہ نچلی سطح سے لے کر سپر یم کورٹ تک انصاف سستا اورعام آدمی کی رسائی میں ہو—جسکے پاس بھاری فیسوں کے پیسے نہیں اور سپریم کورٹ تک کیس لے جانا ضروری ہے وہ فیس حکومت ادا کرے۔ اسی طرح وکیلوں کیلئے بھی فیس لینے کا کوئی ضابطہ طے کرنا ہوگا ۔
-4پانی و خوراک :سب سے زیادہ بیماریاں بھی گندے پانی اور ملاوٹ شدہ خوراک کیوجہ سے ہوتی ہیں۔ پھر مہنگائی سے عام اور غریب لوگوں کا جینا دوبھر ہوگیا ہے، ناقص خوراک و پانی فراہم کرنے والوں کو سرعام موت کی سزا دینی چاہئے ۔
-5ملک کے اندر انرجی کے شدید مسائل کا حل صرف ہاہیڈل پاور اسٹیشن ہیں ۔ اسکے ذریعے بجلی پیدا کی جانی چاہئے اور جہاں جہاں چھوٹے ،بڑے ڈیمز بنانے کی ضرورت ہے وہ پہلی ترجیح ہونی چاہئے۔
-6معیشت کاانحصار صرف قومی وسائل پر ہونا چاہئے غیر ملکی قرضے لینے پر پابندی ہو، سودی نظام سے ملک کو پاک کیا جائے اور لوگوں میں یہ اعتماد پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ ایک تو بہت ہی معمولی ٹیکسز کاٹے جائیں گے پھر ان ٹیکسوں کااستعمال صحیح معنوں میں ملکی ترقی میںکیا جائے گا۔ اگر یہ اعتماد بحال ہو جائے تو لوگ نہ صرف خوشی خوشی ٹیکس دیں گے بلکہ ملک کے اندر سرمایہ کاری بڑھے گی۔ نظام زکوٰۃ میںشفافیت لا کر غربت ختم کی جاسکتی ہے۔ ملک میں زراعت کو اولین ترجیح دینی چاہئے یہ نہ صرف انڈسٹری کا پہیہ چلائے گی بلکہ پوری دنیا خوراک کیلئے پاکستان کی محتاج ہو گی۔
-7احتساب سب کا :خود کار طریقے کے تحت ہر محکمے اور ادارے میںاحتساب کا مسلسل عمل جاری رہنا چاہئے اور بلاتفریق احتساب سے ملک سے کرپشن کو ختم کیا جا سکے گا۔ اس قومی ایجنڈے میں قطعی لچک نہیں ہونی چاہئے کیونکہ ہمارے مسائل کی جڑ ہی کرپشن ہے۔
-8فارن پالیسی:پاکستان کی ایک واضح، آزاد ، خودمختارفارن پالیسی ہونی چاہئے جس کا محورصرف ملکی مفاد ہو، یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم خود انحصاری پر یقین محکم رکھیں گے۔
-9وفاق کو مضبوط کرنا:یہ صرف اُسی وقت ممکن ہے جب ہم اختیارات کی نچلی سطح پر صحیح معنوں میں منتقلی کریں ،اس کیلئے صاف شفاف ایک جیسا بلدیاتی نظام پورے ملک میں لانا ضروری ہے۔ اسی طرح کمیشن بننا چاہئے کہ پورے ملک میں جہاں جہاں نئے صوبے بنانے کی ضرورت ہے وہ بنائے جائیں ،18ویں ترمیم کے تحت صوبوں کو اختیارات واقعتاً منتقل کئے جائیں اور وفاق کو مضبوط کرنے کیلئے اگر18ویں ترمیم میں نظرثانی کی ضرورت ہوتو ضرور کرنی چاہئے۔
-10سیاحت ، ماحولیات :پاکستان دینا کا بہترین اور خوبصورت ملک ہے اس کے ماحولیاتی مسائل پیدا کرنے والے عناصر کو ختم کر کے سیاحت کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔
-11ملکی دفاع اور دہشتگردی کا خاتمہ:اسمیں کوئی شک نہیں کہ ہم نے دہشت گردی کیخلاف بہت لمبی جنگ لڑی اور اسمیں ہماری افواج کا بہت اہم کردار ہے ہمیں اپنے دفاعی نظام اور فوج کومزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔
-12اظہار رائے کی آزادی ہونی چاہئے ، ذرائع ابلاغ عام کو ذمہ دار بنانے کیلئے ضابطہ اخلاق کا پابند بنانا ہوگا۔
-13تمام اداروں کا ایک متعین رول ہونا چاہئے اور انہیں آئینی تحفظ بھی حاصل ہو۔یہ سب اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر فرائض سرانجام دیں ۔
-14جس نظریئے کی بنیاد پر یہ ملک قائم کیاگیا ،اپنے سارے نظام حکومت اور معاشرے کو اس کے مطابق ڈھالنے کی عملی کوششیں ہونی چاہئے تاکہ ریاست مدینہ جیسی ایک مثالی ریاست قائم ہوسکے۔
آج کے دور کے تقاضوں کے مطابق قائداعظم ؒ کے یہی چودہ نکات ہو تے، جن پر پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں اوراسٹیک ہولڈرز کو متفق ہونا چاہئے ۔ موجودہ حالات کا یہ بھی تقاضا ہے کہ پاکستان کی تمام تر سیاسی جماعتوں کو متناسب نمائندگی کی طرز پر تمام صوبائی اور قومی اسمبلی میں نمائندگی دی جائے اور اس ایجنڈے پر عمل کیا جائے اس کے بعد کسی نئے پاکستان کے نعرے کی ضرورت نہیں ہوگی ۔ کیونکہ عوام صرف قائداعظم ؒ کا وہ پاکستان مضبوط اور مستحکم دیکھنا چاہتے ہیںجو14اگست 1947ء کو قائم ہوا تھا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)