• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ اور بھارت کے درمیان طویل مدتی گٹھ جوڑ پاکستان اور ایران ہی نہیں بلکہ خطے اور دُنیا کے لئے خطرے کی علامت بن کر سامنے آیا ہے، یہ گٹھ جوڑ اس قدر دوررس اور منفی نتائج کا حامل ہے کہ دُنیا میں علاقائی و عالمی جنگ کا سبب بن سکتا ہے۔ اِس گٹھ جوڑ کے خدوخال 2005ء میں بننا شروع ہوئے تھے، جب امریکہ اور بھارت کے درمیان سول ایٹمی معاہدہ ہوا تھا اور اس کی منظوری امریکی کانگریس نے 2008ء میں دے دی تھی، اسکے بعد بھارت اور امریکہ کے درمیان دو اہم معاہدے ہوئے، پہلا معاہدہ ایک دوسرے کی بندرگاہوں کے استعمال سے متعلق تھا جبکہ دوسرا جہازوں کے درمیان رابطے کے لئے مواصلاتی نظام لگانے سے تعلق رکھتا تھا تاکہ ایک دوسرے کی زبان کو سمجھنے کے لئے ایسا انٹرفیس لگایا جائے کہ امریکی اور بھارتی بحری فوجی جو زبان استعمال کریں وہ ایک دوسرے کے بحری سپاہی یا افسران سمجھ سکیں۔ 8 اگست 2014ء کو امریکی وزیردفاع چیک ہیگل نے بھارت کا دورہ کیا اور اُس کو سات جدید ہتھیاروں کی پیداوار کرنے کی پرکشش پیشکش کی اور یہ کہ وہ کسی اور ملک کو انہوں نے اب تک نہیں دی ہے اور نہ ہی دیں گے۔1۔ حسابی طریقے سے میزائل یا حملے کی صورت میں کسی قسم کی رکاوٹ کو ہٹانے،2۔ سپر کمپیوٹر جیسا کہ امریکہ کے پاس ہے جس میں ای میل ٹیلی فون کال اور زیادہ سے زیادہ معلومات محفوظ کی جاسکے جو پھر جاسوسی کے لئے بھی کام آسکتی ہے،3۔ مستعد و متحرک نگرانی، جاسوسی کا نظام، 4۔ٹینک کو تباہ کرنے کا نظام، 5۔جیوفل میزائل تیز رفتار اور محفوظ جو زمین سے فضا میں مار کرنے کا کام کرتا ہے،6۔مقناطیسی غلیل جو چھوٹے سے چھوٹے بحری جہاز کو اڑانے یا اتارنے کی صلاحیت رکھتی ہے، 7۔ ہاک 21، جو فضائی دفاع اور جنگی میدان میں حملہ کرنے کی صلاحیت سے بھرپور اور جنگ کا پانسہ پلٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے، مزید برآں امریکہ نے بھارت، جاپان اور آسٹریلیا سے مل کر چین کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کے لئے ایک ایشیائی نیٹو بنانا شروع کردیا ہے جبکہ بھارت اور امریکہ کا خفیہ ایجنڈا پاکستان کےایٹمی ہتھیاروں کو بے اثر کرنا ہے۔ اس نے پاکستان کے خلاف بھارت کو افغانستان میں کھل کر کام کرنے کی اجازت دےدی ہے، پاکستان کے خلاف مختلف نسلی و تہذیبی جنگ اور چوتھی نسل کی جنگ مسلط کی ہوئی ہے، جس میں مسلکی، نسلی، لسانی جنگ کرا کر ملک کو کمزور کرنا اور سارے حربے استعمال کرکے خانہ جنگی مسلط کرنے کا پروگرام شامل ہے، بالکل اس طرح سے جیسا کہ 2011ء سے شام پر مسلط کی ہوئی ہے، اُس کو خون میں نہلا دیا ہے، شام میں امریکہ یا اس کے اتحادی کمزور پڑتے ہیں تو بہانہ بنا لیا جاتا ہے کہ شامی فوج کیمیائی ہتھیار استعمال کررہی ہے، اگرچہ امر واقعہ یہ ہے کہ داعش کے لوگ گھیرے میں آئے ہوتے ہیں، اس بہانے سے حملہ کرکے داعش پر دبائو کم کر دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے شمالی کوریا کو چین کے ذریعے رام کیا اور وہ جو امریکہ کو ایٹمی جنگ کی دھمکی دے رہا تھا، شمالی کوریا کے صدر سیول جا پہنچے اور جنوبی کوریا کے رہنمائوں سے ملاقات کرکے صلح کا پیغام دیا اور یہ بھی کہ وہ ایٹمی پروگرام کو ختم کردیں گے اور ایٹمی ہتھیار تلف کردیں گے۔ حال ہی میں 8 مئی 2018ء کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شمالی کوریا کا بھرم توڑ کر توانائی حاصل کی اور ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدہ ختم کردیا، جو P5+1 کہلاتا ہے۔ یعنی پانچ بڑی طاقتیں اور ایک جرمنی جس میں برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے افسوس کا اظہار کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ وہ ایران سے تعلق قائم رکھیں گے مگر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ ایران پر سخت پابندی لگائے رکھیں گے اور جو ملک بھی اسکا ساتھ دیگا اُس کو بھی نہیں بخشیں گے۔ ٹرمپ اس وقت انتہائی جارحانہ انداز اختیار کئے ہوئے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ بھارت کو ایران کے معاملے میں پہلے کی طرح استثنیٰ دینگے یا بھارت کو بھی ایک ہی لکڑی سے ہانکیں گے۔ میں نہیں سمجھتا کہ امریکی کوئی اخلاقی و مورل بنیادوں پر کام کرتے ہیں، اس وقت امریکہ کو کئی محاذوں پر مشکلات کا سامنا ہے، اس کا معاشی نظام جس میں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف ہیں وہ خطرے میں پڑ گئے ہیں اور چین، روس اور دیگر ممالک نے برکس نامی تنظیم بنالی ہے اور ساتھ آئی ایم ایف کی طرح کے بینک کی بنیاد ڈال دی ہے جس نے امریکہ کی روس کو تباہ کرنے کی سازش ناکام بنا دی تھی اور اُس کے تیل کی یورپ میں درآمد بند کرا کر اُس کی معیشت کو ٹھکانے لگانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ کیونکہ روس کی معیشت کا 80 فیصد انحصار اُس کے تیل کی فروخت پر ہے، چین نے روس کا تیل خرید کر روس کی معیشت کو سنبھالا دیا، اسی طرح وہ پاکستان کی معیشت کو سہارا دینے کے لئے دستیاب ہے۔ دوسرے اس کے پیٹرو ڈالر کےنظام کو سخت خطرات لاحق ہوگئے ہیں کیونکہ چین اور روس نے اپنی اپنی کرنسیوں میں لین دین شروع کردیا ہے۔ اس طرح پاکستان اور چین بھی توآن اور روپے میں ایک دوسرے سے تجارت کرنے کے لئے پرتول رہے ہیں۔ یوں روس اور چین کا چیلنج بڑھتا ہی جارہا ہے جبکہ امریکی خواہش یہ ہے کہ دنیا میں ایسا نظام ہو کہ کوئی ملک اس کا مدمقابل نہ ہو اور اس کا سکہ چلے اور اسی کا ڈنکا بجتا رہے۔ وہ ساری دنیا پر اپنے قوانین کے نفاذ کا خواہاں ہے۔
اب ایسی صورتِ حال میں امریکہ بڑے جارحانہ انداز میں ہر کسی کو دھمکی دے رہا ہے،بعض عرب ممالک اس سے انتہائی مرعوب ہیں اور انہوں نے حال ہی میں بیان دیا کہ اُن کے 7 ٹریلین ڈالرز مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک کی حفاظت میں دریابرد ہوگئے ہیں مگر وہ یہ بات بھول گئے کہ وہ ان ممالک کی اس وجہ سے حفاظت کرتا تھا کہ اُن کے تیل کی ضرورت تھی یا اُن کے تیل کے کنوئوں کو خشک کرنا چاہتا تھا اور اپنے ملک کے تیل کے ذخائر کو محفوظ رکھا۔ اب وہ تیل کے معاملے میں مشرق وسطیٰ کا محتاج نہیں بلکہ خودکفیل ہے، اس نے پہلے دوسرے ممالک کا تیل ختم کیا کہ اُن کا تیل کسی اور کے استعمال میں نہ آسکے۔ یہ کہنا حق بجانب ہوگا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی مشرق وسطیٰ میں اتھل پتھل بہت تیزی سے کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ واضح رہے کہ مشرق میں اُن کی اصطلاح کے مطابق پاکستان اور ایران و افغانستان بھی آتے ہیں۔ ان کا عظیم تر اسرائیل بنانےکے منصوبے پر عملی قدم اٹھانے کا وقت آگیا ہے۔ وہ چین اور روس کو اس ساری کارروائی میں عضو معطل کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے، امریکہ عالمی جنگ کی دھمکیاں 2014ء سے دے رہا ہے کہ امریکی بالادستی کو قائم رکھنے اور اس کا معاشی نظام بحال رکھنے کے لئے ایک بڑی جنگ کی ضرورت ہے سو وہ اب ایسا کرنے جارہا ہے۔ وہ بھارت کو اپنے جال میں پھنسا چکا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ بھارت کیا کردار ادا کرتا ہے، آیا وہ اس کا بغل بچہ بن کر انسانیت کو خطرہ میں ڈالتا ہے یا انسان بن کر انسانیت کو بچانے میں کوئی کردار ادا کرتا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین