• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صرف دو ہفتے بعد اسمبلیاں تحلیل ہو جائیں گی ۔ نئے انتخابات 60دن کے اندرکروانا ہونگے ۔جس کیلئے تیاریاں شروع ہوچکی ہیں۔ الیکشن کمیشن نے ملک بھر میں 131ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرز ، ریٹرننگ آفیسرز اور اسسٹنٹ ریٹرننگ آفیسرز کی تعیناتی کا اعلان کر دیا ہے۔ ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرز ڈسٹرکٹ سیشن ججز ہونگے ،تاہم کچھ اضلاع اور فاٹا میں جوڈیشل افسران کی عدم دستیابی کی وجہ سے وہاں ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرز انتظامیہ سے لئے گئے ہیں۔ اسطرح ریٹرننگ آفیسرز کی اکثریت کا تعلق بھی ماتحت عدلیہ سے ہے ۔ خیبر پختوانخوا میں قومی اسمبلی کی 39نشستوں کیلئے 39اور صوبائی اسمبلی کی 99نشستوں کیلئے 99ریٹرننگ آفیسرز ہونگے ۔ پنجاب کی 141قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی 297نشستوں کیلئے 448ریٹرننگ آفیسرز تعینات ہونگے۔ سندھ میں قومی اسمبلی کی 61اور صوبائی اسمبلی کی 130نشستوں کیلئے 191یٹرننگ آفیسرز جبکہ بلوچستان قومی اسمبلی کی 16اور صوبائی اسمبلی کی 51نشستوں کیلئے 112 ریٹرننگ آفیسرز ہونگے۔ اسی طرح اسلام آباد کی تین نشستوں کیلئے تین ریٹرنگ آفیسرز تعینات کر دیئے گئے ہیں۔ جبکہ الیکشن کمیشن نے اعتراضات دُور کر کے حلقہ بندیوں کی حتمی فہرستیں جاری کر دی ہیں۔ گو کچھ امیدواروں نے حلقہ بندیوں پر اعتراضات کے حوالے سے ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ ووٹرفہرستوں میں تبدیلی اور نئے ووٹوں کے اندراج کا مرحلہ مکمل اور اب ان کی چھپائی کا پراسیس بھی شروع ہوچکا ہے ۔ عام انتخابات کی خامیاں دُور کرنے کیلئے پہلے مرحلے میں تین ہزار ماسٹر ٹرینرز تیار کئے جائینگے جو آگے انتخابی عملے کی تربیت کرینگے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ خودمختار ، آزاد الیکشن کمیشن نے بڑی تیزی سے تیاریاں شروع کر رکھی ہیں اور انتخابات کے شفاف اور منصفانہ انعقاد کیلئے احتیاط کے طور پر بہت پہلے ہی سرکاری ملازمین کے تبادلوں پر بھی پابندی لگا دی ہے ،لیکن افسوس کہ ابھی سے الیکشن کے التوا اور پری پول دھاندلی کی بڑی بڑی آوازیں دن رات اٹھنا شروع ہوگئی ہیں۔ ان آوازوں کے ہوتے ہوئے مشکوک الیکشن کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ چونکہ الیکشن کا سیزن شروع ہوتے ہی سیاسی پرندے بھی اُڑانیں بھرنا شروع کر دیتے ہیں اور یہ ابتدا ن لیگ سے ہوئی تو سابق نااہل وزیراعظم نواز شریف نے مجھے کیوں نکالا اورجنہوں نے میرے خلاف فیصلے دیئے ، انہیں نہیں چھوڑیں گے کا بیانیہ فوری طور پر بدلتے ہوئے یہ راگ الاپنا شروع کر دیا ہے کہ ن لیگ کا مقابلہ عمران اور زراداری سے نہیں بلکہ خلائی مخلوق سے ہے۔ مجھے نااہل کرنے کے بعد اب ن لیگ کو ہرانے کیلئے آزاد امیدواروں کو جتایا جائیگا اور ہم خلائی مخلوق کا ڈٹ کر مقابلہ کرینگے۔ نواز شریف کے بارے میں اب یہ عام خیال ہے کہ چونکہ وہ نااہل ہوچکے ہیں ، انہیں پتہ ہے کہ وہ اسمبلی میں واپس نہیں آسکتے اسلئے ان کا تو یہ بیانیہ ہے کہ وہ کسی کو بھی کھیلنے نہیں دینگے، جس قدر ہوسکے حالات خراب کئے جائیں اور الیکشن کے حوالے سے اتنے زیادہ خدشات پیدا کر دیئے جائیں کہ انتخابات کے بعد اگر وہ کم سیٹوں پر جیتے تو اسکی بنیاد پرخون خرابہ کیا جا سکے کہ یہ انتخابات دھاندلی زدہ تھے ۔ اُن کے اس بیانیہ کو منتخب وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے یہ بیان جاری کر کے تقویت دی کہ الیکشن نگراں نہیں بلکہ خلائی مخلوق کرائیگی۔ نواز شریف کی خلائی مخلوق والی بات تو ہر کسی کو اس حد تک آنکھیں بند کر کے سچ ماننا چاہئے کہ پاکستان کی سیاست اور انتخابات میں ہار جیت کا فیصلہ اب تک کسی اور جگہ ہوتے رہے اور نواز شریف تین مرتبہ وزیراعظم اسی طرح بنے ۔عوام کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی اپنی آب بیتی کی تصدیق گذشتہ ہفتے سپریم کورٹ میں اصغر خان کیس کے فیصلے پر عملدرآمد سے بھی ہوگئی ہے۔ اب یہ الیکشن کمیشن کا امتحان ہے کہ وہ آئین کے آرٹیکل 218کے تحت غیر جانبدار ، منصفانہ اور آزاد انتخابات کیلئے کیا اقدامات کرتا ہے ۔ گو اسکے ترجمان نے خلائی مخلوق کے وزیراعظم کے بیان کی سخت تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ انتہائی اہم منصب پر بیٹھی شخصیت کو مفروضوں اور قیاس آرائیوں پر مبنی بیانات سے گریز کرنا چاہئے ، ایسی باتیں کمیشن کے مینڈیٹ کی بھی خلاف ورزی ہیں، ا سمیں کوئی شبہ نہیں کہ الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل 2018ء ،220اور الیکشن ایکٹ 2017ء کے سیکشن 10,9,8,6,5,4اور 11کے تحت اپنی آئینی اور قانونی ذمہ داریوں میں مکمل آزاد ہے۔ لیکن افسوس کہ د و سال میں مستقل صوبائی کمشنرز تعینات نہیں کر سکا ،اور ان پر گریڈ 21کی بجائے گریڈ 20کے آفیسرز کام کر رہے ہیں ۔ الیکشن ایکٹ 2017ء کی منظوری کے فوراً بعد سیکشن(3) 79 کے حوالے سے سنگین خامی کی نشاندہی ہوئی مگر اس سلسلے میں کوئی اقدام نہیں کیاگیا ،اس وقت جتنا خود مختار اور آزاد الیکشن کمیشن ہے یہ پہلے نہیں تھا ۔ اس کیساتھ ساتھ تین چیف آف آرمی سٹاف جمہوری نظام کو مضبوط بنانے کیلئے کئی بار اعادہ کر چکے ہیں ۔ جسکی مثال ہمارے سامنے ہے کہ لگا تار دو حکومتیں اپنا پانچ سالہ دور بخیرو عافیت مکمل کر چکی ہیں۔ موجودہ فوجی قیادت اور چیف جسٹس سپریم کورٹ نے جمہوریت کی مضبوطی کا عزم کیاہے ، اس کے باوجود سیاستدان نادیدہ قوتوں اور خلائی مخلوق کے بیانات دیکر انہیں سیاست میں گھسیٹنے کی بھر پور کوشش میں ہیں، اسلئے الیکشن کمیشن کو مزید محتاط ہونے کی ضرورت ہے ۔ چونکہ ماضی میںایسے حالات اور واقعات رونما ہوچکے ہیں اور پاکستان میں آج تک ہونیوالے انتخابات کے بعد دھاندلی کی آوازیں اٹھتی رہی ہیں، 1970ء کے عام انتخابات کے حوالے سے کہا گیا کہ یہ بڑے غیر جانبدار تھے لیکن انکے نتائج کو تسلیم نہ کیا گیا تو ملک دو لخت ہوگیا ، پاکستان کیلئے یہ انتخابات بہت المناک ثابت ہوئے ۔1977ء کے انتخابات کے نتائج کوحزب اختلاف کی 9 جماعتوں کے اتحاد نے مسترد کردیا تو مارشل لاء کی شکل میں نتائج سامنے آئے ۔ 1985ء میں جنرل ضیاء الحق نے غیر جماعتی بنیادوں پر الیکشن کراکے ملک کا کلچر ہی تبدیل کر دیا اور نواز شریف کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنا دیا گیا ۔ 1988ء کے انتخابات کے بعد پی پی کونادیدہ قوتوںنے پنجاب میں حکومت بنانے سے محروم رکھا اور نواز شریف کو وزیراعلیٰ بنایا اور مرکز میں بینظیر بھٹو کی حکومت صرف 18مہینے چل سکی ۔ اکتوبر 1990ء انتخابات کے وقت بینظیر کو شکست دینے کیلئے آئی جے آئی بنوائی گئی اور آج اصغر خان کیس میں یہ کردار ثابت ہوچکا ہے ۔ اس وقت بینظیر کا یہ موقف تھا کہ الیکشن 1990ء میں سخت دھاندلی سے نواز شریف وزیراعظم بنے ۔ پھر فروری 1997ء میں عام انتخابات کے بعد نوازشریف دو تہائی اکثریت حاصل کر کے دوسری مرتبہ وزیراعظم بنے لیکن وہ فوج کیساتھ مخاذ آرائی سے باز نہ آئے اور جلاوطنی اختیار کرنا پڑی۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد نواز شریف تیسری مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئے۔ ان انتخابات کے حوالے سے بھی دھاندلی کی آوازیں اب تک سنائی دے رہی ہیں۔ اب جولائی2018ء کو نئے انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ گو اب حالات بہت بدل چکے ہیں لیکن ان کے منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انعقاد کے حوالے سے خدشات موجود ہیں۔ان خدشات کو دور کرنا اور لوگوں کا ان کے ووٹ کے حق کی صحیح معنوں میںحفاظت کرنا خود مختار الیکشن کمیشن کا سب سے بڑاچیلنج ہے۔ اگر ان انتخابات کے حوالے سے بھی پہلے جیسی آوازیں اٹھیں تو پھر اس ملک کے نصیب میں کبھی جمہوریت نہیں آسکے گی!
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین