• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چوہدری نثار علی خاں نے پریس کانفرنس میں جو کچھ کہا وہ اتنا نہیں تھا جتنا وہ جو انہوں نے کہا نہیں مگر کھلی مسکراہٹ، پُراعتماد لہجے، پریس کے ساتھ اٹکھیلیوں، بیان سے پہلے سوالات اور پریس کانفرنس کے بعد ادائے خاص سے اٹھ جانے میں نمایاں ہوا۔ وہ ہرگز کنفیوز نہیں آخری نتیجے پر پہنچ چکے ہیں۔ نتیجے پر پہنچنے میں شہباز شریف کے ساتھ ان کی علیحدہ ملاقاتوں میں ہونیوالے فیصلوں کا بنیادی کردار ہے، وہ پارٹی نہیں چھوڑیں گے اس لئے کہ نواز شریف کا کردار محدود ہوتا چلا جائے گا۔ ٹکٹوں کے قطعی فیصلے موجودہ صدر کریں گے۔ اگرچہ نواز شریف نے نیوز لیکس کے تسلسل کو جاری رکھا ہے لیکن پارٹی کی اکثریت ان سے اتفاق نہیں کرتی مگر ان میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں کہ اپنے لیڈر کے سامنے کھل کر بات کریں۔ چند خوشامد پیشہ قائد کی پیشوائی میں دوسروں کے خلاف بات کرتے ہیں جن کا کوئی سیاسی کردار ہے نہ پہچان، البتہ وہ نجی خدمت گزاری کا صلہ سیاسی عہدوں کی صورت میں حاصل کر لیتے ہیں۔ ان کے کردار کو آئندہ پارلیمنٹ میں ختم کر دیا جائے گا۔ ان کو یقین ہوگیا کہ مسلم لیگ حکومت سے جائے گی لیکن سیاست میں اس کا انجام پیپلز پارٹی جیسا نہیں ہو گا۔ متبادل کے طور پر موجود رہے گی۔ صاف ستھری سیاست کے عزم اور وعدے کے ساتھ ’’منزل نہیں رہنما چاہیے‘‘ کا نعرہ آئندہ نہیں لگایا جائے گا۔
ہمارے سرائیکی دوست نے اپنے ٹیلی ویژن پروگرام اور اخبار کے کالم میں صحیح لکھا کہ ذاتی طور پر شفاف (Clear)ہونا بالکل زیادہ قابلِ قدر نہیں جبکہ آپ غیر شفاف لوگوں کو روکنے یا باز رہنے کا مشورہ دینے کے بجائے انہیں جرائم سے نکلنے کا رستہ دکھاتے رہیں گے۔ گویا آپ کو اعتراض، بدعنوانی، کرپشن اور دفاعی اداروں کے ساتھ محاذ آرائی پر نہیں بلکہ ان سے بچ نکلنے کے طریقہ کار پر ہے۔ چوہدری نثار علی خان باخبر اور ہوشیار سیاستدان ہیں۔ یہ غیر ممکن ہے کہ موٹروے، پیلی ٹیکسی، شوگر فیکٹریوں کی مشینری، کاروں کی درآمد، ریونیو بورڈ کے قوانین میں محدود مدت کیلئے تبدیلی سے حاصل ہونیوالے فوائد سے لاعلم ہوں۔ جتنی خبر انہیں پیپلز پارٹی کی بداعمالیوں کی ہے اتنا ہی بھید اپنے گھر کا بھی جانتے ہیں لیکن گھر کے وہ بھیدی ہیں جو لنکا نہیں ڈھاتے۔
بلاشبہ ایک پیشہ ور وکیل کی طرح ان کے مشورے صائب تھے۔ اگر وکیل کی تجاویز مان لی جاتیں تو مقدمات میں گناہگار ہونے کے باوجود قانون کے سقم سے فائدہ اٹھایا جاسکتا تھا۔ انہیں اپنے مربی پر بجا طور پر رنج ہے کہ اس نے اپنے ساتھ وکیل کی لٹیا بھی ڈبو دی۔ سزایافتہ لکھ لٹ موکل ہمیشہ کیلئے ہاتھ سے گیا۔
سطور میں کم بین السطور میں اس سے بھی زیادہ کہا گیا جو اوپر بیان ہوا۔ وہ مربی کے انجام کو جان گئے اور مستقبل کیلئے اپنے کردار کا تعین کرچکے ہیں۔عرض کیا تھا مسلم لیگ کیچوے کی طرح لچکدار پارٹی ہے۔ اسے ٹکڑوں میں کاٹ دیا جائے تو ہر ٹکڑا متحرک کیچوا بن جاتا اور جلد ہی اپنی توانائی اور لمبائی کو پھر سے پالیتا ہے۔
مسلم لیگ کے ہاتھ سے اقتدار جانے کو ہے مگر پیپلز پارٹی کی طرح اس کا کردار ہمیشہ کیلئے محدود نہیں ہو گا۔ تحریک انصاف کیلئے اقتدار زیادہ دوری پر نہیں، اپنی انا کی قربانی دے کر مسلم لیگ (ن) میں شامل ہونے والے آزاد اور مسلم لیگ (ق) کے ممبران جو اپنا حلقہ انتخاب اور ووٹرز کا گروپ رکھتے ہیں، وہ تحریک انصاف میں شامل ہو جائیں گے۔ بھلے عمران خان ان کی شکل اور نام سے واقف نہ ہوں لیکن کپتان لوگوں کو بے عزت کرنے میں بھی دلچسپی نہیں رکھتے۔ خادم اعلیٰ کی جھڑکیاں اور قائد کا رویہ اُن کے دلوں پر نقش ہے۔
اپریل کا پورا مہینہ لاہور میں گزر گیا، چھوٹے بھائی میاں مشتاق امریکہ سے آئے تھے اور خالد بھائی تو تھے ہی لاہور میں، شامی صاحب، حفیظ اللہ نیازی سے بھی نیاز رہا۔ عثمان شامی کی شادی میں ایک باخبر ٹیلی ویژن میزبان نے کہا عمران خان ’’ کے پی ‘‘ میں آسانی سے جیت جائیں گے لیکن پنجاب میں ان کی کامیابی شاید دوہرا عدد حاصل نہ کرسکے۔ عرض کیا یہ 85ء سے آج تک کا معاملہ ہے۔ ہر انتخاب میں ایک عدد کالم لکھا حتیٰ کہ وہ انتخابات ایسے ہیں کہ میاں نواز شریف کے صلاح کار اور سرکاری مشیر عرفان صدیقی کو جیتنے والوں کی تعداد لکھ کر دی اب یاد رہے جن شہروں میں آپ کا خیال ہے کہ تحریک انصاف کے پاس امیدوار تک نہیں ہوں گے وہاں یہ حال ہونے جا رہا ہے کہ حکمرانوں کو ڈھونڈے سے امیدوار نہیں ملیں گے۔ جس طرح پیپلز پارٹی کو پچھلے الیکشن میں قلت کا سامنا تھا اب وہی مسلم لیگ کا مقدر بنے گی۔ مثلاً فیصل آباد کو لیجئے، شہر میں جو ہوگا سو ہوگا مگر ضلع بھر کی چھ سیٹوں پر لوگ یوں جوق در جوق آئیں گے۔ دھڑے کے دھڑے حریف اور مخالف جس طرح 85کی غیر جماعتی اسمبلی میں گجرات اور ملتان کے صدیوں کے حریف ضیاء الحق کی جھولی میں اکٹھے آن گرے تھے۔ ضیاء الحق میں یہ خوبی تھی اس نے کسی کی عزت کو مجروح کیا نہ عزت نفس کو، سب کو یوں شیشے میں اتارا کہ شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پینے لگے۔ عمران خان میں اس قدر لچک نہیں مگر وہ لوگوں کی بے عزتی کرنے کا عادی ہے نہ عزت نفس مجروح کرنے کا، اگرچہ وہ لوگوں کے نام اور شکلیں یاد نہیں رکھ سکتا تو کیا ہوا اس کیلئے تین مددگار کافی ہیں، جہانگیر ترین، شاہ محمود قریشی اور چوہدری سرور، یہ لوگوں کو خوب پہچانتے ہیں لہٰذا آنے والوں کو نئی پارٹی میں زیادہ پریشانی نہیں ہوگی۔
جنگل میں بعض درندے پائے جاتے ہیں ان پر جنون آئے، وہ ہرایک سے ٹکرا جاتے ہیں، پوری قوت سے سامنے آنے والا شیر ہو یا ہاتھی، وحشت زدہ کے جنون سے گھبرا کر یہ بھی کترا کر نکل جاتے ہیں مگر اس کا جنون اس سے بھی زیادہ کا طالب ہوتا ہے۔ درخت سے بھڑ جاتے اور اگر پہاڑ ہو تو سامنے چٹان کو نشانہ بنانے سے بھی نہیں چوکتے۔ پہاڑ تو پہاڑ ہے شیر ہاتھی کی طرح نہیں کہ طرح دے جائے۔ درخت کمزور ہوگا تو گر پڑے گا مگر پہاڑ ٹلنے کا نہیں، ٹکر زور کی ہوتی ہے کہ ٹکرانے والے کا بھیجا کچھ چٹان سے چمٹا، باقی اردگرد بکھر جاتا ہے۔ سیاستدان جو اداروں سے ٹکرائے تو ریاست اپنے آئینی اداروں سے دستبردار نہیں ہو سکتی جیسے پہاڑ اپنی چٹانوں سے، انجام جاننے کیلئے ارسطو اور افلاطون کی مدد درکار ہے نہ ہی ستارہ شناسوں کی۔
وزیر اعظم کیا سادہ ہیں یا تجاہل عارفانہ کے معنی سمجھ گئے۔ فرمایا ’’اقامہ‘‘ ویزہ ہوتا ہے۔ کوئی اسمبلی ممبر دوست ملک کا ویزہ رکھنے پر عمر بھر کیلئے نااہل کیسے ہو سکتا ہے؟ اقامہ ویزہ بھی ہو سکتا ہے لیکن اقامے کی بنیاد پر نااہل ہونے والے جو کہتے تھے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر نکال دیا۔ آج ان کا کہنا ہے بیٹے سے تنخواہ لینے نہ لینے پر نکال دیا۔ وزیر اعظم نے سیالکوٹ میں جس اقامے کا ذکر کیا ہے اس کی کہانی بڑی دلچسپ ہے۔ وزیر اعظم کے مذکورہ دوست دبئی میں ہمہ وقتی ملازم تھے ۔کیا محترم وزیر اعظم اس پُراسرار ملازمت کی خطرناکی اور ہلاکت خیزی سے قوم کو آگاہ فرمائیں گے؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین