• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک، آئین یا حلف سے غداری یقیناً ایک بڑا سنگین جرم ہے مگر ہمارے ہاں یہ الزام لگاتے ہوئے اس کی سنگینی کو شاید ہی کوئی سامنے رکھتا ہے بلکہ اس کے مد نظر تو صرف سیاست ہوتی ہے اور اپنے مخالف کو نیچا دکھانا ہوتا ہے۔ پاکستان میں کئی سیاستدانوں پر یہ الزامات لگ چکے ہیں مگر کبھی کسی پر ثابت نہیں ہوئے۔وقتی سیاسی فائدے کے لئے غداری کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے اور جونہی وقت گزرتا ہے تو یہ الزامات خود بخود ہی دفن ہو جاتے ہیں اور ’’غدار‘‘’’محب وطن‘‘بن جاتے ہیں۔ 70کی دہائی میں نیپ (نیشنل عوامی پارٹی) پر ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے پابندی لگائی اور خان عبدالولی خان کا ٹرائل بھی کیامگر جونہی 1977میں مارشل لالگا تو ولی خان کو رہا کر دیا گیا۔اب یہ جماعت عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی ) کے نام سے جانی جاتی ہے جس کے سربراہ اسفند یار ولی ہیں ۔یہ پارٹی اس وقت بھی محب وطن ہی تھی ورنہ جنرل ضیاء الحق ولی خان کو رہا نہ کرتے اور آج بھی محب وطن ہے ۔ اس نے اپنی حب الوطنی کی تاریخ بڑے سنہری حروف میں لکھی جب کچھ سال قبل خیبر پختونخوا میں اس کی حکومت تھی اور اسے سخت دہشت گردی کاسامنا تھا جس میں اس کے کئی اہم رہنمائوں نے جام شہادت نوش کیا۔ یہ جنگ لڑتے ہوئے اے این پی بار بار کہتی رہی کہ وہ پاکستان کی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو پر بھی غداری کا الزام لگا کہ انہوں نے ملک توڑا ہے ۔ان کی دختر بے نظیر بھٹو شہید کو بھی سیکورٹی رسک قرار دیا گیا اور یہ الزام لگایا گیا کہ ان کی حکومت نے سکھوں کی لسٹیں بھارت کو دی ہیں۔
اب غداری کا الزام معزول وزیراعظم نوازشریف پر لگایا جارہاہے جب انہوں نے ممبئی دہشت گرد حملے کے بارے میں کچھ ریمارکس دیئے ۔ ان کے خلاف ملک کے کچھ تھانوں میں غداری کے مقدمات درج کرنے کی درخواستیں دی جارہی ہیں اور مختلف شہروں میں احتجاج بھی منعقد کئے گئے جو کہ یقیناً ایک منصوبے کے تحت کئے جارہے ہیں مقاصد صرف اور صرف سیاسی ہیں کیونکہ ان کی عوامی مقبولیت ان کے مخالفین کے لئے عذاب بنی ہوئی ہے اور وہ ہر حربہ استعمال کر رہے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح اسے ٹھیس پہنچائی جائے۔کتنی شرم کی بات ہے کہ پاکستان کے بانی قائداعظم محمد علی جناح کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کو بھی انڈین ایجنٹ قرار دیا گیا تھا ٗ کتنی بڑی ستم ظریفی ہے کہ بے نظیر بھٹو کو بھی سیکورٹی رسک قرار دیا گیا اور کتنا ظلم ہے کہ چھوٹے چھوٹے سیاسی مفادات کے لئے اب 3بار وزیراعظم منتخب ہونے والے نوازشریف کو بھی غدار کہا جارہاہے ۔ایسے سرٹیفکیٹ بانٹنے کا سلسلہ بند ہونا چاہئے ۔ اس طرح کی یاوہ گوئی ہمارے ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کو ظاہر کرتی ہے کہ جو بھی پاپولر لیڈر ہو اس پرغداری کا لیبل لگا دیا جائے ۔ محترمہ فاطمہ جناح کو فراڈ کے ذریعے صدارتی الیکشن میں ہرایا گیا تھا اور ان پر انڈین ایجنٹ کے الزام نے بھی ان کی مقبولیت اور احترام میں کوئی کمی نہیں کی تھی۔ اسی طرح بے نظیر بھٹو پر بے شمار بے ہودہ الزامات نے کبھی بھی ان کی پاپولرٹی میں کمی نہیں کی اگر اب پیپلزپارٹی کی اسٹینڈنگ کافی کم ہوئی ہے تو اس کی وجہ غداری کمپین نہیں بلکہ آصف زرداری کی حکومت کی بدترین کارکردگی تھی۔ اب ہر حربہ استعمال کیا جارہاہے کہ ہر قسم کا الزام لگا کر نوازشریف کو سیاسی نقصان پہنچایا جائے مگر مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو رہے ۔ کئی پروجیکٹس پچھلے 5سال سے ان کے خلاف جاری ہیں اور جوں جوں عام انتخابات قریب آرہے ہیں ان میں تیزی آرہی ہے تاکہ کسی نہ کسی طرح ن لیگ کو بری طرح ہرایا جائے یا کم ازکم اسے اس حالت میں کردیا جائے کہ وہ بہت زیادہ سیٹیں نہ لے سکے ۔
پچھلے کئی سالوں کے دوران صرف جنرل (ر) پرویز مشرف ہی ہیں جن پر آئین سے انحراف کی وجہ سے آرٹیکل 6کے تحت سنگین غداری کا مقدمہ ایک اسپیشل کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ عدالت کیا فیصلہ کرتی ہے یہ تو بعد کی بات ہے مگر سپریم کورٹ نے انہیں سنگین غداری کا مجرم قرار دیا تھا۔وہ تو نوکری پیشہ تھے نوکری ختم ہوئی اور ان کا طمطراق اور سیاسی مستقبل بھی ختم ہو گیا ۔چونکہ وہ سیاستدان نہیں اور ان کے سیاسی مخالفین نے ان پر یہ مقدمہ نہیں بنایا لہذا ان کی عوام میں پذیرائی کی بات کرنا بے معنی ہے کیونکہ وہ تو سرے سے ہے ہی نہیں ۔ تاہم سیاستدانوں پر لگائے جانے والے غداری اور سیکورٹی رسک جیسے الزامات پر عوام کا کیا ردعمل ہے اس کا اندازہ ہر الیکشن میں بخوبی ہو جاتا ہے ۔ ووٹرز نے کبھی بھی اس طرح کی کمپین پر توجہ نہیں دی ۔ اب کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ نوازشریف کے ممبئی حملوں پر بیان نے ان کو سیاسی طور پر نقصان پہنچایا ہے ۔ہماری رائے میں ایسے تبصرے کی اس وقت ضرورت نہیں تھی جبکہ انتخابات سرپر ہیں۔ معزول وزیراعظم اور ان کے ایڈوائزرز کو چاہئے کہ وہ اپنی توجہ صرف اور صرف الیکشن پر رکھیں ۔ اگر وہ انتخابی دنگل میں اپنی توقعات کے مطابق نتائج حاصل کر لیتے ہیں تو پھر جو بھی پالیسیاں اور حکمت عملیاں ان کے ذہن میں ہیں ان پر ان کی حکومت عمل کر سکتی ہے۔اس وقت کوئی ایسا بیان نہیں دینا چاہئے اور نہ ہی کوئی ایسی حرکت کرنی چاہئے جس سے انہیں الیکشن میں کوئی ذرہ بھر بھی نقصان ہو اور خواہ مخواہ ان کے مخالفین کے ہاتھ میں ہتھوڑا آجائے جسے وہ ان پر چلانا شروع کردیں۔ن لیگ کے لئے بہترین پلان یہ ہوسکتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اپنی حکومتی کارکردگی کی بات کریں جو کہ یقیناً بے مثال ہے ۔ تحریک انصاف کا نوازشریف کے خلاف غداری کاراگ الاپنا بالکل غیر معمولی نہیں کیونکہ اس کا ردعمل اگر ایسا نہ ہو تو پھر حیرانی ہونی چاہئے ۔ جو گھنائونا کھیل وہ 2013کے عام انتخابات کے بعد کھیل رہی ہے اور جس طرح وہ دوسرے ہاتھوں میں ناچ رہی ہے اس پر ہر جمہوری فرد کا سر شرم سے جھک ہی سکتا ہے ۔ویسے بھی یہ جماعت نوازشریف پر غداری کا الزام پہلی بار نہیں لگا رہی بلکہ اس کی ساری سیاست ہی الزامات پر مبنی ہے۔ جس دن وہ نوازشریف اور شہبازشریف پر الزامات کی گولہ باری نہ کریں انہیں نیند نہیں آتی اور یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ یہی بات وہ اپنے مشیران کو بتا بھی چکے ہیں۔ افسوس تو ہوتا ہے پیپلزپارٹی کے رویے پر جب وہ بھی ایسی زبان بولنا شروع کردے جوکہ اس کے مخالفین اس کے بانی ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو شہید کے خلاف استعمال کرتے رہے ہیں ۔ تاہم اس کے خلاف دوسری دلیل یہ ہوسکتی ہے کہ کیا حرج ہے اگر پیپلزپارٹی بھی اپنے مخالفین کے ساتھ وہی رویہ اختیار کرے جو وہ اس کے ساتھ کرتے رہے ہیں کیونکہ یہ تو سیاست ہے اور سیاست میں سب کچھ جائز ہے۔ جولائی میں ہونے والے عام انتخابات یہ ثابت کریں گے کہ غداری کے منترنے نوازشریف کو کیا نقصان یا فائدہ پہنچایا ہے ۔خیال یا توقع تو یہ ہے کہ پلان کے تحت ن لیگ کے کچھ رہنما یہ کہتے ہوئے جماعت کو چھوڑ دیں گے کہ ان کے قائد کے حالیہ بیان نے ان کو دلبرداشتہ کر دیا ہے اور وہ اس پارٹی کے ساتھ مزید نہیں چل سکتے مگر ایک ہفتہ ہونے کو ہے ابھی تک تو کوئی ایسا ہلا گلا نظر نہیں آیا جس سے ظاہر ہو ۔ اب بھی اس کے ساتھ رہنے والے امیدوار سمجھتے ہیں کہ اگر وہ آئندہ انتخابات میں جیت سکتے ہیں تو یہ صرف ن لیگ کے ٹکٹ کی وجہ سے ہی ممکن ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین